سوال:
عزل کا کیا حکم ہے؟
جواب:
عزل کے متعلق کم از کم یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ مکر وہ اور ناپسندیدہ ہے اور کراہت و ناپسندیدگی علماء کی تعبیر کے مطابق جواز کے ساتھ جمع ہو سکتی ہے، کیونکہ بعض اوقات ایک کام جائز ہونے کے ساتھ ساتھ مکروہ ہوتا ہے۔
عزل کے جواز کی دلیل جابر رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جس کو بخاری و مسلم رحمہ اللہ نے اپنی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے:
«كنا نعزل و القرآن ينزل» [صحيح البخاري، رقم الحديث 4911 صحيح مسلم، رقم الحديث 1440]
”ہم عزل کرتے تھے درآنحالیکہ قرآن اترتا تھا۔“
اور جابر رضی اللہ عنہ کے مذکورہ قول کا مطلب یہ ہے کہ ہم عزل کرتے ہی رہے اور قرآن میں (اس کے ممنوع ہونے کا)کوئی حکم نازل نہیں ہوا، سو اس کا مطلب یہ ہوا کہ عزل کرناجائز ہے۔
لیکن ہم کہتے ہیں کہ عزل جائز ہونے کے ساتھ ساتھ مکر وہ بھی ہے۔ (اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ) اس کے مکروہ ہونے کا حکم کہاں سے ملا؟ (تو گزارش یہ ہے کہ) غزل کے مکروہ ہونے کا حکم آپ علیہ السلام کے اس فرمان پر غور کرنے سے حاصل ہوا:
«تزوجوا الودود الولود، فإني مباه بكم الأمم يوم القيامة، وفي لفظ: مكاثر بكم الأمم يوم القيامة» [صحيح۔ سنن أبى داود 1158/3]
”خوب محبت کرنے والی اور کثرت سے بچے پیدا کرنے والی عورت سے شادی کرو، بلاشبہ میں قیامت کے دن تمہاری کثرت سے دیگر امتوں پر فخر کروں گا، ایک حدیث کے الفاظ یوں ہیں: قیامت کے دن تمہاری کثرت سے دیگر امتوں پر کثرت و غلبہ کا اظہار کروں گا۔“
پس وہ شخص جو اپنی بیوی سے عزل کرتا ہے، بلاشبہ وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خواہش کو نہیں مانتا ہے۔ اور یہ عمل جس کو حکومت نے اپنا ”متنبی“ بنا کر اس کا نام تحدید نسل اور تنظیم نسل رکھ لیا ہے، یہ نبی علیہ السلام کی دوسری امتوں اور ان کے انبیاء پر اپنی امت کی کثرت کو ظاہر کر کے فخر کرنے کی خواہش کے خلاف ہے۔
پھر یہ کہ عزل کرنا مغرب کی تقلید ہے جو بچے کی تربیت پر اجر و ثواب کے ثابت ہونے کا عقیدہ و ایمان نہیں رکھتا، حالانکہ تربیت اولاد پر ثواب کے مرتب ہونے کی یہ دلیل موجود ہے:
«إذا مات ابن آدم انقطع عمله إلا من ثلاث: صدقة جارية أو علم ينتفع به، أو ولد صالح يدعو له» [صحيح۔ سنن الترمذي، رقم الحديث 3895]
”جب ابن آدم فوت ہو جاتا ہے تو تین اعمال کے علاوہ دیگر اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، ان میں سے ایک صدقہ جاریہ دوسرا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور تیسرا وہ نیک اولاد جو اس کے حق میں دعا کرے۔“
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان بھی اس پر دلالت کرتا ہے جس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے اندر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مروی حدیث سے بیان کیا ہے:
«ما من مسلمين أى زوجين . يموت لهما ثلاثة من المواليد إلا لن تمسه النار إلا تحلة القسم» [صحيح البخاري، رقم الحديث 6280 صحيح مسلم، رقم الحديث 2632]
”جو دو مسلمان، یعنی میاں بیوی، ان کے تین بچے (بلوغت کو پہنچنے سے پہلے) فوت ہو جائیں، ان کو ہرگز آگ نہیں چھوئے گی، سوائے قسم کو حلال کرنے کے لیے۔“
اللہ کے اس فرمان کے تحت «وإن منكم الا واردها كان على ربك حتما مقضيا» تم میں سے جو بھی ہے اس پر وارد ہونے والا ہے یہ ہمیشہ سے تیرے رب کے ذمہ قطعی بات ہے جس کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ مترجم۔) کیا کفار کو اس طرح کی فضیلت حاصل ہے جو اللہ نے ہم مسلمانوں کو عطا کر رکھی ہے؟
(محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ)