صلاۃ الخوف (خوف کے وقت کی نماز) کا طریقہ
تحریر: عمران ایوب لاہوری

صلاۃ الخوف (خوف کے وقت کی نماز) کا طریقہ

خوف کی حالت میں پڑھی جانے والی نماز کو صلاة خوف کہتے ہیں۔
یعنی لشکرِ اسلام کفار کے لشکر کے بالمقابل ہو لیکن فریقین میں باہم مڈبھیڑ شروع نہ ہوئی ہو اور اگر دونوں لشکر گھتم گتھا ہو کر لڑائی شروع کر چکے ہوں تو پھر ہرممکن صورت میں نماز درست ہے جیسا کہ آئندہ اس کا بیان آئے گا۔
مشروعیت: ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَإِذَا كُنتَ فِيْهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ ……. الخ
”جب تم ان میں ہو اور ان کے لیے نماز کھڑی کرو تو چاہیے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لیے کھڑی ہو پھر جب یہ سجدہ کر چکیں تو ہٹ کر تمہارے پیچھے جائیں اور وہ دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی وہ آ جائے اور تیرے ساتھ نماز ادا کرے اور اپنا بچاؤ اور اپنے ہتھیار لیے رہے۔“
نماز خوف کی مشروعیت پر صحابہ کا اجماع ہے۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 1458/2 ، تحفة الأحوذى: 178/3]
(جمہور) بیشتر علماء کا بھی یہی موقف ہے کہ نماز خوف آج بھی اسی طرح مشروع ہے جیسے (عہد نبوی ) میں تھی ۔
(ابو یوسفؒ) نماز خوف صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی ۔
(راجع) جمہور کا موقف راجح ہے۔
[تفصيل كے ليے ديكهيے: فتح الباري: 100/3 ، شرح مسلم للنووي: 391/3 ، نيل الأوطار: 623/2 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 1458/2]
علماء نے حضر میں نماز خوف پڑھنے میں اختلاف کیا ہے۔
(جمہور ، ابو حنیفہؒ ، احمدؒ ، شافعیؒ) سفر و حضر دونوں میں نماز خوف پڑھنا جائز ہے۔
(مالکؒ) نماز خوف کے لیے سفر شرط ہے۔
(راجع) پہلا موقف راجح ہے۔
[نيل الأوطار: 624/2]
نمازِ خوف کے طریقوں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ ابن قصار مالکیؒ نے دس ، امام نوویؒ نے سولہ ، امام ابن قیمؒ نے چھ (اصلی طریقے ) بیان کیے ہیں۔ حافظ ابن حجرؒ نے امام ابن قیمؒ کی بات کو قابل اعتماد کہا ہے۔ اس کے علاوہ بعض نے سترہ ، اٹھارہ اور ان سے کم و بیش طریقے بھی بیان کیے ہیں۔
[نيل الأوطار: 622/2 – 623 ، فتح البارى: 102/3 ، شرح مسلم للنووى: 390/3 ، الروضة الندية: 368/1]
صحیح اور ثابت طریقوں میں سے چند حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر گروہ کو دو دو رکعتیں پڑھائیں اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعتیں ہوئی اور لوگوں کی دو ۔“
[بخاري تعليقا: 4136 ، كتاب المغازى: باب غزوه ذات الرقاع ، مسلم: 312 ، نسائي: 178/3 ، دارقطني: 61/2 ، الروضة الندية: 371/1]
➋ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر گروہ کو ایک ایک رکعت پڑھائی ۔“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکتیں ہوئیں اور لوگوں کی ایک ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 1109 ، نسائي: 1512 ، كتاب الصلاة: باب من قال يصلى بكل طائفة ركعة ولا يقضون ، أحمد: 385/5 ، أبو داود: 1246 ، بيهقي: 261/3 ، شيخ محمد صجي حلاق نے اسے صحيح كها هے۔ التعليق على سبل السلام: 211/3 ، التعليق على الروضة الندية: 368/1]
➌ حضرت صالح بن خوات رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی سے بیان کیا ہے کہ ”ایک گروہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صف بندی کی اور ایک دوسرا گروہ دشمن کے مقابلے کے لیے اس کے رو برو صف بند ہو گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صف باندھ کر کھڑے تھے ایک رکعت پڑھائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے کھڑے رہے۔ انہوں نے اپنے طور پر باقی نماز ادا کر لی اور چلے گئے ۔ جا کر دشمن کے سامنے صف بند ہو گئے۔ پھر دوسرا گروہ آیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باقی اپنی ایک رکعت پڑھائی اور بیٹھے رہے۔ انہوں نے اس دوران اپنے طور پر نماز مکمل کر لی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ سلام پھیر دیا۔“
[بخاري: 4129 ، كتاب المغازى: باب غزوة ذات الرقاع ، مسلم: 842 ، موطا: 183/1 ، أحمد: 448/3 ، أبو داود: 1238 ، نسائي: 171/3 ، دار قطني: 60/2 ، بيهقى: 253/3]
➍ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں ہے کہ ”ایک جماعت نماز ادا کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور ایک جماعت دشمن کے سامنے صفیں باندھ کر کھڑی ہو گئی ۔ جو جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک تھی اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کیے اور اس گروہ کی جگہ واپس چلی گئی جس نے ابھی تک نماز نہیں پڑھی تھی ۔ اس جماعت کے افراد آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی دو سجدوں کے ساتھ ایک رکعت پڑھائی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا مگر دونوں گروہوں نے اٹھ کر الگ الگ اپنی رکعت پوری کی ۔ “
[بخاري: 942 ، كتاب الجمعة: باب وقول الله تعالى وإذا ضربتم فى الأرض ، مسلم: 839 ، أحمد: 100/2 ، نسائي: 173/3 ، دار قطني: 59/2]
➎ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ایک اور طریقہ بھی منقول ہے کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں گروہوں کو اکٹھی نماز پڑھائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی تو انہوں نے بھی تکبیر کہی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا تو انہوں نے بھی رکوع کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا تو انہوں نے بھی سر اٹھایا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو اس صنف نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھی اور دوسری صف دشمن کے سامنے کھڑی رہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی صف نے جب سجدے مکمل کیے تو دوسری صف نے سجدے کیے ، پھر پہلی صف پیچھے ہٹ گئی اور دوسری صف آگے آ گئی۔ انہوں نے بھی ویسے ہی کیا جیسا کہ پہلی صف والوں نے کیا تھا پھر آخر میں دونوں صفوں نے اکٹھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سلام پھیر دیا۔“
[مسلم: 840 ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها: باب صلاة الخوف ، أحمد: 319/3 ، نسائي: 175/3 ، بيهقي: 257/3 ، ابن ماجة: 1260]
➏ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ ”ایک گروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کھڑا ہو گیا ، ان کی کمریں قبلے کی جانب تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی تو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور جو دشمن کے بالمقابل تھے سب نے اکٹھے تکبیر کہی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود لوگوں نے بھی رکوع کیا اور اسی طرح سجدہ بھی کیا لیکن دریں اثناء دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کھڑا رہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی صف والے بھی کھڑے ہوئے اور دشمن کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے جبکہ وہ گروہ جو پہلے دشمن کے مقابلے میں تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آ گیا اور آ کر رکوع اور سجدے کیے۔ اس دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہی رہے پھر وہ کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا اور انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکوع کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کیا پھر وہ گروہ جو دشمن کے مقابلے میں تھا آیا اور انہوں نے رکوع اور سجدے کیے لیکن اس دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے قریبی صف والے بیٹھے ہی رہے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو ان سب نے اکٹھے سلام پھیر دیا۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی دو رکھتیں ہوئیں اور ہر گروہ کی بھی دو رکعتیں ہو گئیں۔
[صحيح: صحيح أبو داود: 1105 ، كتاب الصلاة: باب من قال يكبرون جميعا ، أحمد: 320/2 ، أبو داود: 1240]

یہ سب طریقے کفایت کرنے والے ہیں

کیونکہ یہ تمام طریقے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور ہر ایسا کام جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہو وہ جائز ہوتا ہے اس لیے حسبِ مصلحت و ضرورت ان میں سے کسی کو بھی اختیار کر لیا جائے تو یقیناََ کافی ہو گا۔
(احمدؒ) ان طریقوں میں سے کسی کو بھی انسان اختیار کرے تو یہ جائز ہے۔
[نيل الأوطار: 623/2]
(نوویؒ) یہ تمام طریقے جائز ہیں ۔
[شرح مسلم: 390/3]
(خطابیؒ ) ہر وہ طریقہ جو نماز کے لیے زیادہ احتیاط والا اور پہرے کے لیے زیادہ سود مند ہو اختیار کیا جا سکتا ہے۔
[معالم السنن: 269/1]
(شوکانیؒ ) نمازی ان میں سے کوئی بھی طریقہ اپنا لے کفایت کر جائے گا۔
[السيل الجرار: 313/1]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[تحفة الأحوذي: 179/3]
(صدیق حسن خانؒ) اس کو ترجیح دیتے ہیں ۔
[الروضة الندية: 370/1]
اگر یہ بات کہی جائے کہ مختلف طریقوں کے ساتھ نماز پڑھنے میں بلآخر حکمت کیا ہے تو دو باتیں ہی سامنے آتی ہیں:
➊ واقعات و حوادث اور خوف کی کمی بیشی میں احوال و صورتحال مختلف ہونے کے پیش نظر نماز کے بعض طریقے ایک دوسرے سے زیادہ نفع رساں تھے اس لیے انہیں اختیار کیا گیا۔
➋ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز مختلف طریقوں سے اس لیے پڑھی تا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ تمام طریقے شرعی ہیں ۔
[الروضة الندية: 371/1]

اور جب خوف سخت ہو جائے اور گھمسان کی لڑائی شروع ہو جائے تو پیدل یا سوار (ہر حالت میں ) نماز پڑھ لی جائے خواہ انسان قبلہ رخ نہ ہو اور خواہ اشارے کے ساتھ ہی پڑھ لے

➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أو رُكْبَانًا
[البقرة: 239]
”اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل یا سوار ہو کر (جیسے بھی ممکن ہو نماز پڑھ لو ) ۔“
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نماز خوف کا طریقہ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ :
فإن كان خوف هو أشد من ذلك صلوا رجالا قياما على أقدامهم أور كبانا مستقبل القبلة أو غير مستقبليها
”اگر خوف اس سے زیادہ سخت ہو تو پیدل اپنے قدموں پر کھڑے کھڑے ، یا سوار (اسی حالت میں) قبلہ رخ ہو کر یا قبلہ کے علاوہ کسی اور سمت میں (جیسے بھی ممکن ہو ) نماز پڑھ لو۔“
امام مالکؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت نافعؒ نے کہا ”میں گمان کرتا ہوں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہی بیان کی ہے۔“
[بخاري: 4535 ، كتاب التفسير: باب وقوموا لله قانتين]
➌ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فإن كان خوف أشد من ذلك فرجالا أو ركبانا
”اگر خوف اس سے بھی زیادہ سخت ہو تو پیدل یا سوار (جیسے بھی ممکن ہو نماز پڑھ لو ) ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1040 ، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها: باب ما جاء فى صلاة الخوف ، إرواء الغليل: 588 ، ابن ماجة: 1258]
➍ حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خالد بن سفیان ھذلی کو قتل کرنے کے لیے روانہ کیا۔ جب میں نے اسے دیکھا تو نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا۔ مجھے خدشہ لاحق ہوا کہ میرے درمیان اور اس کے درمیان کوئی ایسی چیز نہ حائل ہو جائے جو نماز کو لیٹ کر دے لٰہذا میں نے چلنا شروع کیا اور اشاروں سے ہی نماز پڑھنے لگا۔ جب میں اس کے قریب پہنچا تو اس نے کہا تو کون ہے…. الخ ۔
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 232 ، كتاب الصلاة: باب صلاة الطالب ، تمام المنة: ص/ 315 ، إرواء الغليل: 589 ، أحمد: 496/3 ، أبو داود: 1249 ، ابن خزيمة: 982 ، حافظ ابن حجرؒ نے اس كي سند كو حسن كها هے۔ فتح الباري: 110/3]
اگرچہ یہ حدیث ضعیف ہے لیکن اس میں محل شاہد ”بوقت خوف اشاروں کے ساتھ نماز پڑھنا“ گذشتہ صحیح احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ پیدل یا سواری کی حالت میں انسان یقیناً اشاروں سے ہی نماز پڑھے گا۔
ایک اشکال اور اس کا جواب ۔
اگر کوئی کہے کہ اس رخصت کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے اس کیفیت کے برخلاف جنگ احزاب کے دن چاروں نمازیں رات کو اکٹھی کیوں پڑھیں؟
[مذكوره حديث كے ليے ديكهيے: بخاري: 596 ، 598 ، 4112 ، مسلم: 631 ، ترمذي: 180 ، نسائي: 84/3 ، شرح السنة: 396 ، موطا: 183/1]
تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ یہ معاملہ (یعنی جنگِ احزاب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا بعد میں نمازیں جمع کرنا) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے نازل ہونے سے پہلا کا ہے: فرجالا اور كبانا ”پیدل یا سوار ہی نماز پڑھ لو۔“ اور اُس حدیث میں یہ لفظ ہیں: وذلك قبل أن ينزل فى القتال ما نزل ”یہ قتال کے بارے میں جو کچھ نازل ہو چکا ہے، اس کے نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔“
[صحيح: صحيح نسائي: 638 ، كتاب الأذان: باب الأذان للفائت من الصلوات ، نسائي: 661 ، أحمد: 25/3 ، دارمي: 358/1 ، شيخ محمد صجي حلاق فرماتے هيں كه اس كي سند مسلم كي شرط پر صحيح هے۔ التعليق على السيل الجرار: 630/1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1