عقل اور دین کے بارے میں جدیدیت کے رویے
تحریر: محمد رشید ارشد، شعبہ فلسفہ، پنجاب یونیورسٹی لاہور

جدیدیت کے دین کے بارے میں چار اہم رویے ہیں: انکار، تشکیل، لاتعلقی، اور لاادریت (Agnosticism)، جو درحقیقت لاتعلقی ہی کی ایک قسم ہے۔ جدیدیت کی تشکیک کو کلاسیکی فلسفے کی شک و شبہات سے الگ کرنا ضروری ہے کیونکہ جدید تشکیک دین کو مکمل طور پر رد کرنے اور اس کا مذاق اڑانے کی ایک منظم کوشش ہے۔ اس کا مقصد دین کے ماننے والوں کو شک میں مبتلا کر کے انہیں دین سے دور کرنا ہے۔ دراصل، یہ تشکیک بھی انکار ہی کی ایک قسم ہے، جس پر محض ایک باریک پردہ ڈال دیا گیا ہے تاکہ دین کے ماننے والوں کے ذہن کو بے چین کر کے انہیں انکار کی طرف مائل کیا جا سکے۔

جدیدیت کے پیچھے ایک مخصوص Rationalism یعنی عقلیت پسندی کارفرما ہے، جس میں عقل اور علم کی تعریف کو ایک خاص تناظر میں محدود کر دیا گیا ہے۔ جدیدیت کے تصور علم میں عقل کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ اسے ایک خاص تصور حقیقت اور مقصدِ زندگی کے ماتحت کیا گیا ہے۔ جدیدیت کے مطابق، علم کا مرکز Subject یعنی جاننے والا ہوتا ہے، نہ کہ Object یعنی جانا جانے والا۔

جدیدیت میں سوال یہ نہیں کیا جاتا کہ حقیقت کیا ہے، بلکہ یہ پوچھا جاتا ہے کہ حقیقت کو کیسا ہونا چاہیے۔ اس فکری تناظر میں، بیسویں صدی تک، جدیدیت کا دین کے بارے میں موقف یہ رہا ہے کہ دین کو عقل کے مطابق ہونا چاہیے۔ بظاہر یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ انسان صحیح و غلط کا فیصلہ عقل کی بنیاد پر کرتا ہے، لیکن یہاں عقل کی تعریف کو خاص طور پر محدود کر دیا گیا ہے۔ دین کو عقل کے مطابق بنانے کا مطالبہ کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ عقل کو بھی دین کے تابع ہونا چاہیے، کیونکہ عقل اپنی ماہیت میں محدود اور محتاج ہے۔

اہلِ دین کا موقف یہ ہے کہ عقل اپنی فطرت میں اللہ کی مخلوق ہے اور اس کا مقصد اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کو سمجھنا اور اس کی بھیجی ہوئی ہدایت کو قبول کرنا ہے۔ اس میں عقل، فطرت کو سمجھنے میں آزاد ہے، لیکن جب ہدایت کی بات آتی ہے، تو عقل کو وحی کے تابع ہونا پڑتا ہے۔ عقل کو وحی کی پیروی کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ عقل خود فطری طور پر محدود ہے اور اسے وحی سے ہدایت ملتی ہے۔

اہلِ عقل کا عمومی تصور یہ ہے کہ علم، معلوم یعنی حقیقت کے تابع ہونا چاہیے، لیکن جدیدیت میں علم کو ذہن یعنی Subject کے تابع کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت کو انسان کی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے، نہ کہ حقیقت کو جیسا کہ وہ ہے، سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ دین کے ماننے والوں کا یہ موقف ہے کہ عقل کو وحی کے تابع ہونا چاہیے، کیونکہ عقل محدود ہے اور وحی، جو اللہ کی طرف سے ہے، اس کے لیے راہنمائی کا ذریعہ ہے۔

خلاصہ:

  • جدیدیت دین کے بارے میں چار رویے رکھتی ہے: انکار، تشکیل، لاتعلقی، اور لاادریت۔
  • جدید تشکیک دراصل انکار کی ایک شکل ہے، جو دین کو رد کرنے کے لیے ترتیب دی گئی ہے۔
  • جدیدیت میں علم اور عقل کو ایک خاص تناظر میں محدود کیا گیا ہے، جہاں عقل کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
  • عقل کو دین کے تابع ہونا چاہیے، کیونکہ عقل محدود ہے اور اسے وحی سے ہدایت ملتی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے