أن الحمد لله نحمده ونصلى على رسول الله أما بعد أعوذبالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم قال تبارك و تعالى
ما كان مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً (سورة احزاب 40)
لوگو! تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد ﷺ نہیں لیکن آپ اللہ کے رسول ہیں اور امام نبیوں کے ختم کرنیوالے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا بخوبی جاننے والا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کائنات آفرین میں جب انسانیت کی رشد و ہدایت کیلئے اپنے کسی بندے کو مبعوث فرمایاتو باطل اس کے راستے میں آڑبن کے کھڑا ہوا اور جہاں تک ہوا رشد وھدایت کو زیر کر کے اپنے باطل نظریات کو رائج کرنے کیلئے جہد بسیار کی چو نکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ عہد مصمم ہے کہ وہ اپنے دین کو مخلص بندوں تک پہنچا کے رہیگا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ
’’اللہ اپنے نور کو کمال تک پہنچانے والا ہے گو کافر براما نیں۔‘‘
(الصف: ۸)
ایک دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا:
يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ﴿٣٢﴾
وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھادیں اور اللہ تعالیٰ انکاری ہے مگر اسی بات کا کہ اپنا نور پورا کرے گا گو کافر ناخوش رھیں۔‘‘
(التوبہ : ۳۲)
اس لیے اسے منہ کی کھا کر نیست و نابود ہو نا پڑا، سید نا آدم علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی راہنمائی کیلئے مبعوث فرمایا تو ابلیس اپنے شیطانی عزائم کو لے کر سامنے آکھڑا ہوا اور کچھ یوں اظہار کرنے لگا:
قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿١٦﴾ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ ﴿١٧﴾
اس نے کہا سبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گمراہ کیا ہے میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے لیے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔ پھر ان پر حملہ کروں گا ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی اور انکی داہنی جانب سے بھی اور ان کے بائیں جانب سے بھی اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیں گے ‘‘
(الاعراف: ۱۶،۱۷)
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو جب باری تعالیٰ نے منصب نبوت عطا کیا کہ تو فرعون کے ظلم و ستم سے مملوء ہاتھوں کو روک، اور انہیں میرے جادۂ مستقیم کی طرف پکارا تو اس وقت فرعون اپنے ظالمانہ رویہ و باطل نظریات و افکار لے کر اللہ تعالیٰ کے اس محبوب بندے کے مقابلے میں آکھڑا ہو۔ اللہ کے قرآن نے فرعون اور آل فرعون کے باطل خیالات کو یوں بیان فرمایا ہے:
فَلَمَّا جَاءَهُم مُّوسَىٰ بِآيَاتِنَا بَيِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى وَمَا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ ﴿٣٦﴾
پس جب موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس ہمارے دیئے ہوئے کھلے معجزے لے کر پہنچے تو وہ کہنے لگے یہ تو صرف گھڑ گھڑا یا جادو ہے ہم نے اپنے اگلے باپ دادوں کے زمانہ میں کبھی یہ نہیں سنا۔
(القصص:۳۶)
ایک دوسرے مقام پر بایں الفاظ ارشاد فرمایا:
قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ إِنَّ هَٰذَا لَسَاحِرٌ عَلِيمٌ ﴿١٠٩﴾ يُرِيدُ أَن يُخْرِجَكُم مِّنْ أَرْضِكُمْ ۖ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ ﴿١١٠﴾ قَالُوا أَرْجِهْ وَأَخَاهُ وَأَرْسِلْ فِي الْمَدَائِنِ حَاشِرِينَ ﴿١١١﴾ يَأْتُوكَ بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِيمٍ ﴿١١٢﴾
قوم فرعون میں جو سردار تھے انہوں نے کہا کہ واقعی یہ شخص بڑا ماہر جادو گر ہے وہ یہ چاہتا ہے کہ تم کو تمہاری سرزمین سے باہر کر دے تو تم لوگ کیا مشور ہ دیتے ہو انہوں نے کہا کہ آپ ان کو اور ان کی بھائی کو مہلت دیجیے اور شہروں میں ہر کاروں کو بھیج دیجئے کہ وہ ماہر جادو گروں کو آپ کے پاس لا کر حاضر کریں۔
(الاعراف ۱۱۲)
جب سید نا ابراہیم علیہ السلام خالق کا ئنات کا پیغام توحید اہل دنیا تک پہنچانے کی غرض سے مبعوث ہوئے تو نمرود بادشاہ وقت جو خود کو ایشور یعنی خدا کہلواتا اور صفات ایزدی اپنا سا تھا ، باری تعالیٰ کے خلیل سید نا ابراہیم علیہ السلام کے سامنے باطل کی صورت بن کر آیا تا ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کے عقیدہ توحید سے معمور بندے کے سامنے زیادہ دیر کھڑا نہ ہو سکا بلکہ اسکے جسد ناپاکی کو اللہ تعالیٰ نے اس انداز میں تباہ و بر باد کیا کہ وہ دیگر اصل دنیا کیلئے تا قیامت نشان عبرت بن گیا اس نے اپنے ناپاک خیالات کا اظہار ابراہیم علیہ السلام کے سامنے کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے قرآن نے اس بارے کچھ یوں وضاحت فرمائی ہے:
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿٢٥٨﴾
کیا تو نے انہیں نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیم علیہ السلام سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رھا تھا۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے وہ کہنے لگا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے لے آتا ہے تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ۔ اب تو وہ کافر بھونچکا رہ گیا اور اللہ تعالٰیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا
( البقرہ: ۲۵۸)
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کعبہ کے وقت کچھ دعائیں مانگیں تھیں ان میں سے ایک دعا یہ بھی تھی:
رَبَّنَا وَ ابْعَثُ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنهم
’’اے رب ہمارے ان میں ایک رسول بھیج انہیں میں سے‘‘۔
(البقرہ: ۱۲۹)
اللہ ذولجلال والا کرام نے دعائے ابراہیم علیہ السلام کو شرف بخشا اور سرزمین عرب میں جب ظلم و ستم کا دور دورہ تھا انسانی حقوق کی پاسداری بالکل معدوم و نا پید ہو چکی تھی لوگ آزادی زیست سے محروم ہو کر غلامی و مظلومیت و فضیحت کیساتھ اپنی حیات کے لیل و نہار گزار رہے تھے، انہیں حالات شاقہ میں خالق کا ئنات نے رحمت مجسم علیہ السلام کو نور ہدایت بنا کر بنی نوع انسان کی رشد و ہدایت کیلئے مبعوث فرمایا۔ نبی مکرم علیہ السلام نے اپنی حیات مقدسہ کے چالیسویں سال جب نبوت کا اعلان فرما یا تو وہی جو مال وجان نچھاور کیا کرتے تھے آج اغیار سے بھی بد ترین اور نارواسلوک کرنے پر تیار ہو گئے:
جس پر سب کچھ لٹا یا تھا اپنا سمجھ کر
آج وہی میری جان کا دشمن نکلا
بعض تو وہ تھے جو نبوت محمدی ﷺ کی معرفت رکھنے کے باوجود بھی ذاتی عداوت کی بنا پر نبوت محمدی ﷺ پر ایمان لانے سے قاصر رہے۔ جیسا کہ سرداران قریش، بعض وہ تھے جنہوں نے نبی مکرم ﷺ کے نبوت کا انکار کیا اور اپنے آپ کو نبی ظاہر کرنے کی سعی رذیل کی۔ نبی ﷺ نے پیشن گوئی فرمائی کہ قیامت تک تیس جھوٹے نبی پیدا ہونگے ، ارشاد نبوی ہے:
ان بين يدى الساعة ثلاثين كل آبا رجالا كلهم يزعم أنه نبی۔
قیامت سے پہلے تیس کذاب دجال پیدا ہونگے وہ سارے کے سارے نبوت کے دعویدار ہوں گے
( دلائل النبوة للبيہقی 480/6)
رسول اللہ ﷺ کی اس پیشن گوئی کے مطابق عہد نبوی سے لیکر آج تک جھوٹی نبوت کے دعوے دار پیدا ہوتے رہے لیکن ہر دور میں فدائیان کتاب و سنت نے تحفظ ختم نبوت کیلئے اپنا سب کچھ قربان کیا۔
جب تک نہ کٹا مروں میں خواجہ یثرب کی عزت پر
خدا شاہد کامل میرا ایمان ہو نہیں سکتا
تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں کہ جنہوں بظاہر تو کلمہ توحید پڑھا، اسلام کا دعویٰ بھی کیا بلکہ اپنی ذات کو ایسی صورت میں ظاہر کیا کہ دیکھنے والا یہ زعم و خیال کرتا ہے کہ اس جہاں میں ان سے بڑھ کر نہ تو کوئی مومن ہے اور نہ ہی پاسبان نبوت، لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ان کی حالت بھی مسیلمہ کذاب و مرزا قادیانی سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ ان کے مابین اس کے سوا اور کوئی امتیاز نہیں کہ مرزا اور مسلیمہ وغیرہ نے بر ملا طور پر نبوت محمدی ﷺ پر ضرب کاری لگائی اور انہوں نے کتاب وسنت کے پردہ میں بھی اپنے آپ کو امتی بھی کہلوایا، غایت درجہ کا پار سا بھی لیکن اپنے نحیف و ناتواں علم کی بنا پر ’’تشریعی‘‘ اور ’’غیر تشریعی ‘‘ کی تقسیم مذموم کر کے نبوت محمدی ﷺ کی معرفت سے محروم رہے
تیری رفعتیں نہ پہچان سکا یہ میری سمجھ کا قصور ہے
ورنہ تو تیری راہ پر کہیں کعبہ کہیں طور ہے
ہر وہ آدمی جو عقل و دانش کا مالک ہو اور اسکے قلوب و اذھان میں ولاء محمد ﷺ جا گزیں ہو، یقیناً اس کے دل میں ان کے ایسے نظریات و افکار مستحسنہ کی جگہ نہ ہو گی بلکہ نبی علیہ السلام سے الفت و محبت کا حقیقی تقاضا ہی یہ ہے کہ ایسے انکار کو ان لوگوں کے بارے میں اپنے آپ میں جگہ نہ دے کیونکہ ان کی صورت بھی منافقین کی سی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ ﴿١٣﴾ وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ ﴿١٤﴾
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اور لوگوں (صحابہ رضی اللہ عنہم) کی طرح تم بھی ایمان لائو تو جواب دیتے ہیں کہ کیا ایسا ایمان لائیں جیسا بیو قوف لائے ہیں؟ خبر دار ہو جاؤ، یقیناً یہی ہو قوف ہیں لیکن جانتے نہیں اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں اور جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمھارے ساتھ ہیں ہم تو ان سے صرف مذاق کرتے ہیں
(البقرہ : ۱۴)
ممکن ہے آپ سوچتے ہوں کہ یہ کونسے لوگ ہیں؟ تو میں بتلاتا چلوں کہ ان کا تعلق رافضیہ ، اہل تصوف، اور اہل الرائے کیسا تھ ہے جن کے اس قبیح عقیدہ سے نقاب کشائی کرنے کیلئے غایت درجہ نازک موضوع پر خاکسار نے اپنے قلم کو جنبش دی ہے بلکہ در حقیقت دینی بھی چاہیے تھی کیونکہ یہ میرے ایمان کا تقاضا ہے :
جب کوئی دجال نبی آخر الزمان سیدنا محمد ﷺکی نبوت ورسالت کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گا تو جان و مال اور علم کیسا تھ بھی جہاد کی ضرورت پڑے گی سب کچھ تحفظ نبوت محمدی ﷺ کے لئے لٹادیں گے کہ :
ہم نے ورثہ نبوت کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
مضمون کے اہم نکات:
رافضیہ اور عقیدہ ختم نبوت
مرزائیت سے بھی قبل جس گروہ نے امامت ائمہ کے پردہ میں عقیدہ ختم نبوت کا انکار کیا وہ رافضیہ کا گروہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت یہ ایک ایسا عقیدہ ہے کہ اس کے منظر کو دائرہ اسلام میں شمولیت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ فرقہ رافضیہ اس عقیدہ کا منکر ہے اور ان کے مذہب میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے بلکہ جو مقام و مرتبہ ایک نبی کا ہوتا ہے وہ انہوں نے ایک عام آدمی کو دے دیا ہے۔ اہل تشیع کے ہاں یہ بات مسلم ہے کہ ان کے ائمہ درج ذیل چار صفات کیساتھ متصف ہیں۔
➊ ائمہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے منصوص یعنی مبعوث ہوتے ہیں
➋ معصوم ہوتے ہیں۔
➌ انکی اطاعت فرض ہوتی ہے۔
➍ وحی کا نزول بھی ائمہ پر ہوتا ہے۔
اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو یہی چار صفات خاصہ نبوت ہیں ،اگر انہیں غیر نبی میں تسلیم کر لیا جائے تو نہیں اور غیر نبی کا امتیاز ختم ہو جاتا ہے۔ جو عظمت و شان نبی کی تھی یا جو مقام ومرتبہ نبی کا تھاوہ ائمہ کے بارے میں جاتی لیا گیا اور اس عقیدہ نہ مومہ کی بنیادرکھ دی گئی کہ نبوت ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ امامت ائمہ کے پردہ میں ابھی بھی جاری و ساری ہے اور بارہ امام امام ہی نہیں بلکہ در حقیقت بارہ نبی ہیں (نعوذ باللہ من ذالک) اب میں بالترتیب ان چاروں صفات کو بیان کرتا ہوں جو کہ نبوت کا خاصہ ہیں لیکن اہل تشیع نے اپنے ائمہ کے لیے ثابت کر کے نبوت محمد ﷺ کے استیصال کی سعی کی ہے:
بعثت:
باری تعالیٰ نے انسانیت کی رشد و ہدایت کیلئے نبی مکرم ﷺ کو مبعوث فرمایا جیسا کہ درج ذیل نصوص سے یہ بات مترشح ہوتی ہے:
➊ تعمیر کعبہ کے وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے رب ذوالجلال کے حضور یہ دعا کی کہ اللہ ان میں یعنی اہل مکہ میں ایک رسول بھیج جو ہدایت کی طرف ان کی رہنمائی کرے تو باری تعالٰی نے بائیں صورت دعائے ابراہیم علیہ السلام کو شرف قبولیت عطافرمایا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو ان کی رہبری کے لئے پیدا فرمایا اسی بات کی طرف کلام الہی میں یوں اشارہ کیا گیا ہے فرمایا:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١٢٩﴾
اے ہمارے رب ان میں انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے انہیں کتاب وسنت سکھائے اور انہیں پاک کرے یقینا تو غلبہ والا اور حکمت والا ہے
(البقرہ: ۱۲۹)
ایک دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا:
وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ ﴿٦﴾
اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا میری قوم بنی اسرائیل! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنی اور آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والا ہوں جن کا نام احمد ہے پھر جب ہو ان کے پاس کھلی دلیلیں لائے تو یہ کہنے لگے یہ تو کھلا جادو ہے۔
(الصف:۶)
نبی مکرم علیہ السلام نے فرمایا:
میں اپنے والد سید نا ابراہیم علیہ السلام کی دعا سیدناعیسیٰ کی بشارت اور اپنی والدہ کا خواب ہوں
(الفتح الربانی جلد ۲ ص ۱۸۱ – ۱۸۹)
بعثت پیغمبر کا تذکرہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں فرمایا:
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿١٦٤﴾
بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
(آل عمران: ۱۶۴)
آیت هذا بھی من جانب اللہ بعثت نبوی ﷺ کی بین دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اصل ایمان پر احسان تقسیم فرمایا کہ انکی راہنمائی کیلئے اپنے عظیم پیغمبر ﷺ کو مبعوث فرمایا۔
تیسرے مقام پر بعثت نبوی ﷺ کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ کیا اور فرمایا:
كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ ﴿١٥١﴾
جس طرح ہم نے تم میں تمہیں میں سے ایک رسول بھیجاجو ہماری آیتیں تمہارے سامنے تلاوت کرتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت اور وہ چیزیں سکھاتا ہے جن سے تم بے علم تھے۔
(البقره: ۱۵۱)
اس آیت میں بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی مکرم ﷺ کی بعث کا تذکرہ فرمایا اور گذشتہ آیات کی طرح یہاں بھی بعثت نبوی کے مقاصد کا ذکر فرمایا یعنی آمد مصطفی کا مقصد لوگوں کے سامنے تلاوت آیات قرآنیہ، تزکیہ نفس، تعلیم کتاب و حکمت ہے جسے نبی مکرم ﷺ بغیر کسی کمی و بیشی کے اپنی تیس سالہ زندگی میں پورا کر کے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
چوتھے مقام پر اللہ تبارک و تعالٰی نے بعثت نبوی ﷺ کا تذ کرہ یوں فرمایا
وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ ﴿٨١﴾ فَمَن تَوَلَّىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٨٢﴾
جب اللہ تبارک و تعالٰی نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس اور سول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو۔ سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے فرمایا تو اب گو اور ہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔ اسکے بعد بھی جو پلٹ جائیں وہ یقینا پورے نافرمان ہیں۔
(آل عمران:۸۲ ،۸۱)
سید نا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
’’انما بعثت لاتمم مكارم الاخلاق ‘‘
مجھے اس لیے مبعوث کیا گیا ہے تاکہ میں اخلاقی خوبیوں کو کمال تک پہنچاؤں۔
(مسند احمد ۳۸۱/۲ رقم الحدیث ۸۹۵۲)
شعیب ارنا ئوط نے اسے صحیح کہا ہے رحمت مجسم ﷺ کے اس فرمان ذی شان سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک (انما بعثت) مجھے مبعوث کیا گیا سے ظاہر ہے آپ ﷺ کو بھیجنے والا تھا تو تب ہی مبعوث کیے گئے اور بھیجنے والا کون تھا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی تھا۔ تو معلوم ہو ا رسول الله ﷺ کو باری تعالٰی نے انسانیت کو بندوں کی بندگی سے نکال کر اپنی بندگی میں لانے کیلئے مبعوث فرما یا دوسری بات (لاتیم مکارم الاخلاق) تاکہ میں اخلاقی خوبیوں کو کمال تک پہنچاؤں) سے معلوم ہوا کہ نبی مکرم ﷺ کا یہ فرمان ذی وقار آپ ﷺ کے آخری نبی ہونے کی بین دلیل ہے آپ ﷺ بذات خود بھی اعلی اخلاق کے مالک تھے جیسا کہ اللہ کے قرآن نے بھی اس بات کی شہادت دی ہے۔
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴿٤﴾
اور بے شک تو بہت بڑے (محمد) اخلاق پر ہے۔
(القلم:۴)
اور اپنی امت کو کبھی اخلاق کریمانہ کا درس دیا اب دیکھنا یہ ہے کہ جب اخلاق کریمانہ کی تکمیل نبی ﷺ کے ذریعہ کر دی گئی تو وہ کو ن سا اخلاق ہے جس کی تکمیل کیلئے کسی جدید نبی کی ضرورت ہے ، یاوہ کو ن سا اخلاق ہے جس کی تکمیل جھوٹی نبوت کے دعویداروں جیسے رافضیہ کے بارہ امام ، مرزا اور دیگر دجالوں نے کی ہے۔ بعد از تدبر و تفکر من کل الوجوہ یہی بات انسانی عقل کیلئے فرحت کا باعث بن سکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ ﷺ نے تمام اخلاق کریمانہ کی تکمیل کر دی ہے اس لیے اب کسی بھی تشریعی یا غیر تشریعی نبی کی ضرورت نہیں ہے اور جو آدمی ایسا عقیدہ ( یعنی نبی کریم ﷺ کے بعد جدید نبی کی ضرورت ہے) رکھے تو اسے از روئے انصاف اسلام میں شمولیت کا کوئی حق نہیں۔
ان تمام نصوص قطعیہ سے یہ بات پایہ تکمیل کو پہنچی ہے کہ من جانب اللہ منصوص یعنی مبعوث ہو نافقط نبوت کا خاصہ ہے اور خاصہ ہوناوہ ہے جو اس شئی کے علاوہ اور میں نہ پایا جائے اس لیے اس میں کسی اور کو شریک کرنا یا سمجھنا صاحب نبوت کی تو ہین اور اس کا انکار ہے
اهل تشیع کا اپنے ائمہ کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ وہ بھی من جانب اللہ مخصوص یعنی مبعوث ہیں چنانچہ ایک رافضی عالم ملا باقر مجلسی جسے اپنے مذہب میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی بلکہ اسے قائمتہ المحد ثین کے لقب سے پکارا جاتا ہے اپنی کتاب ( حق الیقین ص ۴۷۱) میں لکھتا ہے:
’’بارہ امام اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے منصوص یعنی مبعوث ہیں۔‘‘
ایک اور رافضی ملاں محمد بن یعقوب کلینی سیدنا جعفر کی طرف منسوب کرتے ہوئے اپنی کتاب اصول کافی میں لکھتا ہے:
وأن الامامة عهد من الله عزوجل معهود لرجال مسلمين ليس للامام أن يرويها عن الذي يكون من بعده.
یقینا امامت اللہ عزوجل کی طرف سے ایک منصب ہے جو متعین یعنی خاص ، بندوں کو دیا جاتا ہے، کسی امام کیلئے جائز نہیں کہ وہ اپنے آنے والے امام کو منصب سے محروم کرے (یعنی ایک سے یہ منصب چھین کر دوسرے کو عطا کر دے) (اصول کافی از کلینی باب ان الامامتہ عهد من الله ) شیعی ملاں طبرسی لکھتا ہے کہ ’’ بارہ اماموں میں سے ہر ایک امام اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے منصوص یعنی مقرر کردہ تھا۔ ‘‘
(اعلام الوریٰ ص ۲۰۶ – عقید الشیعتہ فی الامامتہ از شریعتی ص: ۸۳)
اس بارے میں شیعہ کتب کے مزید دلائل سابقہ مضمون ملاحظہ فرمائیں۔
مقصود یہ کہ وہ تمام خلفاء جنہیں مسلمان عوام نے منتخب کیا تھا خواہ وہ خلفاء راشدین ہی کیوں نہ ہوں غیر شرعی خلفاء تھے۔ خلافت و ساعت فقد سید نا علی یا ان کا حق تھا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک صریح نص کے ذریعہ ان کے سر پر تاج کرامت رکھا گیا تھا۔ ان تمام نصوص و عبارات کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل تشیع اپنے اماموں کو انبیاء ورسل کی مانند من جانب اللہ منصوص یعنی مبعوث سمجھتے ہیں جب کہ امت مسلمہ کے نزدیک بعثت فقط انبیاء کرام اور رسل اللہ کی خاصیت ہے تو گویا غیر انبیاء کی نسبت مبعوث ہونے کا عقیدہ رکھنا انکار ختم نبوت کی طرف پہلا قدم تھا جو ابن سباء نے اٹھایا اور باقی سبائیوں نے اس کی پیروی کی جو آگے چل کر شیعہ مذہب کی بنیاد بنا۔
وجوب اطاعت
نبی مکرمﷺ کی اطاعت وفرمانبرداری اھل جہاں پر واجب ہے اور اس سے رو گردانی کرنے والا نافرمان و سرکش ہے اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿١٣٢﴾
اور تم اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔
(آل عمران : ۱۳۲)
یعنی رحمت و بخشش کے حصول کا ذریعہ اطاعت الہیٰ اور اطاعت رسول ﷺ ہے تو جو آدمی اللہ و رسول کی اطاعت و فرمانبرداری نہیں کرتا تو گویا وہ نافرمان ہے اور اسکے لیے رحمت نہیں بلکہ زحمت یعنی عذاب ہے۔
➋ ارشاد باری تعالیٰ ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ (۳۳).
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو ضائع مت کرو۔
( محمد : ۳۳)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اعمال صالحہ اسکے رسول کی اطاعت میں رہ کر کئے جائیں ایسا نیک عمل جو رسول ﷺ کے طریقے کے مخالف ہو تو وہ اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں بلکہ رائیگاں ہے۔ اسی لیے فرمایا ولا تبطلوا اعمالکم اپنے اعمال کو ضائع مت کرو۔ اعمال جب تک سنت رسول ﷺ کے مطابق نہیں ہوں گے اس وقت تک بارگاہ الہی میں درجہ قبولیت حاصل نہیں کر سکتے بلکہ ایسا کرنے والا اللہ اور اسکے رسول ﷺ کا نافرماں ٹھہرے گا۔
➌ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ أَطِيعُوا اللہ والرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الكَافِرِينَ (۳۲)
کہہ دیجئے تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو پس اگر تم نے رو گردانی کی تو ہے شک اللہ کافروں سے محبت نہیں کرتا۔
(آل عمران: ۲۳۳)
آیت ھذا کا مطلب یہ ہے کہ لو گو اللہ اور اسکے رسولﷺکی بات مانو اگر تم نے اطاعت و فرمانبرداری کی تو بایں صورت تم اللہ اور رسول کے ہاں محبوب ٹھہروں کے اگر تم نے بات نہ مانی بلکہ نافرمانی اور سرکشی کی تو بائیں صورت محبوب نہیں بلکہ مدموم ٹھہروں گے اور تمہیں سزا بھی ملے گی۔ درج بالا تینوں آیات میں صیغہ امر استعمال ہوا ہے اور اصول میں یہ بات مسلم ہے کہ امر کا حقیقی معنی جب تک کوئی قرینہ صارفہ نہ ہو تو وجوب ہی ہوتا ہے۔
سید نا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
كُل أُمَّتِي يَدْخُلُونَ المَلةَ ، الأَمَنُ أَبي . قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَنْ يَأْتِي قَالَ « مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الحملة، وَمَنْ عَصَانِ فقد أي
میری ساری امت جنت میں داخل ہو گی مگر جس نے جنت میں جانے سے خودہی انکار کر دیا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ انکار کون کرے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو گا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے ( جنت میں جانے سے) انکار کر دیا۔
(بخاری کتاب الاعتصام بالكتاب والسنتہ رقم الحديث : ۷۲۸)
نبی مکرم ﷺ نے اپنے اس فرمان ذی شان میں اطاعت رسول ﷺ کا ثمرہ ذکر فرمایا اور یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ دخول جنت کا ثمرہ اطاعت رسول ﷺ کے بدلہ میں ہے کیونکہ اطاعنی میں اطاعت کی نسبت رسول ﷺ کی طرف ہے یعنی جس نے نبی مکرم ﷺ کی اطاعت کی اس کیلئے جنت ہے گویا کہ جہاں حدیث اطاعت رسول ﷺ کے ثمرہ پر دلالت کرتی ہے وہاں اس بات پر بھی دال ہے کہ اطاعت فقط رسول ﷺ کی جائے رسول ﷺ کے غیر کی اطاعت نافرمانی ہے، جس کے بدلہ میں باری تعالیٰ نے عذاب کی وعید بیان فرمائی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ ﴿١٤﴾
اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرنے اور اس کی مقررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا جس میے ، وہ ہمیشہ رہے گا ایسوں ہی کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔
(النساء: ۱۴)
ان تمام نصوص سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت لوگوں پر فرض ہے اور اس سے رو گردانی کرنے والا مستحق عقاب ہے بعینہ یہی عقیدہ رافضیہ کا اپنے ائمہ کے بارے میں ہے۔ یعنی آئمہ کی اطاعت واتباع لوگوں پر فرض ہے اگر کوئی شخص بارہ اماموں میں سے کسی امام کی نافرمانی کرتا ہے یا اس کی اطاعت و اتباع کو فرض نہیں سمجھتا تو وہ کافر ہے اور دائر واسلام سے خارج ہے اس لیے کہ وہ بھی انبیائے کرام کے ہم پلہ در حالمین اوصاف نبوت ہیں۔
چنانچہ ابن بابویہ قمی اور ابن شیعہ حرانی (متوفی ۳۸۱ھ) شیعہ کے آٹھویں امام علی بن موسیٰؓ سے روایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مامت انبیاء کا رتبہ ہے، امام اللہ کا خلیفہ ہوتا ہے امام اسلام کی بنیاد بھی ہے اور اس کی بھی۔ نماز ، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر فرائض و واجبات دین امام کے بغیر قبول نہیں ہوتے۔ امام کو یہ اختیار ہے کہ وہ اشیاء کو حلال اور حرام قرار دے۔ امام اللہ کا خلیفہ اور اس کی طرف سے اس کے بندوں پر حجت ہوتا ہے۔ پوری کائنات میں امام سب سے زیادہ افضل ہوتا ہے کوئی اس کا ہم مرتبہ نہیں ہوتا، یہ فضائل ( نبوت کی طرح) وھیں اور غیر وھبی ہیں۔ امام نبوت کا خزانہ ہوتا ہے اس کے حسب و نسب پر تنقید نہیں کی جاسکتی۔ آخر میں بقول شیعہ امام علی رضا کہتے ہیں ’’ مستحق للرئاسة مفترض الطاعة‘‘ یعنی اقتدار کا حق صرف امام کو ہوتا ہے۔ اس کی اطاعت لوگوں پر فرض ہوتی ہے۔
(امالی الصدوق ص: ۵۴- کمال الدین جلد ۶۷۷/۲ – تحف العقول المحرانی ص: ۳۲۶)
قارئین ذرا غور کریں کہ کس طرح را فضیہ نے اپنے ائمہ کو بڑھا چڑھا کر نبوت کے مقام پر بٹھایا ! جو چیزیں فقط نبوت کا خاصہ ہیں انہیں اپنے آئمہ میں مان کر عقیدہ ختم نبوت کے استیصال کی سعی مذموم کی ہے۔ شیعہ محدث طوسی لکھتا ہے:
على من الرسول كنفسه طاعه كطاعته و معصیته کمعصیته۔
علىؓ ‘ رسول ﷺ کے ہم مثل ہیں۔ ان کی اطاعت رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہے اور ان کی معصیت رسول اللہ ﷺ کی معصیت ہے۔
(تلخیص الشافی للطوسی ص: ۸۱) اس بارے میں شیعہ کتب کے مزید دلائل سابقہ مضمون ملاحظہ فرمائیں۔
محترم قارئین! آپ نے گذشتہ صفحات میں پڑھا کہ کیسے رافضی حضرات اپنے ائمہ کو بڑھا کر انبیائے کرام کے شانہ بشانہ چلانے کی سعی مذموم کرتے ہیں ، اھل تشیع کا وجوب اطاعت میں اپنے ائمہ ہو انبیاء کرام علیہم السلام کیساتھ شریک کرنا عقیدہ ختم نبوت کے استیصال کی طرف۔ دوسرا قدم ہے بو ان کے مذہب کی بنائے خاص ہے۔
نزول وحی
کتاب و سنت کے دلائل و نصوص سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے انبیاء پر وحی نازل فرماتا ہے جس کے مطابق انبیاء کرام علیہم السلام خود بھی عمل کرتے ہیں اور اپنی اپنی امت کے لوگوں کو بھی اس پر عمل پیرا ہو کی تلقین کرتے ہیں لیکن رافضیہ نے تیسرا قدم اٹھایا اور یہ عقیدہ وضع کیا کہ ائمہ اثنا عشر پر بھی اللہ کی طرف سے انبیاء کرام کی طرح باقاعدہ وحی نازل ہوتی تھی یہ بات انہوں نے اپنی کتب میں متعدد مقامات پر لکھی ہے۔ اس سے قبل کہ میں ان کی کتابوں سے حوالہ جات پیش کروں میں کتاب و سنت سے چند دلائل ذکر کر تاہوں جن سے یہ مسئلہ نیر تا ہاں کی طرح نمایاں اور عیاں ہو جاتا ہے کہ نزول وحی فقط نبی پر ہی ہوتا ہے۔ اس خاصہ میں کسی اور کو شریک کرنا صاحب نبوت کی تو ہین اور اس سے انکار ہے۔ نبی ﷺ کی کوئی بھی بات بغیر وحی کے نہیں ہوتی تھی۔
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾
وہ اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتا وہ تو صرف وحی ہے (جو اس کی طرف) اتاری جاتی ہے۔
(النجم: ۳-۴)
➋ ایک دوسری جگہ بایں الفاظ تذ کرہ فرمایا:
’’اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ﴿١٠٦﴾‘‘
تو پیروی کرو اس چیز کی جو تیری طرف تیرے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور تو مشرکین سے اعراض کر۔
(الانعام :۱۰۶)
ان دو آیات میں اس بات کی توضیح کی گئی ہے کہ نبی ﷺ پر ہی وحی کا نزول ہوتا ہے جس کے مطابق آپ خود ہی عمل کرتے اور اپنی امت کے لوگوں کو بھی عمل کا حکم دیتے ہیں۔
➌ ارشادالہیٰ ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۖ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿٧﴾
تجھ سے پہلے جتنے پیغمبر ہم نے بھیجے سبھی مرد تھے جن کی طرف ہم وحی اتارتے تھے ، پس تم اہل کتاب سے پوچھ لو اگر خود تمھیں علم نہ ہو۔
( انبیاء: ۷)
➍ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ
تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف ہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو۔
(انبیاء: ۲۵)
➎ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
كل أوحى إلى أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَقرُ مِنَ الجنِ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قرُ أَنا عَجَباً (۱)
اے محمد ﷺ! آپ کہہ دیں کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا اور کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے
(الجن : 1)
➏ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا ﴿١٦٣﴾
یقینا ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے نوح علیہ السلام اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی اور ہم نے وحی کی ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولادوں پر اور عیسی اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔
(النساء: ۱۶۳)
➐ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حارث بن ھشام نے رسول الله ﷺ سے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ ﷺ پر وحی کیسے نازل ہوتی ہے ؟
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أحیانا یأتينی مثل صلصلة الجرس – وهو أخذه على – فَيَفْصَمُ عَلَى وَقَدَ وَ عَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ ، وَأَحْيَانًا يتمثل فى التلك رجلا نيك لعلى تاعى ما يَقُولُ . قَالَتْ عَائِقَةُ فِى الله عنها وَلَقَدْ أَنه يَنزِلُ عَلَيْهِ الوحى فى الْقَوْمِ الشَّديد الجزر. فَيَقْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَقَدُ عَرَقا
وحی کبھی تو مجھ پر گھنٹی کی آواز کی مانند نازل ہوتی ہے۔ نزول وحی کی وہ کیفیت میری طبیعت پر بہت گراں ہوتی ہے اور پھر جب میں جو کچھ وحی میں کہا جاتا ہے اسے یاد کر لیتا ہوں تو وہ کیفیت ختم ہو جاتی ہے۔ اور کبھی فرشتہ انسان کی صورت ہی میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے گفتگو کرتا ہے وہ جو کچھ کہتا ہے میں اسے یاد کر لیتا ہوں۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ میں نے شدید کڑاکے کی سردیوں میں نبیﷺ پر وحی نازل ہوتے دیکھی چنانچہ جب وحی منقطع ہو جاتی تو آپ ﷺ کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا۔
(صحیح البخاری باب کیف كان بدء الوحی إلى رسول الله رقم الحديث : ٢)
یہ تمام نصوص اس بات کی بین دلیل ہیں کہ انبیا کرام علیہم السلام پر وحی کا نزول ہوتا ہے اگر رافضہ کے آئمہ اس قدر علو مرتبہ پر فائز تھے کہ ان کی طرف بھی من جانب اللہ وحی کا نزول ہوتا تھا تو کتاب وسنت میں کہیں تو اس کا ذکر ہو ؟!! لیکن ایسا نہیں بلکہ ائمہ پر نزول وحی کا یہ عقیدہ رافضیہ کی طرف سے خود ساختہ ہے جسکی کوئی اصل نہیں بلکہ یہ ان کی ایک غایت درجہ کی قبیح کاوش ہے جو انہوں نے غیر الاصل عقیدہ کے ثبوت کیلئے کی ہے۔
شہید ملت علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ اپنی ایک تصنیف لطیف میں ان کے اس عقیدہ سے یوں نقاب کشائی کی ہے۔ لکھتے ہیں:
ان الشيعة يحقدون نزول الوحى على المتهم وعن طريق جبريل و عن طريق ملک اعظم و افضل من جبريل فان المتهم في الحديث بوبوا أبواباً مستقل وفي هذا الخصوص.
’’شیعہ گروہ کا عقیدہ ہے کہ ان کے اماموں پر وحی نازل ہوتی ہے۔ اکثر اوقات تو جبریل اللہ کا پیغام لے کر ان پر نازل ہوتے تھے اور کبھی کبھی شیعوں کے مطابق سید نا جبریل علیہ السلام سے بھی عظیم اور افضل فرشتہ ان پر نازل ہو تا تھا۔ شیعہ اکابرین نے اس سلسلہ میں مستقل ابواب قائم کیے ہیں۔‘‘
(الشیعہ والسنہ ص: ۱۴۱ مطبوعہ ادارہ ترجمان السنہ لاہور) اس بارے میں شیعہ کتب کے مزید دلا ئل سابقہ مضمون ملاحظہ فرمائیں۔
اب اس ساری تفصیل کے بعد کوئی بھی رافضی اس سے انکا نہیں کر سکتا کہ ائمہ اثنا عشر کے بارے نزول وحی کا یہ عقیدہ ان کا نہیں ہے۔ اس عقیدہ کو ہم نے ان کی کتابوں سے باحوالہ نقل کیا ہے اب اگر کوئی رافضی ان تمام تر نصوص کی تحقیق کرنا چاہے تو اسکے لیے تحقیق کے تمام دروازے کھلے ہیں۔ محترم قارئین کرام! اب میں شیعہ کے چوتھے عقیدہ کو ذکر کرتا ہوں جو کہ انہوں نے عقیدہ ختم نبوت کے استیصال کیلئے وضع کیا ہے قبل اس کے کہ میں ان کی کتابوں سے دلائل پیش کروں میں کتاب وسنت سے عصمت نبوت پر چند دلائل ذکر کرناضروری سمجھتا ہوں تا کہ عام الناس پر بات واضح ہو جائے کہ عصمت نبوت کا عقیدہ نبی کے علاوہ کسی اور کیلئے مستعین نہیں کیا جاسکتا۔
عصمت نبوت
➊ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ۚ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ
میرا یہ ارادہ بالکل نہیں کہ تمھارے مخالفت کر کے خود اس چیز کی طرف جھک جاؤں جس سے تمہیں روک رہا ہوں۔ میرا ارادہ تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح کرنے کا ہے میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے اس پر میرا ابھروسہ ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔
(ھود: ۸۸)
سبحان اللہ کتنی پیاری دلیل ہے عصمت انبیاء کی ، گناہ کا صدور تو در کنار یہ آیت نبی سے گناہ کے ارادہ کی بھی نفی کرتی ہے یعنی نبی کے قلب میں گناہ کا خیال بھی پیدا نہیں ہو سکتا۔
➋ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ۚ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ وَكِيلًا ﴿٦٥﴾‘‘
میرے سچے بندوں پر تیرا کوئی قابو اور بس نہیں تیرا رب کار سازی کرنے والا کافی ہے۔
(بنی اسرائیل: ۶۵)
ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٨٢﴾ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴿٨٣﴾
’’شیطان‘‘ کہنے لگا پھر تو تیری عزت کی قسم میں ان سب کو یقیناً بہکادوں گا۔ بجز تیرے ان بندوں کے جو چیدہ اور پسندیدہ ہوں۔
(سورہ ص : ۸۲ ۸۳)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السلام تک شیطان کی پہنچ نہیں ہو سکتی نہ تو وہ انہیں گمراہ کر سکتا ہے اور نہ ہی غیر صراط مستقیم پر گامزن کر سکتا ہے تو پھر انبیاء کرام علیہم السلام سے گناہ کا صدور کیسے ممکن ہے؟
➌ ارشاد باری تعالی ہے:
مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے لیکن ہم نے اسے نور بنایا اس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔ بے شک آپ را در است کی رہبری کر رہے ہیں۔
(الشوری: ۵۲)
اس آیت کی تفسیر
قال أهل الاصول اجتمعوا على ان الرسل عليهم السلام كانوا مؤمنين قبل الوحى معصومين من الكبائر ومن الصغائر الموثة لنفرة الناس عنهم قبل البعث وبعدها فضلاً عن الكفر.
یعنی اہل علم نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ بے شک انبیاء کرام علیہم السلام وحی سے قبل مومن تھے اور گناہ کبیر و نیز ان صفائر سے جو نفرت کا باعث ہوں نبوت سے پہلے معصوم تھے اور بعد میں بھی، چہ جائیکہ کفر۔
➍ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
انَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا ﴿١﴾ لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا ﴿٢﴾
بے شک (اے نبی) ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی ہے تا کہ جو کچھ تیرے گناہ آگے ہوئے اور جو پیچھے سب کو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے اور تجھ پر اپنا احسان پورا کر دے اور تجھے سیدھی راہ چلائے
(الفتح : ۱-۲)
مغیرہ بن شعبہؓ فرماتے ہیں کہ :
كان النبي يصل حتى ترم قدماه فقيل له اليس قد غفر الله لك ما تقدم من ذنبک وما تأخر فقال افلا اكون عبد أشكورا
نبی مکرم علیہ السلام نماز ادا فرماتے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے قدم مبارک سوج جاتے۔ آپ کو کہا جاتا کہ کیا اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کے پچھلے اور اگلے گناہوں کو معاف نہیں فرمادیا؟ تور سول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کیا میں اللہ پاک کا شکر گزار بندہ نہ بن جاؤں۔
(بخاری کتاب التفسیر باب لیغفر لك الله ما تقدم من ذنبک و ما تاخر رقم الحدیث ۳۸۳۶، سورة الفلح مسلم رقم الحدیث ۲۸۱۹، مسند احمد ۱۱۵/۲، تفسیر ابن کثیر ۲۶۵/۴ تحت هذه الایت)
یہی روایت سیدہ عائشہ اور انس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ معصوم کا معنی ہوتا ہے محفوظ کیا ہوا، بچا یا ہو ا۔ تو ظاہر ہے کہ درج بالا دونوں نصوص نبی کریمﷺ کی ذات سے ذنب کی نفی پر دلالت کرتی ہیں نہ کہ اثبات پر اس لیے ان نصوص سے عصمت انبیاء پر حجت پکڑنا جائز ٹھہرا۔ سید نا عبدالله ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
كنت اكتب كل شئى اسمعه من رسول الله صلى الله عليه وسلم اريد حفظہ فنهتنی قریش فقالوا الگ تكتب كل شي تسمعه من رسول الله و رسول الله هل يتكلم في الغضب فامسكت عن الكتابة فذکر تہ ذالک لرسول الله قال اكتب فوالذي نفسي بيده ما خرج على الأحق.
میں رسول اللہ ﷺ سے جو بات بھی سنتا تھا، یاد کرنے کی غرض سے لکھ لیتا تھا۔ قریش نے مجھے روک دیا انہوں نے کہا:
جو بات بھی تو رسول اللہ ﷺ سے سنتا ہے لکھتا ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ تو بشر ہیں ( بسا اوقات) غصہ میں بھی کلام کرتے ہیں تو میں لکھنے سے رک گیا اور یہ واقعہ رسول اللہ کے سامنے پیش کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تو لکھ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے سے حق کے سوا اور کچھ بھی صادر نہیں ہوتا۔
(ابن کثیر جلد ۴ تحت الاية وما ينطق عن الهوى سورة النجم )
یہ روایت بھی عصمت نبوت کی مین دلیل ہے کیونکہ عدم عصمت نبوت کی صورت میں یہ لازم آتا ہے کہ اس سے حق کے سوا اور بھی کسی چیز کے خروج کا امکان ہے جبکہ اس کی نفی خود رسول اللہ ﷺ نے کر دی ہے کیونکہ گناہ کا ظہور ما مخرج منی الاحق کے منافی ہے۔
محترم قارئین کرام ! یہ تمام نصوص عصمت انبیاء پر دلالت ہیں، اب میں آپ کے سامنے شیعہ کتب سے وہ نصوص بیان کرتا ہوں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اھل تشیع بھی اپنے ائمہ کے بارے میں عصمت کا عقید ور رکھتے ہیں جو کہ باطل اور سراسر نصوص قطعیہ کے مخالف ہے۔
چنانچہ شیعہ محدث طوی لکھتا ہے:
الصم ۃ عند الامامية شرط اساسى لجميع الانبياء والائمة عليهم السلام سواء في الذنوب الكبيرة والصغيرة قبل النبوة والامامة وبعدها على سبيل العمد والنسيان وهكذا الصورة عن كل الرذائل والقبائح۔
’’امامیوں کے نزدیک انبیاء اور اماموں کا معصوم ہونا نبوت و امامت کی بنیادی شرط ہے۔ انبیاء و ائمہ کبیر و صغیرہ ہر قسم کے گناہوں سے معصوم ہیں۔ ان سے نبوت و امامت سے پہلے غلطی کے صدور کا امکان ہے نہ نبوت و امامت کے بعد ۔ وہ عمدہ گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں نہ نسیاناً اسی طرح وہ ہر قسم کی غیر اخلاقی اور انسانی مروت کے خلاف حرکات سے بھی معصوم ہوتے ہیں۔ نیز امام چونکہ واجب الاطاعتہ ہوتا ہے اس لیے اس کا معصوم ہوناضروری ہے۔”
(تلخیص الشافی ص: 191) اس بارے میں شیعہ کتب کے مزید دلائل سابقہ مضمون ملاحظہ فرمائیں۔
ان تمام نصوص واقتباسات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ شیعہ دین میں جس طرح امام انبیائے کرام کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ اور اس کی طرف سے مبعوث ہوتا ہے اسی طرح وہ معصوم من الخطاء بھی ہوتا ہے۔ انکار ختم نبوت کی طرف شیعہ علماء کی طرف سے اٹھایا جانے والا یہ آخری قدم تھا۔
اہل الرائے اور عقیدہ ختم نبوت
درج ذیل عنوان کے تحت خاکسار نے مذہب دیو بندیت اور بریلویت میں سے چند شخصیات کے عقیدہ و فاسدہ سے نقاب کشائی کی ہے تاہم اس سے قبل ایک شبہ کا ازالہ ضروری سمجھتا ہوں۔
اہل الرائے سے مراد کون لوگ ہیں؟
گو کہ یہ میرا موضوع بحث نہیں لیکن عین ممکن ہے کسی کے قلب پر یہ خیال گزرے کہ خاکسار نے تحریری کلام میں دیوبندیت اور بریلویت کو ’’ اھل الرائے‘‘ کے نام سے موسوم کر کے کتمان حقیقت کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔ کیونکہ مابعد سطور میں انہی دو فرقوں میں سے چند شخصیات کے عقید وہ اسدہ سے نقاب کشائی کی گئی ہے تو عرض ہے کہ ایسے لوگ جو امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں وہ دیوبندی ہوں یا بریلوی انہیں ’’ اھل الرائے ‘‘ کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل بات سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ چنانچہ ابن خلدون فرماتے ہیں:
’’ حدیث عراق میں بہت کم تھی اس لئے وہاں کے لوگوں نے قیاس کو زیادہ استعمال کیا اور اس میں مہارت حاصل کی جس کی وجہ سے ان کا نام ہی اہل الرائے پڑ گیا۔ اس جماعت کے سردار امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگرد ہیں۔‘‘ (تاریخ ابن خلدون)
ان دونوں گروہوں میں سے کوئی بھی اپنے آپ سے امام ابو حنیفہ کی سرداری کا منکر نہیں ہے۔
پس معلوم ہوا کہ جو آدمی ابو حنیفہ کا مقلد ہے اور امام ابو حنیفہ کو اپنا پیشوا اور سردار سمجھتا ہے وہ اھل الرائے ہے۔ عبدالرشیدار شد اپنی کتاب ’’ بیس بڑے مسلمان‘‘ کے ص: ۶۵ پر یوں لکھتا ہے:
’’چنانچہ تعمیر مدرسہ اور عمارتی سنگ بنیاد کے سلسلہ میں حضرت نانوتوی قدس سرہ کا ذوق تو یہ تھا کہ مدرسہ کی عمارت خام ہوں، گھاس پھوس پر بیٹھ کر طلبہ تعلیم پائیں تا کہ زہد، قناعت، سادگی، بذاذ ۃ اور صبر و تو کل کی شان ان میں نمایاں رہے۔ لیکن دوسرے ’’اہل الرائے‘‘ حضرات کی رائے یہ تھی کہ دار العلوم کی عمارت پختہ اور مستحکم بنوائی جائے تا کہ مدرسہ اپنی صورت کے لحاظ سے بھی نمایاں رہے لیکن اس بارہ میں جب کہ حضرت نانوتوی قدس سرہ کے رائے متاثر نہ ہوئی۔‘‘
دوسرے ’’اہل الرائے حضرات کی رائے یہ تھی‘‘ کاجملہ قابل غور ہے۔ دوسرے اہل الرائے کون تھے۔ وہ دیوبندی ہی تھے جو مذ ہب امام ابو حنیفہ سے تعلق رکھتے تھے، اس سے بھی ہمارامدعا الحمد للہ ثابت ہو گیا۔ عبدالرشیدار شد اپنی اس کتاب کے ص: ۳۰۵ پر بایں الفاظ ’’حکیم الامت خود اپنی نظر میں ‘‘ باب قائم کر کے لکھتا ہے:
’’ میں کسی سے نہ کوئی فرمائش کرتاہوں ، نہ کسی کی سفارش اس لیے بعض ’’ اہل الرائے ‘‘ مجھ کو خشک کہتے ہیں۔‘‘
تھانوی صاحب کو کون خشک کہتے ہیں؟ یہ وہی اہل الرائے ہیں جو کہ امام ابو حنیفہؒ کے مقلد ہیں۔ تو الحمد للہ اس عبارت سے بھی ہمارا مد عاثابت ہوا اور اس کے بعد کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ اہل الرائے سے دیو بندیت اور بریلویت کے سوا اور لوگ ہیں۔
اہل الرائے اور مرزائیت
ایسا آدمی جو اپنے تئیس نبوت کا مدعی ہو پکا کا فر ہے۔ دین اسلام میں شمولیت کا حق نہیں رکھتا۔ بلکہ ہر ایک ذی شعور انسان کیلئے ضروری ہے کہ اسے کافر سمجھے اور اس کی تکفیر کرے، کیونکہ وہ آدمی اہل سنت والجماعت کے ایک اجماعی عقیدہ کا منکر ہے۔ لیکن ’’ بعض الناس ‘‘ ایسے ہیں جیسے اہل الرائے وغیر و انہوں نے خود بھی عقیدہ ختم نبوت کے استیصال کی سعی نہ موم کی اور مرزا قادیانی جس نے اپنے آپ کو نبی ظاہر کیا اسے مسلمان ہی سمجھا اور اس کی تکفیر نہ کی۔ ایسا کیوں کیا؟ یہ تو میں آگے چل کر ان شاء اللہ اسکی وضاحت کروں گا کہ حقیقت کیا تھی۔ تاہم پہلے چند حوالے ذکر کر تاہوں کہ اہل الرائے نے مرزا کی تکفیر نہ کی بلکہ اسے مسلمان ہی سمجھا۔ مذہب دیو بند کے ایک بہت بڑے مولوی اشرف علی تھانوی جسے ’’حکیم الامت ‘‘ اور ’’مجد دملت ‘‘ کا لقب دیا گیا، اپنی ایک کتاب میں یوں رقمطراز ہے:
’’ہم تو قادیانیوں کو بھی کافر نہیں سمجھتے تھے اور وہ ہمیں کہتے تھے۔ ہاں اب جبکہ ثابت ہو گیا کہ وہ مرزا صاحب کی رسالت کے قائل ہیں ، تب ہم نے کفر کا فتوی دیا ہے کیونکہ یہ تو کفر صریح ہے۔ اس کے سوا ان کی تمام باتوں کی تاویل کر لیتے تھے تو وہ تاویلیں بعید ہی ہوتی تھیں۔‘‘
( ملفوظات حکیم الامت ۲۹ /۲۲۶)
مولانا تھانوی کی پہلی عبارت ہی سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ اہل الرائے کے نزدیک قادیانی کافر ہیں۔ پھر لکھتے ہیں مرزا کے دعویٰ رسالت کے سوا باقی باتوں کی تاویل کر لیتے تھے۔ اب کوئی خردمند انسان اس قوم سے پوچھے کہ دعویٰ رسالت کے بعد تو وہ کافر ٹھہرا۔ اب کیا تم کافر کی باتوں کی تاویلات اللہ کر کے اسکی تائید کرتے ہو ؟ اور پھر تا ویلات بھی ایسی کہ جن میں حق دشمنی کے سوا اور کوئی چیز نظر نہ آتی تھی۔ جیسا کہ تھانوی کی اس عبارت سے ظاہر ہے ’’گو وہ تاویلیں بعید ہی ہوتی تھیں۔‘‘ در حقیقت پس پردہ حقائق کچھ اور تھے۔ جنہیں اپنے مقام پر ان شاء اللہ بیان کروں گا۔ مذہب اہل الرائے کا سرخیل مولوی تھانوی ایک دوسری جگہ اپنے عقائد قیمہ کا اظہار یوں کرتا ہے:
’’ہمارے بزرگوں نے مدتوں قادیانی کی تکفیر نہیں کی اس کے اقوال کی تاویلیں کرتے رہے مگر جب حد سے بڑھ گیا تو تکفیر کی۔ مثلاً اس نے یہ دعویٰ کیا کہ میں نبی ہوں۔ ابتدا میں محض الہام کا مد عی تھا۔ گو اس میں بعض مضامین بہت موحش تھے مثلاً یہ الہام کہ ’’یا احمد یتیم اسمک ولایتیم اسمی‘‘ بعض علماء نے تکفیر کی تھی اور وہ علامہ مولانا محمد یعقوب صاحب کی خدمت میں بھی آئے تھے اور آپ سے اس معاملہ میں عرض کیا تھا۔ مگر آپ نے تکفیر سے انکار فرمایا اس بنا پر کہ ان اقوال میں تاویل ہو سکتی ہے، چنانچہ ہمارے اکابر نے اس الہام کی یہ تاویل کی تھی کہ تمام کے معنی یہاں کمال کے ہیں بلکہ انتقام اور انقطاع کے ہیں اور حضرات کے مشرب یہ تھا۔‘‘
(ملفوظات حکیم الامت ۹۵/۱۹)
عقل و دانش کے مالک لوگ ان سے پوچھیں گے کہ مولانا آخر وہ کونسی حد ہے کہ جس سے پیچھے پیچھے ہر کفر کی تاویل ممکن ہے !!! ایک طرف جھوٹی نبوت کا مدعی اپنے کفر کی تشہیر میں مصروف ہے اور لوگوں کو اپنے کفر پر قائل کرنے میں مصروف۔ جبکہ دوسری طرف یہ نام نہاد مسلمان کہ وہ اس تماشے کے ناظرین کی صف میں شامل ہے۔ پھر مزید یہ کہ وہ کافر بھی نہیں۔ سادہ لوح کلمہ گو ایسے نام نہادوں سے مخاطب ہو کر دریافت کریں گے کہ جب تم بذات خود ہی رسالت محمد ی ﷺ کی معرفت سے محروم ہو۔ تمہیں اسکے مقام و مرتبہ کا علم نہیں بلکہ منکر ہو تو پھر ظاہرا اسلام کا لبادہ اوڑھنے کی ضرورت کیا ہے۔ برملا کہہ دو کہ ہم اور مرزائی ایک ہی نہیں، ہم میں کوئی فرق نہیں ہے تاکہ جو عقیدہ اہل اسلام کا مرزائیت کے بارے میں ہے یہی تمہارے بارہ میں بھی بن جائے۔ اور لوگ تمہاری سرکشیوں سے محفوظ رہ سکے۔
الہیٰ تیرا قمر ان پر گرے برق بلا ہو کر
جودیں دھوکہ مسلمانوں کو ان کے رہنما ہو کر
لیکن یہ نام نہاد مسلمان پھر بھی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے پر مصر ہیں تاہم ان کے عقائدہ اس بات کا تقاضا نہیں کرتے۔ مذہب اہل الرائے کی ایک دوسری معروف شخصیت رشید احمد گنگوہی اپنے مکتوب نمبر ۱۳۸ میں بایں الفاظ ر قمطراز ہیں:
’’مولوی غلام احمد قادیانی صاحب کی فتح الاسلام بندہ نے بھی دیکھی، اجمالاً ان کو جو اصل گمان تجدید ہوا ہے یہ اس کاری ضمیمہ ہے کہ اب ان کے مخیلہ میں یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ مثیل عیسیٰ ہوں۔ اس باب میں بندہ یہ گمان کرتا ہے کہ دنیا طلبی تو ان کو مقصود نہیں، بلکہ ایک خود پسندی ان کے مخیلہ میں بوجہ صلاحیت قائم ہوئی تھی۔ اب یہ خیالات بڑھتے چلے جاتے ہیں اور اس کو وہ دین و تائید دین اور اپنے کمالات جانتے ہیں اس میں مجبور ہیں۔ اس مثیل عیسیٰ ہونے کو اور نزول عیسیٰ علیہ السلام اور دجال کی روایات کے حقیقی معنی کے انکار کو چند جگہ سے جو بندہ سے استفسار کیا گیا۔ بندہ نے یہ لکھا ہے کہ یہ عقیدہ فاسد ، خطاء و خلاف جملہ سلف خلف کے ہے۔ ان کو مالیخولیا ہو گیا ہے کہ خلاف معقل کے ایسی بات لکھتے ہیں کہ تمام عالم نے اس کو نہ سمجھا۔ اب ان کو اس کی فہم ہوئی اس پر اشتہار مباحثہ دیا ہے۔ اور بندہ کو مخاطب بتایا ہے اور تکفیر نہیں چاہیے کہ وہ اول ہے اور معذور ہے۔ فقط ”
(مکاتیب رشید یہ ص: ۱۱۹ ‘ ۱۱۸ مصنفہ عاشق الہیٰ میرٹھی)
علم سے مسں رکھنے والے اہل دانش ان بے درشوں سے پوچھیں گے کہ مرزا نے دعوائے نبوت کیا ہے۔ اور بقول آپ کے ایسی باتیں لکھتا ہے کہ تمام عالم کی فہم سے بھی بالا تر ہیں۔ یعنی دنیائے جہاں کے لوگ تو اس کو سمجھنے سے بھی قاصر جبکہ تم کہتے ہو کہ تکفیر نہیں چاہیے بلکہ وہ اول ہے۔ تاویل بھی تو ایسی بات کی ممکن ہے جس کا اور اک انسانی عقل کی بساط میں ہو ۔ اسلام کے حقیقی فہم سے محروم یہ لوگ کہتے ہیں کہ مرزائیل عیسیٰ کا دعویٰ بھی کرے تو ماول ، نا جانے یہ کافر کسے کہتے ہوں گے۔
مولوی اشرف علی تھانوی اس رشید احمد گنگوہی کے بارے میں لکھتا ہے:
’’حضرت گنگوہی شروع ہی میں نرم تھے، مرزا کی طرف سے تاویلیں کرتے تھے۔ جب اس نے بالکل ہی صراحتا نبوت کا دعویٰ اور دوسرے کفریات واضح کر دیئے تو مجبور ہو کر تکفیر فرمائی۔‘‘
(ملفوظات حکیم الامت جلد ۲۴ص: ۲۲)
مجبوری کیا تھی بس یہی کہ محب اسلام میں بھی بھرم رہ جائے اور مرزا قادیانی سے بھی رواسم بصورت احسن درست رہیں جو ان کا حقیقی مربی اور پیر تھا۔ مولوی خلیل احمد سہارنپوری مرزا سے اپنے تعلقات کا ثبوت بایں صورت دیتا ہے:
’’حملة قولنا وقول مشائخنا في القادياني الذي يدعى النبوة والمسيحية انا كتافى امره مالم يظهر لنا من سوء اعتاديل بلغنا انه يؤيد الإسلام ويبطل جميع الاديان التى سواه بالبراهين و الدلائل نحن نظن به على ماهو اللائق المسلم با المسلم وتأول بعض الو الصوتحمله على محل حسن۔‘‘
’’ہم اور ہمارے سب مشائخ کا مدعی نبوت و مسیحیت قادیانی کے بارے میں یہ قول ہے کہ شروع شروع میں جب تک اس کی بد عقیدگی ہمیں ظاہر نہ ہوئی بلکہ یہ خبر پہنچی کہ وہ اسلام کی تائید کرتا ہے اور تمام مذاہب کو بہ دلائل باطل کرتا ہے۔ تو جیسا کہ مسلمان کو مسلمان کے ساتھ زیبا ہے ہم اس کے ساتھ حسن ظن رکھتے اور اس کے بعض ناشائستہ اقوال کی تاویل کر کے معمل حسن پر عمل کرتے رہے۔‘‘
(المسند علی المفند عقائد علمائے دیوبند خلیل احمد سہارنپوری ص: ۸۵)
مرزا بھی ایسی ہی اسلام کی تائید کرتا ہو گا جیسی تم نے کی ہے کہ اہلسنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ جو عہد نبوی سے چلتا آرہا ہے اور جس کا منکر کا فر ہے تم نے اس عقیدہ پر حملہ کر کے پاش پاش کر دیا بعد میں مرزا کی ناشائستہ باتوں میں تاویل کر کے محمل حسن پر حمل کر دیا۔
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
مرزا غلام احمد قادیانی کے بر ملادعوی نبوت پر اسے کافر قرار نہ دینا بلکہ اسکے کفریات کی تاویل کرنا ‘ اسکی کیا وجہ ہے خاکسار چند الفاظ میں اس کی علت یوں بیان کرتا ہے کہ ’’حنفیت در حقیقت اخت مرزائیت ہے۔‘‘ ظاہر ہے اپنی اخت (بہن) کی تکفیر اور تذلیل تو کوئی بھی مناسب نہیں سمجھتا۔ ممکن ہے کسی کے دل میں یہ خیال گزرے کہ یہ بات ’’ حنفیت در حقیقت اخت مرزائیت ہے ‘‘ کہنے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے جو کہ ناجائز ہے لیکن میں نے یہ بات حقیقت کے خلاف نہیں کی بلکہ دلائل سے اس بات کا ثبوت پیش کروں گا۔ مولوی عبد الماجد دریا آبادی لکھتا ہے :
’’ تھانوی صاحب کے سامنے کسی شخص نے قادیانیوں کو برا کہا تو تھانوی صاحب بگڑ کر بولے یہ زیادتی ہے۔ توحید میں ہمارا انکا کوئی اختلاف نہیں، اختلاف رسالت میں اور اس کے بھی ایک باب میں (یعنی عقیدہ ختم نبوت میں)‘‘ (کی باتیں از عبد الماجد دریا آبادی ص: ۲۱۳)
جو آدمی تو ہین رسالت کا مرتکب اور کافر ہو اس کو کافر کہنا چاہیے لیکن تھانوی صاحب نے کافر کہنا تو کجا بلکہ مرزائیت کی حمایت کی۔ لیکن کیوں؟ اس لیے کہ اس سے اخت شقیق کا رشتہ قائم تھا جسکی پاسداری کرنا تھانوی صاحب پر عین واجب تھی ۔ حقیت اور مرزائیت میں کس قدر مضبوط ترین رشتہ اور رواسم قائم ہیں، اس کا اندازہ آپ درج ذیل بات سے لگا سکتے ہیں، تقلیدی مورخ و سوانح نگار محمد عاشق الہیٰ میر ٹھی لکھتا ہے:
’’مرزاغلام احمد قادیانی جس زمانہ میں برا ہین لکھ رہے تھے اور انکے فضل و کمال کا اخبارات میں چر چا اور شہرہ تھا۔ حالانکہ اس وقت تک ان کو حضرت امام ربانی (رشید گنگوہی) سے عقیدت بھی تھی۔
اس طرف کے جانے والوں سے دریافت کیا کرتے تھے کہ حضرت مولانا اچھی طرح ہیں اور دہلی سے گنگوہ کتنے فاصلے پر ہے، راستہ کیسا ہے ؟ غرض حاضری کا خیال بھی معلوم ہوتا تھا۔ اس زمانہ میں حضرت امام ربانی نے ایک مرتبہ یوں ارشاد فرمایا تھا کہ ’’کام تو یہ شخص اچھا کر رہا ہے مگر پیر کی ضرورت ہے ورنہ گمراہی کا احتمال ہے۔‘‘ اسکے بعد یہی مجددیت و مہدویت و عیسویت کے خیالات ظاہر ہونے شروع ہو گئے۔‘‘ (تذکرہ الرشید ۲۲۸/۲ مصنفہ محمد عاشق الیٰ میر ٹھی)
مولوی عاشق الہیٰ میر ٹھی نے حقیقت پر مبنی بات کا انکشاف کیا ہے اور حقیقت ظاہر ہو ہی جایا کرتی ہے چاہے انسان جتنا مرضی اسے مخفی رکھنے کی جہد بسیار کرے۔ کتنی محبت تھی مرزا کو گنگوہی سے کہ گنگوہ جانے والوں سے اکثر طور پر پوچھا کرتے تھے کہ حضرت کا کیا حال ہے ؟ اور بسا اوقات حاضری کا بھی خیال ہوتا۔ اب دانش مند انسان سوچے گا کہ اگر منگوہی کے مرزا سے روابط و تعلقات نہ تھے ، اس سے محبت اور عقیدت نہ تھی تو مرزا کو اس قدر تکلف کی کیا ضرورت تھی اور پھر اسکی حسین کرنا کہ وہ کام تو اچھا کر رہا ہے آخر اس قدر اظہار محبت اور اسکی توثیق کیوں؟ در حقیقت پس پردہ کچھ اسرار ہیں جن کی نقاب کشائی میں ماقبل سطور میں کر آیا ہوں۔
ایک اور اسلام کے حقیقی فہم سے محروم تقلیدی مولوی کی بات سینیئے جس نے تو مرزا کے دعوی نبوت کے بعد بھی اسے مسلمان لکھ دیا۔ اشرف علی تھانوی لکھتا ہے:
’’ جس وقت قادیانی کے بارے میں بعض علماء پنجاب مولانا محمد یعقوب صاحب سے اس کے اقوال نقل کر کے گفتگو کر رہے تھے تو مولانا ان کی تاویلیں فرمارہے تھے۔ جب انہوں نے زیادہ اصرار کیا تو بطور ظرافت فرمایا کہ ارے میاں! جہاں ہندوستان میں پانچ کروڑ مسلمان ہیں ایک وہ بھی سہی، ان علماء نے کہا کہ نہیں حضرت، تکفیر ہی میں مصلحت ہے۔ اس وقت مولانا کو جوش ہوا فرمایا جب مسلمان ہی تکفیر کرتا ہے تو اچھا تمہاری ہی کیوں نہ کی جائے جو تم ایک مسلمان کی تکفیر کے درپے ہو رہے ہو ؟ ان علماء نے آپس میں کہا کہ اس وقت مولانا کو جوش ہے آئندہ چل کر خود ہی اس کو کافر کہیں گے چنانچہ ایساہی ہوں۔ ‘‘ (ملفوظات حکیم الامت ۹۶/۱۹)
اہل الرائے کا مرزائیت کو کافر نہ سمجھنا یہ اس لیے تھا کہ مرزائیت اور حنفیت ایک ہی چیز تھیں۔ ظاہر ہے ایسے اتحاد کی صورت میں تو کوئی بھی اپنے ہمنوا کو کافر نہیں سمجھتے۔
محترم قارئین کرام! امید ہے یہاں تک انہی نصوص کیسا تھ یہ بات حد توضیح کو پہنچ چکی ہوگی کہ اہل الرائے نے مرزائیہ کی تکفیر کیوں نہ کی۔ اب میں ان کے بعض علماء کے اقوال پیش کرتا ہوں جنہوں نے عقیدہ ختم نبوت پر کاری ضرب لگائی تاکہ ان کی حقیقی صورت نظر آسکے۔ مولوی قاسم نانوتوی جو کہ اہل الرائے کا ایک معروف عالم تھا، جسے انہوں نے حجتہ الاسلام (اسلام کی دلیل) کا لقب نواز رکھا تھا، اس نے عقیدہ ختم نبوت کے استیصال کی سعی کی، اس کا اندازہ درج ذیل دلیل سے لگایا جا سکتا ہے۔
قاسم نانوتوی مقام صدیقیت پر
مولوی اشرف علی تھانوی اپنے ملفوظات میں ’’حضرت نانوتوی مقام صدیقیت پر فائز تھے‘‘ کا عنوان قائم کر کے لکھتا ہے:
’’مولانا محمد قاسم صاحب سے لوگوں نے ایک بار بہت اصرار سے پوچھا کہ آپ کا مرتبہ کیا ہے؟۔ بڑی مشکل سے اتنا کہا کہ مجھے یہ بات میسر ہے کہ احکام میں سے کسی میں مجھے بھی تردد نہیں ہوتا۔ قدرتی طور پر بالکل یقین ہوتا ہے۔ ایک شخص جو نہایت ذہین تھے انہوں نے کہا کہ آپ صدیق ہیں اور صدیق کی نشانی یہی ہوتی ہے کہ اس کو احکام الہی میں ذرا تردد نہیں ہوتا۔ چنانچہ حضرت صدیق اکبر نے معراج کا حال سن کر بے تامل کہا کہ اگر محمد ﷺ کہتے ہیں تو آسمان پر جانا بالکل سچ ہے اور فرمایا کہ اس سے زیادہ جو بات تھی اس میں جب ہم آپ کی تصدیق کر چکے یہ تو پھر اس سے اولی ہے۔ جب ہم یہ مان چکے کہ اہل سموات آپ کے پاس آتے ہیں تو یہ تو کم ہے کہ آپ کو اہل سموات آسمان پر لے جائیں، مثلاً: بلا تشبیہ کسی کے گھر کلکٹر کا آنا زیادہ مستجد ہے یہ نسبت اس کے کہ کسی کو صاحب کلکٹر طلب کر لیں۔ ‘‘
( ملفوظات حکیم الامت ۲۳۹/۱۳)
سب سے پہلے اپنے آپ کو مقام صدیقیت پر پہنچایا یعنی جو مقام و مرتبہ صدیق اکبر کا ہے ہی، مقام و مرتبہ نعوذ باللہ من ذالک قاسم نانوتوی کا ہے۔ پھر اس کے بعد یوں اپنے لیے راستہ کو آسان کیا۔ لکھتا ہے ’’اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی ﷺ بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔‘‘ (تحذیر الناس ص: ۳۴ از حجتہ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی مع تکملہ حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاند ھلوی ناشر دار الاشاعت اردو بازار کراچی)
اگر کسی جدید نبی کی آمد سے خاتمیت محمدی میں فرق نہیں آنا تھا تو نبی مکرم ﷺ کو جابجا مقام پر لانبی بعدی کے الفاظ سے اپنے بعد نبوت کی نفی کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ حقیقت کچھ اور ہی تھی جسے صاحب دانش اشارہ سے سمجھ سکتا ہے۔ اب دیکھئے ! قاسم نانوتوی اپنے آپ کو نبی کیسے ظاہر کرتا ہے۔ مولوی مناظر احسن گیلانی لکھتا ہے:
’’بیعت اور ذکر و شغل کے تعلیم کے بعد قاعدہ تھا کہ حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ سے لوگ ان حالات کا تذکرہ کرتے جو ذکر و شغل کے وقت ان کے سامنے پیش آتے تھے۔ مگر خلاف دستور مولانا محمد قاسم نانوتوی نے اپنے کسی حال کا ذ کر حاجی صاحب سے نہیں کیا۔ آخر ایک دن خود ہی دریافت فرمایا کہ ’’آپ کچھ نہیں کہتے ‘‘ اپنے پیر کے اس استفسار پر حضرت تھانوی کا بیان ہے کہ ’’مولوی محمد قاسم رونے لگے‘‘ پھر بڑے پاس انگیز الفاظ میں فرمانے لگے کہ ’’اپنا حال کیا بیان کروں جہاں تسبیح لے کر بیٹھا بس ایک مصیبت ہوتی ہے، اس دور گرائی کہ جیسے سو سو من کے پتھر کسی نے رکھ دیے زبان و قلب سب بستہ ہو جاتے ہیں۔‘‘
حضرت امیر شاہ خان صاحب سے فقیر نے سنا تھا کہ زبان معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑ ہو گئی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے۔ بہر حال اب سننے کی بات ہے اپنے جس حال سے سیدنا امام الکبیر میں حد سے زیادہ مایوسی اپنے متعلق پیدا ہو گئی تھی۔ راہ و رسم منزل نے جو آگاہ تھا یعنی آپ کے صحیح عارف نے سن کر حکیم الامت کا بیان ہے:
’’ بے ساختہ فرمانے لگے کہ مبارک ہو‘‘ جانتے ہیں یہ عجیب و غریب کیفیت موجب تبزیک و تہنیت کیوں بن گئی، مجھ سے براہ راست حضرت امیر شاہ خاں صاحب فرماتے تھے کہ حاجی صاحب نے فرمایا کہ ’’مولانا حق تعالٰی کے اسم علیم کیساتھ آپ کو خصوصی نسبت ہے اور اسی نسبت خصوصی کے یہ اثار ہیں جن کا تجربہ اور مشاہدہ آپ کو کرایا جارہا ہے‘‘ پھر اس دعوی کی دلیل میں حضرت حاجی صاحب نے یاد دلایا نزول وحی کی اس کیفیت کو جو سرور کائنات ﷺ پر طاری ہوئی تھی۔ جس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ غیر معمولی وزن پر آپ میں پیدا ہو جاتا، اونٹ کی پشت پر ہوتے تو اونٹ بیٹھ جاتا (سوائے قصواء آپ کی خصوصی اوٹنی کے ) زید بن ثابت کاتب وحی رضی اللہ عنہ کا تو وہ واقعہ مشہور ہی ہے کہ ان کے زانو پر سر رکھ کر رسول اللہ ﷺ آرام فرما تھے کہ عین اسی حال میں وحی نازل ہونے لگی۔ زید کا بیان ہے کہ اتنا غیر معمولی وزن آنحضرت ﷺ میں اس وقت پیدا ہو گیا کہ گویا میر از انو چور چور ہو جائیگا مجھے ایسا محسوس ہونے لگا اور یہ قصہ تو بخاری شریف کے شروع ہی میں ہے کہ سردیوں کے سخت ترین موسم میں بھی وحی جب نازل ہوتی تو جبین انور پسینہ سے شرابور ہو جاتی تھی۔ الغرض شدت و گرانی کی جو کیفیت نزول وحی کے وقت پیدا ہوتی تھی اسی کیفیت کو پیش کر کے شیخ عارف نے سمجھایا کہ یہ علمی نسبت کا زور ہے اور جیسا کہ حکیم الامت سے اس موقع پر نقل کیا گیا ہے کہ حاجی صاحب نے مولانامحمد قاسم کو خطاب کر کے فرمایا کہ ’’یہ نبوت کا آپ کے قلب پر فیضان ہوتا ہے اور یہ وہ ثقل ہے جو حضرت ﷺ کو وحی کے وقت محسوس ہوتا تھا جس کی تشریح حاجی صاحب ہی کے حوالے سے انہوں نے یہ کی ہے کہ تم سے (یعنی مولانا محمد قاسم سے) حق تعالیٰ کو وہ کام لینا ہے جو نبیوں سے لیا جاتا ہے، جاکر دین کی خدمت کرو۔ ذکر و شغل کا اہتمام چھوڑ دو۔
(سوانح قاسمی یعنی سیرت شمس الاسلام ۲۵۹/۱ مصنفہ سید مناظر احسن گیلانی ناشر مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور)
مولوی قاسم نانوتوی کی یہ بڑی جسارت ہے عقیدہ ختم نبوت پر ضرب لگانے کی۔ ایک طرف نبی مکرم ﷺ پر نزول وحی کے اوصاف ہیں جبکہ دوسری طرف نانوتوی صاحب ہیں کہ جو ان صفات کو اپنی ذات کیلئے ثابت کرنے کے درپے ہیں جبکہ اہل سنت و الجماعت کا یہ مسلمہ عقیدہ ہے کہ نبوت محمدی ﷺ کے منکر اور منحرف کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اگر یہی بات ان کے سوا کوئی اور کہے جو کہ نانوتوی صاحب نے کہی ہے تو وہ کافر اور نہ جانے کیا کیا غیر اسلامی القابات اسے دیئے جائیں گے اور بڑے زور و شور کیسا تھ اسکی مذمت کی جائے گی۔ لیکن اپنی ذات کی طرف دیکھنے کی بھی فرصت نہیں !!!
قاری محمد طیب جو کہ دار العلوم دیوبند کا مہتمم تھا، اس نے عقیدہ ختم نبوت کو یوں اپنے جملوں کے زد میں لیا، لکھتا ہے:
’’تو یہاں ختم نبوت کا یہ معنی سن لینا کہ نبوت کا دروازہ بند ہو گیا ہے دنیا کو دھوکہ دیتا ہے ، نبوت مکمل ہو گئی وحی کام دے گی قیامت تک نہ یہ کہ منقطع ہوگی اور دنیا میں اندھیرا پھیل گیا۔ ‘‘
(خطبات حکیم الاسلام ۲۵۵/۱)
قاری محمد طیب کی اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ اہل الرائے کے نزدیک نبوت کا دروازہ بند نہیں بلکہ ان کے نزدیک جو آدمی یہ کہے کہ نبوت کا دروازہ بند ہو چکا اب کوئی نبی نہیں آسکتا وہ لوگوں کو دھوکا دے رہا ہے۔ قاری طیب کی یہ بات اسکی فرامین رسول ﷺ سے عدم معرفت کی دلیل ہے اگر مولوی طبیب نے نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے ان فرامین کو ’’ ان الرسال ة والنبوة قد انقطعت فلارسول بعدی ولانبی‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ رسالت و نبوت منقطع ہو چکی ہے میرے بعد اب نہ کوئی نبی ہے اور نہ رسول ( مسند احمد ۲۶۷/۳ رقم الحدیث: ۱۳۸۶۰، ترمذی ۲۲۷۲، فضائل الطبرانی ص: ۳۳۸ ۳۹، ابن ابی شیبہ ۵۳/۱۱ وسندہ صحیح) اس حدیث کو امام ترمذیؒ نے حسن صحیح کہا ہے اور امام الضارن (۲۶۴۵) صحیح کہا ہے، امام حاکمؒ نے اسکی سند کو بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ سید نا ابوامامہ با ھلی سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ یہ فرماتے ہوئے سنا :
ایهالناس انه لا نبی بعدی ولاامة بعد كم –
اے لوگو ا میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔
(المعجم الکبیر للطبرانی ۱۱۵/۸ حدیث ۷۵۳۵ – الند لابن ابی عاصم ۱۰۹۵ وسندہ صحیح)
پڑھاہو تا تو اتنی بڑی بات نہ کرتا، لیکن بڑے تعجب کی بات ہے۔ ایسے لوگ جو فرامین رسول ﷺ سے بالکل ناواقف و نا آشنا ہیں انہیں لوگوں نے حکیم الاسلام اور نہ جانے کتنے ایسے عظیم القابات سے نواز رکھا ہے جن کے یہ مستحق نہیں ہیں۔ مولوی رشید احمد گنگوہی نے بھی دبے لفظوں میں عقیدہ ختم نبوت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ عاشق الہیٰ میر ٹھی لکھتا ہے:
’’آپ نے کئی مرتبہ بحیثیت تبلیغ یہ الفاظ زبان فیض ترجمان سے فرمائے ’’سن لو حق وہی ہے جو رشید احمد کی زبان سے نکلتا ہے اور بقسم کہتا ہوں کہ میں کچھ نہیں ہوں مگر اس زمانہ میں ہدایت و نجات موقوف ہے میری اتباع ہے ۔ ‘‘
(تذکرۃ الرشید ۱۷/۲)
یہ دونوں باتیں ہی قابل توجہ ہیں
(۱) ایک یہ :
’’ سن لو حق وہی ہے جو رشید احمد کی زبان سے لگتا ہے ‘‘ گنگوہی کی یہ بات کس قدر گستاخی ہے۔ ٍحدیث میں ہے نبی مکرم ﷺ نے عبداللہ بن عمرؓ کو فرمایا تھا:
ما خرج علی الاحق۔
یعنی مجھ سے حق کے سوا کسی اور چیز کا صدور ممکن نہیں ہے۔ یہی بات اللہ کے قرآن نے بھی بیان فرمائی ہے:
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾
(النجم ۳،۴)
اور نہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں۔ وہ تو صرف وحی سے جو اتاری جاتی ہے۔
ان دونوں نصوص سے معلوم ہوا کہ نبی مکرم ﷺ سے حق کے سوا کسی دوسری چیز کا امکان نہیں ہے۔ لیکن گنگوہی صاحب اپنے آپ کو اس وصف میں نبی ﷺ کے شریک کرتا ہے بلکہ کہتا ہے ’’حق وہی ہے جو رشید احمد کی زبان سے نکلتا ہے‘‘ یعنی اس کے سوا کسی اور سے حق صادر نہیں ہو سکتا۔ آپ ﷺ تو فرمائیں کہ ’’مجھ سے حق کے سوا کسی اور چیز کا صدور ممکن نہیں‘‘ لیکن دوسری طرف گنگوہی ہے کہ اس نے بھی یہی دعویٰ کر دیا۔ دوسری بات۔ ’’ اس زمانہ میں ہدایت و نجات موقوف ہے میری اتباع پر‘‘ صاحب عقل آدمی ایسی باتوں کو پڑھ کر ضرور ان سے دریافت کرے گا کہ اگر ہدایت و نجات گنگوہی کی اتباع پر موقوف تھی تو اللہ تبارک و تعالیٰ کو اپنے کلام میں اتباع محمد ﷺ کے علاوہ اتباع گنگوہی کا حکم دینا چاہئیے تھا۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا۔ جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ یہ لوگ بذات خود صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کرنے کے درپے ہیں۔ یہ بات گنگوہی کی ذاتی اختراع سے ہے جس کا اظہار وہ اپنی حیات میں وقتا فو قتاً کرتا رہتا تھا۔
مولوی عبدالحئی حنفی لکھنوی صاحب کا تعلق بھی مذہب اہل الرائے کیسا تھ تھا۔ عند الاحناف اسے بڑا مقام حاصل ہے۔ لیکن انہوں نے بھی اپنے آباء کی روش کو چھوڑا نہیں بلکہ انہیں کی راہ پہ چلا۔
لکھتا ہے:
’’علماء اہلسنت بھی اس امر کی تصریح کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے عصر میں کوئی بھی صاحب شرع جدید نہیں ہو سکتا اور نبوت آپ کی عام ہے اور جو نبی آپ کے ہمعصر ہو گا تبع شریعت محمدیہ ﷺ کا ہو گا۔ ‘‘ ( مجموعہ فتاوی عبد الحئی جلد ا ص: ۷ اکتاب العقائد )
مزید لکھتا ہے:
’’بعد آنحضرت ﷺ یا زمانے میں آنحضرت ﷺ کے مجرد کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحب شرع جدید ہو نا البتہ ممتنع ہے۔‘‘
(دافع الوسواس فی اثر ابن عباس ص: ۱۶)
’’علماء اہلسنت بھی اس امر کی تصریح کرتے ہیں‘‘ اب آدمی ان سے پوچھے کون ہے اہلسنت کے علماء میں سے جو تمہارے اس عقیدہ فاسدہ کی موافقت کرتا ہے جو آدمی حقیقی طور پر اہلسنت والجماعت سے
ہے۔ یقیناً اس سے ایسے عقیدہ کا صدور ممکن نہیں ایسی خرافات علماء اہل الرائے ہی کی مفتربات ہو سکتی ہیں۔ علماء اہلسنت کی نہیں ہو سکتی۔ جب نبی مکرم ﷺ نے ’’لا نبی بعدی ‘‘ (میرے بعد کوئی نبی نہیں) کہہ کر ہر ایک قسم کے نبی (وہ شریعی ہو یا غیر تشریعی) کی نفی کر دی ہے تو پھر اور غیر تشریعی کی رٹ لگانا چہ معنی دارد ؟؟ یہی تو مرزائیت سے ہمارا اختلاف ہے وہ مرزا کو غیر تشریعی امتی نبی مانتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کہیں تو کافر ٹھہریں اور تم جیسے مرضی چاہو کرو۔ پس یقیناً یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ ایک اور صاحب جو کہ ملا علی القاری کے نام سے معروف ہے، اس نے غیر تشریعی نبی کے آنے کا ایک ضعیف روایت سے استدلال کرتے ہوئے۔ دروازہ کھول دیا۔ اولاً میں وہ ضعیف روایت جمع سند و متن کے بیان کرتا ہوں، پھر ملاعلی قاری کی عقیدہ ختم نبوت پر لگائی ہوئی ضرب سے پردہ کو اٹھاؤں گا تا کہ لوگ جان لیں کہ ایسی فضولیات کا سہرا ائمہ اہل الرائے کے سر پر ہی رکھا جا سکتا ہے کسی اور کے سر پر نہیں۔
حدثنا عبد القدوس بن مُحَمَّدٍ حَدَّثنا داؤد بن شَبِيبٍ البَاهِلَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَان حَدَّثَنَا الحكم بن النبيَة عَن مِقْسَم عَنِ ابْنِ عَبَّاس قال لنا مات إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – صَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ وَقَالَ « إن له مرجعا في الحلَةِ وَلَوْ عَام كَانَ صِديقًا نَبِيًّا. ولو عاش اعتقت الحوالة القيط وما اشترق تنحى». (۱۴۵)
سید نا عبد اللہ ابن عباس سے روایت ہے بیان کرتے ہیں جب رسول اللہ کے بیٹے ابراہیم فوت ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے اسکی نماز جنازہ ادا فرمائی اور کہا بے شک اس کے لیے جنت میں ایک دودھ پلانے والی ہو گی اور اگر یہ زند رہتا تو سچا نبی ہوتا۔ اور اگر وہ زندہ رہتا تو میں اس کے قبطی ماموں آزاد کر دیتا۔ اور کندہ کوئی قبطی غلام نہ بنا یا جاتا۔
تخریج الحديث
سنن ابن ماجہ – کتاب الجنائز باب ماجاء فی الصلاۃ علی ابن رسول اللہ ﷺ وذکر وفاتہ ۔ رقم الحدیث (۱۵۳۳)
یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ابراہیم بن عثمان بالاتفاق عند المحد ثین ضعیف راوی ہے۔ قال الذہبی ضعیف ترکہ غیر واحد – المغنی فی الضعفاء (۱/ ۳۶) رقم (۱۲۵) تقریب التہذيب (۲۱۵) الکامل (۷۱/۷۱) تہذیب الکمال (۱/ ۵۹) کتاب الضعفاء الكبير لعقيلي (۵۹/۱) کتاب الحجر و حسین من المحد ثین لابن حبان (۱۰۰/۱) قال النسائی متروک الحدیث کتاب الضعفاء والمتروکین للنسائی (ص: ۴۲) قال یحی بن معین لیس ثقتہ قال الامام احمد بن حنبل ضعیف قال البخاری سکتو اعنہ۔ میزان الاعتدال (۴۸/۱)
اس تصریح سے معلوم ہوا کہ اس روایت کی سند میں موجود راوی ابراہیم بن عثمان ابو قتیبہ بالاتفاق عند المحد ثین ضعیف ہے جسکی وجہ سے اس روایت سے استدلال پکڑنا درست نہیں ہے اور جس نے مذہب مرزائیت کو تقویت پہنچائی۔ وہ لکھتا ہے:
’’ كلت ومع هذا الوعاش ابرابيم وصار تبياً وكل الوصار عمر و الله نبياً لكانا من اتباعه علیہ السلام فلا يناقض قوله تعالى خاتم النبيين ان المعنى انه لا باقی نبی بعده بنسخ ملته ولم یکن من امته ‘‘
میں کہتا ہوں کہ اس کے ساتھ (نبی مکرم ﷺ کا یہ فرمانا ) اگر ابراہیم زندہ ہوتاتو نبی ہوتا اور اسی طرح اگر عمر فاروقؓ ہوتے تو نبی ہوتے دونوں آپ ﷺ کے متبعین میں سے ہوتے آپ ﷺ کا یہ فرمانا اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس فرمان ’’خاتم النبین‘‘ کے مخالف نہیں ہے۔ کیونکہ (خاتم النبیین) کا یہ معنی ہے کہ آپ ﷺ کے بعد ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ ﷺ کی ملت کو منسوخ کر دے اور آپ ﷺ کی امت میں سے نہ ہو۔
(موضوعات کبیر ص: ۱۰۰)
ملا علی قاری کی اس بات سے معلوم ہوا کہ انسانی آسکتا ہے جو درج ذیل صفات کا متحمل ہو۔
➊ آپ ﷺ کی ملت کو منسوخ نہ کرئے۔
➋ اور آپ ﷺ کی امت میں سے ہو۔
جب ایسے نبی کی آمد ممکن ہے تو پھر مرزا قادیانی کو کافر قرار دینے کی کیا ضرورت ہے۔ کیونکہ اس میں تو یہ دونوں شرطیں موجود ہیں جو تم نے نبی جدید کیلئے لگائیں ہیں۔ لگتا ہے آئمہ اہل الرائے شروحات حدیث لکھنے کے باوجود بھی فرامین رسول ﷺ کے اصل معنی و مفہوم سے بیگانہ رہے ہیں۔ کیونکہ اگر یہ لوگ مفاہیم فرامین رسول ﷺ سے عارف ہوتے تو ان سے اس قدر اخطاء کبیر و کا صد در نہ ہوتا۔ اپنے آئمہ کی روش قدیمہ پر چلتے ہوئے ایک اور حضرت نے مرزائیت کیلئے عقیدہ ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے راہ ہموار کر دی اور اپنے آباء سے ذرا بھی دائیں بائیں قدم نہیں رکھا۔ میری مراد اس سے شاہ ولی اللہ دہلوی حنفی ہے شاہ ولی اللہ دہلوی حنفی اپنے زمانے میں اہل الرائے کا نام تھا۔ گو کہ بعض مسائل میں اس نے دیگر اہل الرائے سے اختلاف بھی کیا لیکن پھر بھی ان میں مسلم ہی رہا جیسا کہ درج ذیل عبارت سے ظاہر ہے۔
عبدالرشیدار شد لکھتا ہے:
’’دار العلوم دیوبند کے اسلاف میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب قدس سرہ سے لے کر حضرت نانوتوی قدس سرہ تک کے سارے بزرگ شمار ہوتے ہیں کیونکہ مسلکاً اور روایتیا دار العلوم دیوبند حضرت شاہ ولی اللہ صاحب قدس سرہ کی جانب منسوب ہے اور سلوک میں حاجی امداد الله صاحب قدس سرہ کا سلسلہ اکابر دار العلوم میں جاری وساری ہوں ‘‘ یعنی شاہ ولی اللہ اہل الرائے کی اتنی بڑی ہستی ہے کہ انہوں نے مسلکاً انہی کو اپنا پیشوا بنایا جیسا کہ ماقبل سطور سے ظاہر ہے لیکن عقیدہ ختم نبوت کے بارہ میں ایک ایسی بات لکھ دی جو مذہب مرزائیت کی بنیاد بنی اور آج تک مرزائی اس اور اس جیسی دیگر نام نہاد مسلمانوں کی باتوں کو بطور نص کے پیش کرتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:
’’حتم بہ النبیون ای لا یوجد من بامره الله سبحانه با التشريح على الناس”
’’آپ ﷺ پر نبوت ختم ہو گئی یعنی آپ ﷺ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں آسکتا جس کو خدا تعالیٰ شریعت دے کر لوگوں کی طرف مامور کرے۔‘‘
(تقسیمات الہیہ تفہیم نمبر ۵۳)
اس عبارت سے پو چلا کہ شاہ ولی اللہ حنفی کا موقف یہ ہے کہ نبی مکرم ﷺ کے بعد ایسا نہی آسکتا ہے جو بغیر شریعت کے ہو ۔ جبکہ سہی وصف مرزا نے اپنا بیان کیا ہے۔ پھر اسے بھی نبی مان لینا چاہیئے لیکن کوئی بھی حقی اسے نہیں ماننے کو تیار نہیں آج کل کے احتباف لگتا ہے اپنے اکا بر سے نا آشنا ہو گئے ہیں اس لیے تو اپنے آپ کو پاسبان ختم نبوت سمجھتے ہیں۔ لیکن پس پردہ حقائق کچھ اور ہی ہیں۔ آئمہ اہل الرائے میں سے ایک اور امام کہ جس نے مرزا قادیانی کیلئے راہ ہموار کی مجددالف میانی ہے۔ انہوں نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے:
(1) ’’پس حصول کمالات نبوت مرتابعان را بطریق تبعیت و وراثت بعد از خاتم الرسل ملام جميع الأنبياء والرسل الصلواة والحياة فتافی خاتمیت اور نیست علیہ وعلی الہ الصلاۃ والسلام فلا تمن من المترین‘‘
(مکتوب نمبر ۳۰۱ دفتر اول حصہ پنجم ص: ۶۳۷)
اس کاترجمہ بریلوی رضاخانی مولوی محمد سعید احمد نقشبندی یوں لکھتا ہے:
’’تو خاتم المرسلین علیہ والہ و على جميع الأنبياء والرسل الصلوۃ والتسلیمات کی بعثت کے بعد بطریق وراثت و تبعیت آپ کے پیروکاروں کو کمالات نبوت کا حصول آپ کی خاتمیت کے منافی نہیں علیہ و علی آلہ الصلوۃ وا عام لهذا شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔
(ب) معلوم شد کہ کمالات ولایت را موافقت بفقہ شافعی است و کمالات نبوت را مناسب بفقہ حنفی اگر فرضاً درمیں امت پیغمبر مبعوث می شد موافق فقہ حنفی عمل می کرد۔ ’’معلوم ہو کہ ولایت کے کمالات فقہ شافعی کیساتھ موافقت رکھتے ہیں اور کمالات نبوت کی مناسبت فقہ حنفی کے ساتھ ہے اگر بالفرض اس امت میں کوئی پیغمبر مبعوث ہو تو وہ فقہ حنفی کے موافق عمل کرے گا۔‘‘
(مکتوب نمبر ۲۸۲ دفتر اول حصہ چہارم ص: ۵۳۳)
(ج) یعنی وہ علم جو انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام سے باقی رہا ہے۔ دو قسم کا ہے ایک علم احکام دوسرا اعلم اسرار عالم وارث وہ شخص ہے جس کو ان دونوں علموں سے حصہ حاصل ہوا ہو۔ ایسے علماء کے متعلق آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے:
’’علماء امتی کا نبیا ء بنی اسرائیل‘‘ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں۔
(مکتوب نمبر ۲۶۸ دفتر اول حصہ چہارم ص: ۴۹۲ بحوالہ حنفیت اور مرزائیت للشيخ عبد الغفور اثری ص: ۱۳۴)
امام اہل الرائے مجدد الف بیانی کی درج ذیل عبارات سے صاف واضح ہے کہ ان کے نزدیک نبی مکرم ﷺ کے بعد بھی نبی آسکتا ہے بلکہ نبی ﷺ کے بعد آنے والا نبی فقہ حنفی پر عمل پیرا ہو گا۔ مرزا قادیانی اور اہل الرائے کا فقہی مذہب ایک ہی ہے۔ جس کی تفصیل کتب مرزا میں موجود ہے۔ چونکہ صفحات قلت مکانی کا شکوہ کر رہے ہیں اس لیے یہاں مسائل بیان کرنے کے بجائے اس بات پر اکتفاء کرتا ہوں کہ قادیانیت حقیقت میں حنفیت ہی ہے۔ چند دلائل ملاحظہ ہوں:
➊ مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے کہ ’’میرا مذہب تو یہی ہے کہ حنفی مذہب پر عمل کیا جاوے۔
ملفوظ ۱۵ جنوری ۱۹۰۷ء ( ملفوظات جلد ۳ ص: ۱۳۶)
➋ مرزا قادیانی کہتا ہے ہمارا مذ ہب وہابیوں کے بر خلاف ہے۔ ہمارے نزدیک تقلید چھوڑنا ایک قیامت ہے کیونکہ ہر شخص مجتہد نہیں ہے۔ ہمارے ہاں جو آتا ہے اسے پہلے حنفیت کا رنگ چڑھانا پڑتا ہے۔ آجکل کے لوگ جو بگڑے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ اماموں کی متابعت چھوڑ دی گئی ہے۔ ہمارے نزدیک ان لوگوں کی تابعداری کرنے والے بہت اچھے ہیں۔
(ملفوظات جلد اول ص : ۵۳۶ )
➌ مرزا غلام احمد قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد ایم، اے اپنے باپ کے متعلق لکھتا ہے:
’’لیکن اب ( مرزا) اصولاً آپ ہمیشہ اپنے آپ کو حنفی ظاہر فرماتے تھے اور آپ نے اپنے لئے کسی زمانہ میں بھی اہلحدیث کا نام پسند نہیں فرمایا۔ ‘‘
(سیرت المہدی۔ حصہ دوم ص: ۶۹)
➍ لاہوری مرزائیوں کا صدر مولوی محمد علی ایم اے لکھتا ہے:
’’حضرت مرزا صاحب ابتداء سے آخر زندگی تک علی الاعلان حنفی المذہب رہے ہیں۔ ‘‘
(تحریک احمدیت حصہ اول ص : ۱۱)
➎ لاہوری مرزائی ڈاکٹر بشارت احمد نے لکھا:
’’مرزاغلام احمد قادیانی نے لکھا ہے کہ ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کر لیں۔ ‘‘
(مجد داعظم جلد دوم ص: ۹۱۷ جلد سوم ص: ۹۹.۹۸)
➏ مرتضی حسن بی اے قادیانی نے لکھا ہے:
’’ہم فقہ کو بھی مانتے ہیں اور فقہائے عظام کی دل سے قدر کرتے ہیں اور ان کے اجتہاد اور نفقہ کی قدر کرتے ہیں ہم بالخصوص حضرت امام ابو حنیفہ کی فقہ پر عمل پیرا ہیں اسکی ہدایت ہمارے امام حضرت مرزا صاحب نے فرمائی ہے۔‘‘
(مجدد زمان بجواب دوبتی ص ۲۱۷)
➐ منشی برکت علی ہوشیار پوری قادیانی ’’مرزا صاحب کسی فرقہ سے تھے ‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے ’’حضرت صاحب اہل سنت و الجماعت خاص کر حنفی المذہب تھے اس طائفہ طاہرین علی الحق میں سے تھے۔
(ملفوظات نور حصہ اول ص: ۵۴)
➑ دیو بندیوں اور بریلوی کے ممدوح پیر مہر علی شاہ کی کتاب سیف چٹائی اور سوانح عمری پیر مہر علی شاہ پر لکھی جانے والی کتاب ’’ پیر منیر ‘‘ کے مقدمہ میں لکھا ہے: ’’جہاں تک معلوم ہو سکا ہے ان کے (مرزا غلام احمد قادیانی) کے آباء واجداد حنفی المذہب مسلمان تھے اور خود مرزا صاحب بھی اپنی اوائل زندگی میں انہی کے قدم بقدم چلتے رہے۔
(سیف چشتائی حضرت مہر منیر ص: ۱۲۵)
➒ مولانا محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبداللہ چکڑالوی کے درمیان مقام حدیث ( حجیت حدیث) کے موضوع پر مباحثہ ہوا جس پر مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے تاثرات لکھے جو ’’ ربوہ مباحثہ چکڑالوی دبٹالوی کے نام سے طبع ہوا اور اس کے کتب کے مجموعہ مسمی روحانی خزائن جلد نمبر 19 میں یہ رسالہ موجود ہے جس میں مرزا قادیانی لکھتا ہے:
’’ہماری جماعت کا فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن و سنت نہ ہو خواہ کیسے ہی ادنی درجہ کی حدیث ہو اس پر وہ عمل کریں اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کرلیں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے۔‘‘
(روحانی خزائن ۲۱۲/۱۹)
➓ مرزا بشیر احمد ایم اے لکھتا ہے:
’’ ایک مولوی حضرت مسیح موعود (مرزاغلام احمد ) کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے کئی دفعہ یہ کہا کہ میں حنفی ہوں اور تقلید کو اچھا سمجھتا ہوں وغیر ذالک، آپ نے (مرزا غلام احمد نے) اس سے فرمایا کہ ہم حنفیوں کے خلاف تو نہیں میں تو ان چار اماموں کو مسلمانوں کیلئے بطور ایک چار دیواری کے سمجھتا ہوں جس کی وجہ سے وہ منتشر اور پراگندہ ہونے سے بچ گئے۔ ‘‘ مرزا بشیر ایم اے مزید لکھتا ہے کہ :
حضرت مسیح موعود علیہ السلام یوں تو سارے ناموں کو عزت کی نظر سے دیکھتے تھے مگر امام ابو حنیفہ صاحب کو خصوصیت کے ساتھ علم و معرفت میں بڑھا ہوا سمجھتے تھے اور ان کی قوت استدلال کی بہت تعریف فرماتے تھے۔ (سیرۃ المہدی حصہ دوم ص: (۲۹) تلك عشرة كاملة جس طرح مرزائیوں نے مہیبت کیا کہ وہ حنفی ہیں اسی طرح ہی حنفیوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت
کیا کہ وہ قادیانی ہیں، اب ان میں فرق کرنا درست نہیں ہے۔
احمد رضاخان بریلوی اور عقیدہ ختم نبوت
فرقہ بریلوی کے موسس احمد رضا خان بریلوی بھی عقیدہ ختم نبوت کے مسئلہ میں فکر مرزا میں غوطہ خوری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لکھتے ہیں۔ ’’ انجام وے آغاز رسالت باشد اینک گویم ہم تابع عبد القادر ‘‘( حدائق بخشش حصہ دوم ص: ۷۲)
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کی وفات کے بعد پھر رسالت کا آغاز ہو گا یہ کہو کہ وہ شیخ عبد القادر جیلانی کا تابع بھی ہوگا۔‘‘ (مواخذات)
➊ احمد رضا خان کی اس بات سے معلوم ہوا کہ نبی مکرم ﷺ کی وفات کے بعد ۵۲۰ ہجری تک رسالت کا دروازہ بند ہے۔ ۵۶۱ ہجری سے عبد القادر جیلانی کی وفات کے بعد پھر سے رسالت کا آغاز ہوگا۔ در حقیقت مولوی احمد رضاخان اپنے لئے راہ ہموار کرنا چاہتے تھے، لیکن افسوس کہ مرزا قادیانی احمد ضاسے سبقت لیے گیا اور مولانا احمد رضا خان کی عقیدہ ختم نبوت کے استیصال کی ساری کی ساری جبدو رائیگاں اور بے سود چلی گئی۔ شاید کہ مولوی احمد رضا خان اس بات سے بے خبر تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اور اپنے حبیب کے دشمن کو ہمیشہ نیست ونابود کر دیتا ہے۔ اس لئے تو اپنی زندگی کے ایام کتاب وسنت کے مخالفت میں گزار دیئے۔
➋ مولوی احمد رضا لکھتا ہے:
’’۵۶۱ھ کے بعد آنے والا نبی عبد القادر جیلانی کا پیروکار ہو گا۔ اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ نبی مکرم ﷺ کے بعد تشریعی یا غیر تشریعی نبی آنے کا عقیدہ رکھنا بد ترین عقیدہ ہے۔ لیکن موسس بریلویت کی بات پر غور کرو کہ نبی کو ولی کا متبع قرار دے رہا ہے۔ یعنی ایک عام انسان کا درجہ مذہب بریلویت میں نبی سے زیادہ ہے جسے اہل علم گستاخ رسول ﷺ کا نام دیتے ہیں۔ ‘‘
➌ مولوی احمد رضا لکھتا ہے:
’’معراج کی رات اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ سے پوچھا ‘‘
اغم علیک ان جعلتک آخر الانبیاء‘‘
کیا تمہیں اس بات کا غم ہوا کہ میں نے تمہیں سب سے پچھلانبی کیا ؟ عرض کی :
نہیں اے رب میرے۔ ارشاد فرمایا میں نے انہیں اس لئے سب سے پچھلی امت بنا یا کہ سب اعتوں کو ان کے سامنے رسوا کروں۔‘‘
(ملفوظات مولوی احمد رضا خان بریلوی حصہ سوم ص: ۶۰)
احمد رضا خان کی اس تحریر سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی مکرم ﷺ اپنے آخری نبی ہونے میں نعوذ باللہ خوش نہ تھے۔ فقط اس میں امت کا اعزاز تھا، بالذات کوئی فضیلت نہ تھی۔ لیکن فقط مولوی احمد رضاخان کا یہ مفروضہ ہے جو انہوں نے نبی علیہ السلام کے اس فرمان کا مستحق بنے کیلئے گھڑا ہے:
من كذب علي متعمدا فليتبوأ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّاسِ .
➍ مولوی احمد رضا بریلوی لکھتا ہے قریب تھا کہ یہ ساری کی ساری امت نبی ہو جائے :
جمال ہمنشین در من اثر کرو و گرنه من جہاں قائم که بیستم
(فتاوی فریقه ص: ۱۳۲)
کس قدر حماقت کی انتہاء ہے کہ اگر ساری کی ساری امت نبی ہو جائے تو پھر ہر نبی کی امت کہاں سے آئے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ احمد رضا اپنی اس تحریر کی وجہ سے مرزا قادیانی سے بھی سبقت لے گیا کیونکہ اس نے فقط اپنے ذات کیلئے غیر تشریعی نبوت کا اثبات کیا تھا، لیکن احمد رضا نے ہر آدمی کیلئے نبوت کا اثبات کر دیا۔ اہل دانش تدبر و تفکر کریں گے کہ مرزا کی ایک نبوت کی اثبات کی وجہ سے اسے اسلام میں جگہ نہ ملی تو جو ہر آدمی کو نبی ثابت کر دے اسکی اسلام میں شمولیت کیسے ممکن ہے۔ ان دلائل کے علاوہ بھی ایسے دلائل موجود ہیں جس سے مذہب بریلویت کی جڑ اکھیڑہ مل سکتی ہے لیکن طوالت سے اجتناب کرتے ہوئے انہی نصوص پر اکتفاء کرتا ہوں۔
عقیدہ ختم نبوت اور صوفیاء
ایسے لوگ جن کے عقائد کو بنیاد بنا کر مرزا قادیانی نے نبی مکرم ﷺ کی نبوت پر ضرب کاری لگانے کی مذموم کوشش کی ان میں سے ایک جماعت صوفیاء بھی ہے۔ لیکن یادر ہے کہ حنفیت کا تعلق بھی صوفیت کے ساتھ کافی حد تک ہے یہی وجہ ہے کہ عاشق الہیٰ میر ٹھی تصوف کی ستائش کرتے ہوئے ہوں رقمطراز ہے:
’’تصوف اصل ایمان ہے کوئی زاید شی نہیں ہے، یہی ایمان جسکا ہر مسلمان مدعی ہے اصل سلوک ہے بشر طیکہ اسکی اصلیت اور حلاوت قلب کو عطا ہو جائے۔‘‘
(تذکرۃ الرشید ۲/۲ مصنفہ عاشق الہىٰ میر ٹھی ناشر ادارہ اسلامیات لاہور)
گو کہ اس عبارت کے کئی ایک موخذات کیے جاسکتے ہیں لیکن باحتراز طوالت کیوجہ سے ان کی طرف التفات ضروری نہیں سمجھتا لیکن یہاں اس عبارت کی وجہ ذکر سے جو بات ظاہر ہے وہ یہ کہ اہل الرائے کے نزدیک تصوف غایت درجہ کی قابل قدر چیز ہے، بایں وجہ صوفیاء کی ہمنوائی بھی کی بطور حجت ابن عربی کے ذکر میں ایک نص ذکر کروں گا جس سے میری اس بات کو تقویت پہنچتی ہے۔ یہاں چند صوفیاء کا ذکر کرتا ہوں جنہوں نے ختم نبوت کے باب میں ایسی باتیں کیں جسکی وجہ سے مدعیان نبوت کاذبہ کو کافی تقویت ملی بلکہ انہوں نے انہیں ہاتوں کو دلیل بنا کر عقیدہ ختم نبوت کے استیصال کی ناکام کو شش کی جسکی وجہ سے وہ لوگ علماء اہل سنت کے ہاں کافر ٹھہرے۔ جن لوگوں کی جہد قبیحہ کیوجہ سے انہیں یہ ناپاک جسارت کرنے کا موقعہ ملا ان کا شمار بھی ان سے کچھ الگ نہیں ہے۔
➊ ابن حجر الھیثم ابوالفضل شباب الدین السید محمود آلوسی البغدادی المتوفی ۱۲۶ھ ھیثمی کے بارے میں لکھتے ہیں:
ومن العجب أن ابن حجر الهيثمي قال في فتاواه الحديثية انه لابد في اثبات النبوة لابراهيم ابن النبي لا في صغره وقد ثبت في الصغر لعيسى ويحيى عليهما السلام ۔
ابن حجر الھیثمی نے اپنے فتاویٰ حدیثیتہ میں (بڑی) عجیب بات کہی ہے۔ (وہ یہ کہ) نبی مکرم ﷺ کے بیٹے ابراہیم کیلئے صفر سنی میں نبوۃ کو مثبت کرنا کچھ بعید نہیں ہے کیونکہ عیسی علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام کیلئے صغر سنی میں ثبوت ثابت ہے۔
(روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع الثانی ۳۳/۱۲)
یعنی ہیثمی صاحب یہ بات کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح یحیی علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کا صغر سنی میں نبی ہو نا محبت ہے۔ اسی طرح مکرم ﷺ کے بیٹے ابراہیم کیلئے بھی صفر سنی میں نبوت ثابت ہے۔ لیکن ھیثمی صاحب کی یہ بات کئی ایک اعتبار سے درست نہیں ہے۔
➊ کیونکہ جب نبی مکرم ﷺ کے بیٹے ابراہیم کیلئے صغر سنی میں نبوت ثابت ہے تو پھر دوسرے بھی تو آپ ﷺ ہی کے بیٹے تھے۔ عبد اللہ ، قاسم ، اور طیب۔ لیکن ان کیلئے کسی نے بھی نبوت ثابت نہیں کی نہ ہی نبی مانا ہے جبکہ ایک کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ تو پھر ماننا پڑے گا کہ جسطرح آپ ﷺ کے دوسرے بیٹوں کو صغر سنی میں نہیں مانا درست نہیں اسی طرح آپ ﷺ کے بیٹے ابراہیم کو صفر سنی میں نبی مانا درست نہیں ہے۔
➋ پھر اس اعتبار سے بھی ھیثمی کی بات غلط ہے کہ یحیی و عیسیٰ علیہ السلام کیلئے تو نبوت بچپن میں نصوص شرعیہ سے ثابت ہے لیکن ابراہیم کیلئے نبوت صغر سنی میں ثابت نہیں ہے۔
عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کا بچپن میں نبی ہونا
ارشاد باری تعالی ہے:
وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا ﴿٣١﴾ وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا ﴿٣٢﴾ وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ﴿٣٣﴾ ذَٰلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ ﴿٣٤﴾
اس نے کہا ( یعنی عیسیٰ علیہ السلام) نے میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے اپنا پیغمبر بنایا ہے اور اس نے مجھے بابرکت کیا ہے جہاں بھی میں ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوۃ کا حکم دیا ہے جب تک بھی میں زندہ رہوں اور اس نے مجھے اپنی والدہ کا خدمت گزار بنایا ہے اور مجھے سرکش اور بد بخت نہیں کیا اور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دو بارہ زندہ کھڑا کیا جاؤں گا سلام ہے۔ یہ ہے صحیح واقعہ عیسی ابن مریم کا‘ یہی ہے وہ حق بات جس میں لوگ شک شبہ میں مبتلا ہیں۔
( مریم ۳۱،۳۴)
یحیی علیہ السلام کا بچپن میں نبی ہونا
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ ۖ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ۖ إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ ﴿٣٨﴾ فَنَادَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَىٰ مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللَّهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ ﴿٣٩﴾
اسی جگہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی کہ اے میرے پروردگار ! مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرما بے شک تو دعا کا سننے والا ہے۔ پس فرشتوں نے اسے آواز دی جب کہ وہ تجرے میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بچے کی یقینی خوشخبری دیتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے کلمہ کی تصدیق کرنے والا سردار ضابط نفس اور نبی ہے نیک لوگوں میں سے۔
(آل عمران : ۳۸ – ۳۹)
ان نصوص قرآنیہ سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ و یحیی علیہ السلام بچپن کی عمر میں نبی تھے۔ اب اگر نبی مکرم ﷺ کے بیٹے ابراہیم بھی صغر سنی میں نبی تھے تو اس کے لیے قرآن وحدیث سے دلیل پیش کرنا ہو گی جبکہ ایسی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس لیے ابن حجر ھیثمی کا عیسیٰ و یحیی علیہ السلام کی نبوت سے استدلال درست نہیں ہے۔
➌ ابن حجر ھیثمی کی یہ بات اس اعتبار سے بھی درست نہیں ہے کہ ابراہیم بن محمد ﷺ کیلئے صغر سنی میں نبوت ثابت کرنے سے فرامین رسول اللہ ﷺ کیساتھ تضاد لازم آتا ہے۔ اگر آپ ﷺ کابیٹانبی تھا تو نبی ﷺ کے یہ فرامین چہ معنی دارد؟
➊ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
كانت بنو إسرائيل تشوشهُمُ الأَنْبِهاء ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِي خَلَقَهُ نَبِي ، وَإِنَّهُ لا نَي بَعْدِي . وَسَيَكُون لحلها، فَيَكْثُرُونَ.
بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کرتے تھے۔ جب کوئی نبی فوت ہوتا تو دوسرانبی اس کا خلیفہ (جانشین) ہوتا مگر سن لو! میرے بعد کوئی نبی نہیں البتہ خلیفے ضرور ہوں گے اور بکثرت ہوں گے۔
(صحیح بخاری ۳۳۵۵، صحیح مسلم ۱۸۴۲)
➋ سید نا ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَإنَّه سيكون في أمي لاكون كل الون الهم تزعم أَنَّهُ نَي وَأَنَا عَالم اليوين لا نرى بَعْدِي .
میرے امت میں تیس بڑے جھوٹے پیدا ہوں گے جن میں سے ہر ایک کا دعویٰ ہو گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں
(ابوداؤد ۴۲۵۲، ترمذی ۲۲۱۹، ابن ماجہ ۳۹۵۲ مستدرک حاکم جلد ۳۵۰/۳ وسنده صحیح واصلہ فی مسلم ۱۹۲۰،۲۸۸۹ دارالسلام )
سید نا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أنا محمد وأنا أَحْمَدُ وأنا الناس الذى نمى بن الكفر وأنا الخاشِرُ الَّذِي يُعْشَرُ النَّاسُ عَلَى . عقبي وأنا الغائب». وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَي.
میں محمد ہوں میں احمد ہوں میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعے سے کفر کو مٹایا جائے گا۔ میں حاشر ہوں کہ میرے بعد حشر برپا ہو گا میں عاقب ہوں، عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔
( صحیح مسلم ۲۳۵۴ صحیح بخاری ۳۵۳۲، اللفظ لہ)
یہ احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ ﷺ اللہ تبارک و تعالیٰ کے آخری نبی ہیں آپ کے بعد قیامت قائم ہو جائے گی آپ کے بعد اور قیامت کے درمیان کوئی نبی پیدا نہیں ہو گا۔
مفسرین کے اقوال
➍ قرآن مجید کی آیت:
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿٤٠﴾
لوگو! تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد ﷺ نہیں لیکن آپ اللہ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے
(احزاب ۴۰)
کی تفسیر میں متعدد مفسرین نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو کوئی بھی ایسا بیٹا عطا نہیں فرمایا جو حد بلوغت کو پہنچا ہو۔ کیونکہ اگر آپ ﷺ کے بیٹوں میں سے کوئی حد بلوغت کو پہنچتا تو نبی ہوتا۔ چونکہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ ﷺ کے تمام بیٹوں کو بحالت بچپن میں ہی اپنے پاس واپس بلا لیا۔
➊ مقاتل بن سلمان فرماتے ہیں:
ولم يجعل محمد ابا احد من الرجال لانه لو جعل له ابنا لجعله نبيا وليس بعده نبی قال الله تبارک و تعالىٰ وخاتم النبيين۔
اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو بیٹا عطا فر ماتا تو اسے نبی بناتا لیکن آپ علیہ السلام کے بعد نبی نہیں ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ آپﷺ تمام نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں۔
(النکت والعیون تفسیر الماوردی جلد ۴ ص ۱۴۰۹ بو الحسن علی بن محمد بن جیسبا الماوردی البصری ۳۶۴-۴۵۰ھ)
➋ سید نا عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ان الله تعالىٰ لما حكم انه لا نبي بعده لم يعطه ولد اذکر ابصير ارجلا ولو اعطاه ولد أذكراً يصير ارجلا لجعله نبيا –
بے شک جب اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا کہ آپ علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں تو آپ ﷺ کو ایسا بیٹا عطا نہیں فرمایا جو حد رجل (یعنی مرد) کو پہنچا ہو۔ کیونکہ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ آپ ﷺ کو ایسا بیٹا عطا فر ماتا جو صدر جبل (یعنی مرد کو پہنچا تو اسے نبی بناتا) چونکہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کے تمام بیٹوں کو صغر سنی میں ہی فوت کر دیا۔
( تفسیر القرآن العظیم ابو المظفر السمعانی منصور بن محمد بن عبد الجبار التمیمی المروزی الشافعی السلفی – ۴۲۶ ھ، ۴۸۹ ھ ۲۹۱/۴، تفسیر بغوی معالم تنزیل ۷۴۹/۲ تفسیر سمرقندی المسمی بحر العلوم ۵۳/۳)
➌ ابن عمر البقاعی فرماتے ہیں:
ولو صار أحد من ولده رجلا لكان نبيا بعد ظهور نبوته وقد قضى الله الا يكون بعده نبي اکر اماله۔
اگر آپ ﷺ کی اولاد میں سے مرد ہوتا (یعنی حد بلوغت کو پہنچی تو وہ نبی ہوتا آپ ﷺ کی نبوت کے ظاہر ہونے کے بعد بھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی تعظیم و تکریم کی خاطر یہ فیصلہ فرمادیا کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔
( نظم الدرر فی تناسب الايات والسور للامام برہان الدین البی المحسن ابراہیم بن عمر البقالی التوفی ۸۸۵ھ ۶/ ۱۱۲)
ابن حجر ھیثمی نے یہ روایت نقل کی ہے:
انه ﷺ ادخل يده في قبره بعد دفنه و قال اماو الله انه لنبي ابن نبی
بے شک آپ ﷺ نے اسکی (یعنی اپنے بیٹے ابراہیم کی) قبر میں اسے دفن کرنے کے بعد اپنے ہاتھ مبارک کو داخل فرمایا اور کہا کہ اللہ کی قسم بے شک یہ نبی ہے نبی کا بیٹا ہے۔ (روح المعانی ۳۴/۱۱)
یہ روایت قابل قبول نہیں ہے۔ کیونکہ اسکی کوئی سند ہی نہیں ہے اور بغیر سند کے روایت درست نہیں ہوتی۔ اس لیے اس روایت سے ھیثمی کا استدلال پکڑنا بھی نادرست ٹھہرا۔
➍ عبد الوہاب شعرانی (المتوفی ۹۸۳ھ ) یہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے:
أعلم أن النيرة لم ترتفع مطلقاً بعد محمد واهما ارتفع نبوة التشريع فقط فقوله لانبی بعدی و لارسول بعدی ای ماثم من يتشرع بعدى تشريعة خاصة۔
جان لو کہ محمد ﷺ کے بعد نبوت مطلق طور پر ختم نہیں ہوئی صرف تشریعی نبوت ختم ہوئی ہے۔ آپ ﷺ کا یہ فرمان ’’ میرے بعد نہ کوئی نبی ہے اور نہ ہی رسول‘‘(تو اس کا مطلب یہ ہے کہ) یعنی ایسانبی جو ایک خاص شریعت دیا جائے۔ (کتاب الیواقیت والجواہر فی بیان عقائد الاکا بر الامام العارف الربانی سیدی عبدالوهاب الشعرانی – وبھامشہ کتاب الکبیر بیت الاحمر فی بیان علوم الشیخ الاكبر لصاحب الیواقیت والجواہر – الجزء الثانی ص: ۳۹ ناشر عباس بن عبد السلام بن شقرون بالفخامین بمصر الطبقه الاولی سنتہ ۵۱۳۵۱)
آگے چل کر مزید لکھتا ہے:
فمازال المرسلون ولا يزالون في هذه الدار لكن من باطنية شرع محمد ولكن اكثر الناس لا يعلمون۔
یعنی اس دنیا میں پہلے ہی رسول آتے رہے ہیں اور آئندہ بھی آتے رہیں گے لیکن یہ محمد ﷺ کی شریعت کی باطینت سے ہوں گے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
(کتاب الیواقیت والجواہر فی بیان عقائد الا کا بر للامام العارف الربانی سیدی عبد الوہاب شعرانی الجزء الثانی ص: ۸۱)
➌ سید عبدالکریم جیلانی بن ابراہیم جیلانی لکھتا ہے:
فانقطع حكم النبوة التشريع بعدة وكان محمد ﷺ خاتم النبیين
پس آپ کے بعد تشریعی نبوت کا حکم ختم ہو گیا اور محمد ﷺ خاتم النبییین ہیں۔
(الانسان الکاملنباب ۳۶ اردو ترجمه خرید التصوف ص: ۲۲)
➍ ابن عربی:
پورا نام یوں ہے محمد بن علی بن عربي الحاتمي الطائي الاندلسی – ابوبكر الملقب بالشيخ الأكبر عند الصوفية (ميزان الاعتدال ۶۵۹/۳، العقد الثمين ۱۲۰/۲، شذرات الذهب ۱۹۰/۵، طبقات المسالمية ص: ۱۵۵، معجم مولفین ۳۰/۱۱) ابن عربی ۵۲۰ھ میں مرسیہ میں پیدا ہوا اور ۶۳۸ ھ کو وفات پائی۔ کئی کتا ہیں اور رسائل تصنیف کیے جن کی تعداد زرکلی نے چار سو بیان کی ہے۔
(تقدیس الاشخاص فی الفكر الصوفی ۵۲۷/۱ مصنفہ محمد احمد لوچ)
اس کی کتابوں میں سے یہ دو کتابیں زیادہ معروف ہیں:
➊ الفتوحات المکیہ۔
➋ نصوص الحکم ۔
گو کہ بعض لوگوں نے عقائد میں ابن عربی کادفاع کیا ہے اور اس کی توثیق کی ہے جیسے جلال الدین السیوطی، انہوں نے ابن عربی کے دفاع میں ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے ’’تنبیہ الغبی بتنزیہ ابن عربی‘‘ ابن العماد نے اس کا نام ’’تنبیہ الغبي بتبريئة ابن عربی‘‘ بیان کیا ہے۔ اسی طرح شمس الدین احمد بن سلیمان الحنفی الشیربابن كمال باشا المتوفی ۹۴۰ھ سے جب ابن عربی اور اسکے عقیدہ کے متعلق سوال کیا گیا، تو اس نے کہا:
اما بعد ابها الناس اعلموا أن الشيخ الاعظم المقتدى الاكرم قطب العارفين وأمام الموحد بن محمد بن على بن عربي الطائي الاندلسی مجتهد كامل و مرشد فاضل له مناقب عجيبة