صف میں شامل ہونے سے پہلے رکوع کرنا
حدیث کا واقعہ:
سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک ہوئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کی حالت میں تھے۔
سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے صف میں شامل ہونے سے پہلے ہی رکوع کر لیا اور رکوع کی حالت میں چلتے ہوئے صف میں داخل ہوئے۔
جب نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’الله تیرا شوق زیادہ کرے آئندہ ایسا نہ کرنا۔‘‘
(بخاری، الاذان باب اذا رکع دون الصف، ۳۸۷)
بعض اہل علم کا استدلال:
بعض علماء اس حدیث سے یہ نکتہ اخذ کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص رکوع کی حالت میں امام کے ساتھ شامل ہو جائے تو اس کی رکعت شمار ہو جائے گی۔
ان کا استدلال یہ ہے کہ سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے وہ رکعت دوبارہ ادا نہیں کی۔
نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کو اس رکعت کے اعادے کا حکم نہیں دیا۔
اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ قیام اور سورۃ الفاتحہ دونوں لازمی نہیں ہیں۔
اس استدلال پر نظرثانی:
یہ موقف کئی وجوہات کی بنا پر درست معلوم نہیں ہوتا:
◈ حدیث کا سکوت:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کو رکعت لوٹانے کا حکم دیا یا نہیں؟
یا انہوں نے خود سے رکعت دوہرائی یا نہیں؟
اس بارے میں حدیث خاموش ہے۔
لہٰذا اس حدیث کی بنیاد پر کوئی یقینی حکم اخذ کرنا درست نہیں، کیونکہ یہ محض ظن و گمان پر مبنی ہوگا۔
◈ صریح دلائل کی موجودگی:
دیگر احادیث میں واضح طور پر قیام اور سورۃ الفاتحہ کو ہر مقتدی پر لازم قرار دیا گیا ہے، بشرطیکہ وہ استطاعت رکھتا ہو۔
◈ قاعدہ اصولی:
جب احتمال (گمان) اور صراحت (واضح دلیل) ایک ساتھ آئیں، تو اصول یہ ہے کہ:
➤ احتمال کو ترک کر دیا جائے
➤ اور صراحت پر عمل کیا جائے
◈ اصل نکتہ:
اس حدیث کا اصل محور یہ ہے کہ سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے صف میں شامل ہونے سے پہلے رکوع کیا اور اسی حالت میں صف میں داخل ہوئے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی عمل سے منع فرمایا:
’’آئندہ ایسا نہ کرنا.‘‘
یعنی، جماعت میں شامل ہونے کا شوق اپنی جگہ قابل تعریف ہے، لیکن اس شوق کو پورا کرنے کا یہ طریقہ مناسب نہیں تھا۔
◈ نتیجہ:
اس حدیث کو اس کے اصلی سیاق و سباق سے ہٹا کر یہ ثابت کرنا کہ:
➤ قیام اور فاتحہ کے بغیر رکعت جائز ہے،
درست معلوم نہیں ہوتا۔
وﷲ اعلم