طلاق کے اہم شرعی مسائل قرآن و حدیث کی روشنی میں
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

مقدمہ

الحمدللہ الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ والصلوۃ والسلام علی خیر خلقہ محمد والہ واصحابہ وازواجہ واتباعہ واھل بیتہ اجمعین اللھم ارنا الحق حقا وارزاقنا اتباعہ ،وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ رب اشرح لی صدری و یسرلی امری واحلل عقدۃ من لسانی یفقھوا قولی ۔ اما بعد!

نکاح ایک مضبوط رشتہ ہے جس کے ذریعے مرد اور عورت اسلامی قانون کے تحت ایک دوسرے سے منسلک ہوجاتے ہیں۔ یہ رشتہ اللہ تعالیٰ نے الفت، محبت، سکون اور رحمت کا ذریعہ بنایا ہے، تاکہ دونوں ایک دوسرے سے اطمینان حاصل کرسکیں اور خوشگوار زندگی گزار سکیں۔

  • مردوں کو حکم ہے کہ:

    “وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ” (النساء: ۱۹)
    یعنی عورتوں کے ساتھ بھلائی کا سلوک کرو۔

  • عورتوں کو بھی حکم ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری کریں اور یوں دونوں ایک دوسرے کے حقوق کو ملحوظ رکھیں۔

    “وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ” (البقرۃ: ۲۲۸)
    ترجمہ: “جیسے عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں، ویسے ہی عورتوں کے بھی مردوں پر دستور کے موافق حقوق ہیں۔”

حسنِ معاشرت

اسلام کی رو سے خواتین کے ساتھ حسنِ سلوک اور بھلائی کا برتاؤ کرنا لازم ہے۔ اس ضمن میں چند آیات اور احادیث ملاحظہ ہوں:

  1. اللہ تعالیٰ کا ارشاد:

    “وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ” (النساء: ۱۹)
    یعنی عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

  2. ایک اور آیت:

    “فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ” (البقرۃ: ۲۲۹)
    یعنی “اگر رکھو تو اچھی طرح رکھو اور اگر نباہ نہ ہو تو اچھی طرح جدا کردو۔”

  3. حدیثِ نبوی ﷺ:

    “استوصوا بالنساء خیرا…”
    (بخاری ج۲ ص۷۷۹، مسلم ج۱ ص۴۷۵)
    یعنی “عورتوں کے معاملے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو، اس لیے کہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں…”

  4. دوسری روایت:

    “لا یفرک مؤمن مؤمنۃ، ان کرہ فیھا خلقا رضی منھا آخر.”
    (مسلم ج۱ ص۴۷۵)
    یعنی “مومن شوہر مومن بیوی سے بغض نہ رکھے۔ اگر اس کی کوئی خصلت اسے ناپسند ہو تو دوسری خصلت سے وہ خوش ہوجائے گا۔”

  5. اہل و عیال پر خرچ کرنا صدقہ:

    “نفقۃ الرجل علی اہلۃ صدقۃ”
    (ترمذی ج۳، تحفۃ الاحوذی)

  6. گھر والوں پر خرچ کرنے کی فضیلت:

    “افضل الدینار دینار ینفقہ الرجل علی عیالہ”
    (ترمذی)

  7. عورتوں کی تکریم:

    “ان من اکمل المؤمنین ایمانا احسنھم خلقا والطفھم باھلہ”
    (ترمذی)
    یعنی “مومنوں میں سب سے کامل ایمان اس کا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور گھر والوں کے لیے نرم خو اور مہربان ہو۔”

زوجین کے درمیان مصالحت

اگر شوہر اور بیوی میں ناچاقی ہو تو درج ذیل طریقے اختیار کیے جائیں:

اگر قصور عورت کی طرف سے ہو:

  • اسے نصیحت کی جائے۔

  • رہن سہن میں علیحدگی اختیار کی جائے۔

  • اگر ضرورت پڑے تو تنبیہ (مار وغیرہ سے ڈرانا دھمکانہ) کی جائے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

“وَاللاَّتِیْ تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُوہُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ…” (النساء: ۳۴)

اگر ناچاقی دونوں جانب سے ہو:

  • ایک حکم (پنچ) شوہر کی طرف سے اور ایک حکم (پنچ) بیوی کی طرف سے مقرر کیا جائے۔

  • یہ دونوں حکم بیٹھ کر صلح کروانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

    “وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا…” (النساء: ۳۵)

علماء اور ماہرین سے رجوع:

  • اگر پنچایت کا فیصلہ نہ ہوسکے تو معاملہ علماء کے سپرد کیجیے تاکہ وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں کوئی حل پیش کرسکیں۔

شرعی پنچایتیں

ہمارے ملک میں مکمل اسلامی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے تمام معاملات شریعت کے مطابق سرکاری سطح پر انجام نہیں پاتے۔ اس لیے مسلمان صوبائی و علاقائی شرعی پنچایتیں تشکیل دیں، جن میں ماہر علماء شامل ہوں۔

  • یہ پنچایتیں قرآن و حدیث کی روشنی میں فیصلے کریں۔

  • حکومت سے بھی درخواست کی جائے کہ ان پنچایتوں کو تسلیم کرے۔

طلاق نا پسندیدہ ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

“ابغض الحلال الی اللہ الطلاق”
(ابو داؤد مع عون المعبود ج۱ ص۲۲۱)
یعنی “حلال چیزوں میں سب سے مبغوض ترین چیز اللہ کے نزدیک طلاق ہے۔”

طلاق دینے کا شرعی طریقہ

شرعی طور پر طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے:

  1. صرف ایک طلاق دینا: شوہر بیوی سے کہے: “میں نے تجھے طلاق دی” اور بس۔ ایک ہی طلاق پر اکتفا کرے۔ (سورۃ الطلاق آیت نمبر ۱)

  2. حالتِ طہر میں دی جائے: جس پاکی کے دوران ہم بستری نہ کی ہو۔ (بخاری)

  3. دو عادل گواہوں کی موجودگی میں طلاق دی جائے۔ (الطلاق:۲)

  4. عورت کی عدت:

    • تین حیض (حیض آنے والی صورت میں)

    • اگر حیض نہ آتا ہو تو تین قمری مہینے

    • اگر حاملہ ہو تو وضع حمل تک

    اس عدت کے دوران رجوع ممکن ہے۔ رجوع کے لیے صرف کہنا کافی ہے: “میں نے رجوع کیا” اور بہتر ہے کہ دو عادل گواہوں کے سامنے کہا جائے۔

  5. رجوع نہ کرنے کی صورت میں عدت پوری ہوتے ہی رشتہ ختم ہوجائے گا۔ یہ ایک طلاق شمار ہوگی۔ بعد میں بھی اگر دونوں چاہیں تو نئے نکاح کے ساتھ دوبارہ اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ (البقرۃ ۲۳۱، الطلاق، البقرۃ ۲۳۲)

تین طلاق دینے کا شرعی طریقہ

اگر کوئی شخص تین طلاق ہی دینا چاہے تو سنت طریقہ یہ ہے کہ وہ تین طہروں (یعنی تین مہینوں) میں الگ الگ طلاق دے۔

  • حدیث میں ہے:

    “طہر کے دوران، جب ہم بستری نہ کی ہو، ایک طلاق دے۔ پھر دوسرے طہر میں دوسری طلاق اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق…”
    (سنن نسائی ج۲ ص۸۰)

خلع کا بیان

خلع کا مطلب یہ ہے کہ اگر عورت کو اپنے شوہر سے نباہ نہ ہوسکے، اور وہ اس سے نفرت کرتی ہو تو وہ کچھ مال دے کر (مہر سے کم یا زیادہ) اپنا چھٹکارا حاصل کرسکتی ہے۔

  • قرآن پاک میں ارشاد:

    “…فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ…” (البقرۃ: ۲۲۹)

  • حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں خلع:

    “عن ابن عباس… امرأۃ ثابت بن قیس…”
    (بخاری ج۲ ص۷۹۴)
    جس میں عورت نے اپنا باغ واپس کرکے خلع حاصل کیا۔

بلا وجہ خلع کرانے پر وعید

احادیث میں بغیر کسی معقول وجہ کے خلع طلب کرنے پر سخت وعید آئی ہے، مثلاً:

“ایما امراۃ سألت زوجھا الطلاق من غیر باس فحرام علیھا رائحۃ الجنۃ”
(ابو داؤد)
یعنی “جو عورت بغیر کسی تکلیف کے طلاق طلب کرتی ہے، اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔”

عدتِ خلع

خلع کے بعد عورت کو ایک حیض عدت گزارنی ہوگی۔ حدیث میں ہے:

“ان امرأۃ ثابت ابن قیس… فأمرھا ان تعتد بحیضۃ”
(ترمذی، ابو داؤد)

زمانۂ جاہلیت کی طلاق

زمانۂ جاہلیت میں طلاق کی کوئی حد مقرر نہ تھی۔ جب چاہا بے شمار طلاقیں دے دیتے، پھر بھی رجوع ممکن رہتا۔ اسلام نے اسے ختم کرکے ارشاد فرمایا:

“الطلاق مرتان”
یعنی دو مرتبہ طلاق کے بعد تک رجوع کا حق ہے، لیکن تیسری طلاق کے بعد حقِ رجوع ختم۔

اکٹھی تین طلاقوں کی شرعی حیثیت

شریعت میں جس طلاق کو مغلظہ بائنہ کہا گیا ہے، وہ الگ الگ تین اوقات یا تین طہروں میں دی جانے والی طلاق ہے، ایک نشست میں نہیں۔

  • سنن نسائی میں ہے کہ ایک شخص نے ایک ہی وقت میں تین طلاق دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب خبر پہنچی تو آپ خفا ہوئے اور فرمایا:

    “أیلعب بکتاب اللہ وانا بین اظھرکم؟”
    یعنی “اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جارہا ہے حالانکہ میں تم میں موجود ہوں!”

  • فقہی کتابوں میں بھی یہ عمل "بدعی” قرار دیا گیا ہے اور اس شخص کو "عاصی” کہا گیا ہے۔

ایک مجلس کی تین طلاق کا شرعی حکم

اگر ایک ہی مجلس میں مثلاً یہ کہہ دیا جائے “تجھے تین طلاق” یا “میں نے تجھے طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی” تو ان میں شریعتِ محمدی کے مطابق صرف ایک طلاق واقع ہوتی ہے اور شوہر کو عدت کے اندر اندر رجوع کا پورا اختیار رہتا ہے۔

دلائل از قرآن:

  1. آیت میں فرمایا:

    “الطلاق مرتان…” (البقرۃ:۲۲۹)
    اس میں “مرتان” کا مطلب یکے بعد دیگرے دو مرتبہ ہے۔

  2. دوسری آیت:

    “یٰاَیُّھَاالنَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء…” (الطلاق: ۱)

دلائل از احادیث صحیحہ:

حدیث ابن عباسؓ (صحیح مسلم):

“رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں، سیدنا ابوبکر کے زمانے میں اور سیدنا عمر کے ابتدائی دو سالوں تک ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی شمار ہوتی تھی…”

حدیث رکانہؓ:

“رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو ایک ہی شمار ہوگی۔ اگر چاہو تو رجوع کرلو۔”
(احمد، ابو یعلی)

حدیث محمود بن لبید:

“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں، تو آپ غضب ناک ہوگئے اور فرمایا: کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جارہا ہے؟…”
(نسائی ج۲ ص۸۹)

ان احادیث سے ظاہر ہے کہ زمنِ نبوی، عہدِ صدیقی اور شروع عہد فاروقی تک یہی حکم تھا کہ یکجائی تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی۔ بعد میں عمرؓ نے لوگوں کو تنبیہ اور سزا کے طور پر (بطورِ تعزیری حکم) انہیں نافذ فرمادیا۔

عورت صرف شرعی طریقے پر حلال ہوتی ہے

اگر کسی شخص نے تین طلاقیں (شرعی طریقے پر، یعنی الگ الگ) دے ڈالیں تو وہ عورت اس پر حرام ہوجاتی ہے، جب تک وہ کسی دوسرے شخص سے باقاعدہ نکاح نہ کرے۔ اس دوسرے شوہر سے ہم بستری بھی ہو، اور پھر اگر دوسرے شوہر نے اپنی رضامندی سے طلاق دے دی یا فوت ہوگیا تو عدت پوری ہونے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح ہوسکتا ہے۔

مروجہ حلالہ کی حرمت و مذمت پر فرمانِ رسول ﷺ

مروجہ حلالہ (جس میں ارادۃً، عارضی نکاح کرکے چند دن بعد طلاق) حرام ہے۔ احادیث میں اس کی مذمت ان الفاظ میں آئی ہے:

  1. “لعن رسول اللہ المحلل والمحلل لہ”

    (ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، احمد وغیرہ)

  2. “الا اخبرکم بالتیس المستعار…؟ ھو المحلل…”
    (ابن ماجہ)
    یعنی حلالہ کرنے والا بھاڑے کے سانڈ کی طرح ہے۔

سیدنا عمر ؓ اور دیگر صحابہؓ نے ایسے نکاح کو زنا قرار دیا ہے۔

عدت کا بیان

◈ غیر مدخولہ عورت

جس عورت سے نکاح ہوا مگر صحبت نہ ہوئی، اس کی کوئی عدت نہیں۔ طلاق ہوتے ہی وہ شخص ثانی کے لیے نکاح کے قابل ہوجاتی ہے۔

“یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوہُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّونَہَا” (الاحزاب:۴۹)

◈ مدخولہ عورت

جس سے صحبت ہوچکی ہو:

  • طلاق کے بعد عورت تین حیض عدت میں گزارے گی۔ (البقرۃ:۲۲۸)

  • عدت گزرنے سے پہلے رجوع کا حق ہے۔

  • اگر رجوع نہ کیا تو عدت کے بعد عورت آزاد ہے، مگر یہ صرف ایک طلاق شمار ہوگی۔ دوبارہ نکاح باہمی رضامندی سے کیا جاسکتا ہے۔

◈ عورتیں جنہیں حیض نہ آتا ہو / حاملہ عورت

  • جنہیں بڑھاپے، بیماری یا کم سنی کے سبب حیض نہ آتا ہو، ان کی عدت تین قمری مہینے ہے۔

  • حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔
    (سورۃ الطلاق: ۴)

◈ بیوہ عورت

جس کا خاوند فوت ہوجائے، اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔
(البقرۃ:۲۳۴)

مطلقہ کی اولاد کی پرورش

❀ عدت کے دوران خرچہ

  • اگر طلاق رجعی ہے تو عدت کے اندر نان نفقہ اور رہائش کی ذمہ داری شوہر پر ہے۔

  • اگر طلاق بائن یا مغلظہ ہے اور عورت حاملہ ہے تو وضع حمل تک اخراجات شوہر پر ہیں۔
    (البقرۃ:۲۳۳، الطلاق:۶)

❀ بچوں کی پرورش باپ کی ذمے داری

  • باپ پر لازم ہے کہ بچوں کے تمام اخراجات اٹھائے۔

    “وعلی المولود لہ رزقھن وکسوۃھن…” (البقرۃ:۲۳۳)

❀ حضانت کی حقدار کون؟

  • بچے کی پرورش کی زیادہ حقدار ماں ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ نکاح نہ کرے۔ (ابو داؤد)

  • بچے سمجھدار ہوجائیں تو مرضی کے مطابق ماں یا باپ کے پاس جاسکتے ہیں۔

❀ فوت ہونے کی صورت میں

  • اگر باپ فوت ہوجائے تو وارثین کے ذمے بچوں کا خرچہ ہوگا۔

وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1