سوال
کیا دنیا کی قلیل مدت میں کیے گئے گناہوں پر آخرت میں طویل سزا ملنا عدل ہے؟
تشریح
ملحدین کی طرف سے یہ شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ ایک انسان دنیا میں چند سال کی مختصر زندگی میں گناہ کرتا ہے، تو اسے آخرت میں بہت لمبی اور ابدی سزا کیوں دی جاتی ہے؟ یہ سوال عدل الٰہی پر اعتراض کے طور پر اٹھایا جاتا ہے۔
تبصرہ
اس اعتراض کی بنیاد اس مفروضے پر ہے کہ گناہ کی مدت اور سزا کی مدت میں براہِ راست تناسب ہونا چاہیے۔ یعنی جتنا وقت گناہ میں لگا، سزا بھی اتنی ہی مدت کی ہونی چاہیے۔ لیکن یہ مفروضہ نہ صرف غیر منطقی بلکہ عدل کے تصور کے خلاف ہے۔ مثالیں اس کی وضاحت کرتی ہیں:
ایک چور چند لمحوں میں چوری کرتا ہے، مگر اسے سالوں کی سزا دی جاتی ہے۔
رشوت لینے والا چند لمحے میں رشوت لیتا ہے، لیکن اسے بھی لمبے عرصے کے لیے قید کیا جاتا ہے۔
ایک طالب علم اگر چند لمحے میں استاد کو گالی دیتا ہے، تو اسے ہمیشہ کے لیے یونیورسٹی سے نکالا جا سکتا ہے۔
جرم کی نوعیت اور سزا کا تعلق
جرم اور سزا کا تعلق محض وقت کی بنیاد پر نہیں ہوتا، بلکہ اس کے اثرات، مجرم کی نیت، اور جرم کی شدت پر ہوتا ہے۔ ایک قاتل چند لمحوں میں قتل کرتا ہے، مگر اس کی سزا چور کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جرم کی نوعیت اور اس کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے سزا دی جاتی ہے۔
کفر اور آخرت کی سزا
اسی طرح ایک کافر جو دنیا میں اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے، لیکن اپنے رب کا انکار کرتا ہے اور اس کا شکر ادا نہیں کرتا، اس کا جرم صرف وقتی نہیں ہوتا بلکہ اس کے اثرات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کا انکار نہ صرف خود اسے گمراہی میں مبتلا کرتا ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی بغاوت کا سبب بنتا ہے۔ اس کی نیت یہ ہوتی ہے کہ اگر اسے ہمیشہ کی زندگی بھی ملے، تو وہ اسی انکار اور ناشکری کی روش پر قائم رہے گا۔ اس لیے وہ آخرت میں سخت سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
نتیجہ
لہٰذا، آخرت کی طویل سزا کا تعلق دنیا میں گزارے گئے وقت سے نہیں بلکہ انسان کے جرم کی نوعیت اور اس کے اثرات سے ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے مطابق سزا دیتا ہے، اور یہ اس کا عدل ہے۔ البتہ وہ چاہے تو اپنے فضل سے کسی پر رحم بھی کر سکتا ہے۔