کچھ علوم اور فنون میں استعمال ہونے والی اصطلاحات اکثر ہمارے ذہنوں کو ایک مخصوص، جامد طرز فکر کی طرف لے جاتی ہیں۔ یہ اصطلاحات رفتہ رفتہ ہماری سوچ کا حصہ بن جاتی ہیں اور ہم انہیں اپنا کر حقائق کو بھی انہی کی عینک سے دیکھنے لگتے ہیں۔ نتیجتاً، حقائق کے مقابلے میں اصطلاحات زیادہ اہمیت حاصل کر لیتی ہیں، اور اس طرح حقائق فنون کی پیچیدگیوں میں چھپ جاتے ہیں۔
حقائق کی تفہیم میں زبان کی آزادی
حقائق کو سمجھنے اور جاننے کے لیے مختلف زبانوں کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جب تک حقائق کو کسی خاص ساخت یا سانچے میں قید نہ کیا جائے، آپ ان کی وضاحت اور تفہیم کے لیے مختلف الفاظ اور پیرائے استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر اصطلاحات اور فنون کی حد سے زیادہ پابندیوں کی وجہ سے حقائق پر جمود طاری ہو جائے، تو ان حقائق کو دوبارہ آزاد کرانا ضروری ہو جاتا ہے۔
عقلی اور شرعی دلائل کے مابین تضاد
اشیاء کو عقلی دلائل سے ثابت کرنا اور انہیں شرعی دلائل سے ثابت کرنا، اکثر ایک دوسرے کے مخالف تصور کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ صرف عقلی دلائل سے مطمئن ہوتے ہیں، جبکہ دوسروں کو صرف شرعی دلائل کی ہی طلب ہوتی ہے، یہاں تک کہ شرعی دلائل دیتے وقت ان کے ہاں عقل کو نظر انداز کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ ایک عام خیال یہ بھی ہے کہ "شریعت میں عقل کا کیا کام؟” جبکہ دوسری طرف بعض لوگ شریعت کو عقلی توجیہ کے بغیر جامد سمجھتے ہیں۔
عقل اور شریعت کے تضاد کا سبب
سوال یہ ہے کہ آخر یہ تضاد کیوں فرض کیا گیا؟ عقل اور شریعت کو متضاد سمجھنے کی نوبت کیوں آئی؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ کچھ علوم اور ان کی اصطلاحات کو حد سے زیادہ بڑھاوا دینے کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے ہم طویل عرصے سے اس نظریاتی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔
انبیاء اور انسانی عقل کا تعلق
انبیاء جب دنیا میں آئے تو انہیں خوش آمدید کہنے والی انسانی فطرت اور عقل تھی، جو خدا کی طرف سے انسانوں کو ودیعت کی گئی ہے۔ انبیاء نے ہمیشہ انسانی فطرت اور عقل کو جلا بخشی، کیونکہ یہی وہ قوت ہے جو انبیاء کے پیغام کو سمجھ سکتی ہے۔ نبوت کا پیغام عقل اور فطرت کے ذریعے انسانوں کو سمجھ میں آتا تھا، اور نبی کی باتیں عقل کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جاتی تھیں۔
عقل کا کردار اور شرعی دلائل
اگرچہ بعض اوقات انسان نبی کی بتائی ہوئی بات کو مکمل طور پر نہ سمجھ سکے، مگر عقل پھر بھی ان کی حقانیت کی گواہی دیتی ہے۔ کسی بات کا "سمجھ میں نہ آنا” اسے "خلاف عقل” نہیں بناتا۔ لہذا، نبوت سے ثابت ہونے والے بہت سے معاملات کو صرف عقل کی بنیاد پر رد کرنا، سب سے پہلے عقل کے ہی خلاف ہے۔
اسی طرح نبوت کی بات کو جمود کی شکل دے دینا اور انسانی عقل کو معطل کر دینا شریعت کے مقاصد کے منافی ہے۔ یہ دونوں رویے، جو مختلف طبقوں میں پائے جاتے ہیں، ایک طویل نظریاتی تصادم کا نتیجہ ہیں۔
عقل اور شرعی دلائل کا تعلق
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اپنی کتاب "النبوات” میں قرآنی دلائل کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
"لوگو! اگر تمہیں مرنے کے بعد جی اٹھنے میں شک ہے تو (ذرا یہ سوچو) ہم نے تمہیں مٹی سے ہی تو پیدا کیا، پھر ایک ٹپکتے قطرے سے، پھر ایک خون کے لوتھڑے سے، پھر ایک گول مول بوٹی سے جس پر کہیں نقش نکل آئے ہوتے ہیں اور کہیں نہیں نکلے ہوتے …. اس لئے کہ ہم تم پر (یہ) معاملہ کھول دیں….”
"پھر تم دیکھتے ہو کہ زمین بے حس و حرکت پڑی ہے پھر کیا ہوتا ہے جونہی ہم نے اس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پھبک اٹھی اور پھول گئی اور لگی قسم قسم خوش منظر نباتات اگانے۔”
(کتاب النبوات از شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ صفحہ: ٢٩، ٣٩، بحوالہ الاصول الفکریہ للمناھج السلفیہ عند شیخ خالد عبدالرحمن العک)
شرعی دلیل اور عقلی دلیل کا اتحاد
امام ابن تیمیہ کے مطابق، انسانی تخلیق سے خالق کے وجود، اس کی قدرت، اور اس کی سچائی پر استدلال کرنا ایک بہترین عقلی طرز استدلال ہے، جو بیک وقت شرعی بھی ہے۔ قرآن اسی طرز استدلال کی رہنمائی کرتا ہے اور اس کو بار بار واضح کرتا ہے۔ یہ ایک شرعی دلیل ہے کیونکہ شریعت اس سے استدلال کا حکم دیتی ہے، اور یہ عقلی بھی ہے کیونکہ عقل بھی اس کو سمجھتی ہے۔
قرآن اور عقلی دلائل
قرآن اس طرح کی نشانیوں سے بھرا ہوا ہے، جیسے بادلوں کے اٹھنے اور بارش کے ذریعے استدلال کرنا۔ قرآن میں ایسی نشانیوں کا بار بار ذکر ہے جو انسانی عقل کو حقیقت تک پہنچنے میں مدد دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر:
"اور کیا ان لوگوں نے یہ منظر کبھی نہیں دیکھا کہ ہم ایک بے آب و گیاہ زمین کی جانب پانی کو ہانک لاتے ہیں اور پھر اس کے ذریعے ہم (اسی زمین سے) وہ ساری کھیتیاں برآمد کر لاتے ہیں جس سے ان کے چوپائے پیٹ بھرتے ہیں اور یہ خود بھی۔ کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں؟”
سورہ السجدہ آیت نمبر 27
یہ آیات دراصل عقلی نشانیاں ہیں، جو کہ شرعی بھی ہیں، کیونکہ شریعت ان سے استدلال کرتی ہے۔
خدا کی کتاب اور عقل کی تشفی
خدا کی کتاب، قرآن، نہ صرف عقل کی تسکین کا سامان ہے بلکہ دلوں کو راحت دینے والی بھی ہے:
"اے انسانو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی جانب سے ایک بڑی ہی پتے کی بات آئی ہے اور جو کہ سینوں کو لگ جانے والے جو روگ ہیں، ان کیلئے شفا ہے اور جو کہ راہنما ہے اور سراسر رحمت، ان لوگوں کیلئے جو ایمان لے آئیں۔
سورہ یونس آیت نمبر 57
کہو: خدا کا (یہ) فضل اور رحمت ہی تو وہ چیز ہے کہ جس پر یہ خوشی منائیں۔ یہ بہت بہتر ہے اس سے جس کو یہ سمیٹتے رہتے ہیں۔”
سورہ یونس آیت 58
(بشکریہ ایقاظ)
یہ تحریر اس بات پر زور دیتی ہے کہ شریعت اور عقل میں کوئی حقیقی تضاد نہیں ہے۔ یہ انسانی عقل کے ذریعے شریعت کو سمجھنے کی ضرورت پر زور دیتی ہے اور بتاتی ہے کہ قرآن خود بھی عقل کا احترام کرتا ہے۔