صف بندی کے احکام: امام کے برابر کھڑا ہونے کا شرعی حکم
یہ اقتباس شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری کی کتاب صف بندی کے احکام و مسائل سے لیا گیا ہے۔

صف مکمل ہو، تو امام کے ساتھ کھڑا ہونا:

صف مکمل ہونے کی صورت میں مقتدی کا امام کے ساتھ مل کر کھڑا ہونا درست نہیں، سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله عنه امامت کروا رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بائیں جانب آکر بیٹھ گئے :
فلما رآه أبو بكر استأخر.

’’سید نا ابو بکر رضی الله عنه نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹ گئے۔‘‘
🌿(صحيح البخاري : 683 ، صحیح مسلم : 418)

معلوم ہوا کہ مقتدی امام کے ساتھ صف مکمل ہونے کی صورت میں کھڑا نہیں ہوسکتا، تب ہی تو سیدنا ابو بکر رضی الله عنه پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا۔ عذر کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی جگہ کھڑے رہنے کا اشارہ فرمایا۔
🌸علامہ عینی حنفی (۸۵۵ھ) لکھتے ہیں :
لو قام واحد بجنب الإمام وخلفه صف يكره بالإجماع .

’’اگر کوئی مقتدی امام کے ساتھ کھڑا ہو، جبکہ اس کے پیچھے صف بھی موجود ہے، تو یہ بالا جماع (امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام شیبانی کے نزدیک) مکروہ ہے۔‘‘
🌿(البناية شرح الهداية : 342/2)

صف مکمل ہونے کی صورت میں امام کے ساتھ کھڑے ہونے کا جواز جس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، وہ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو:
🌸سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی الله عنه سے منسوب ہے :
قال رجل للنبي صلى الله عليه وسلم : علمني عملا أدخل الجنة ، قال : «كن مؤذنا، أو إماما ، أو بإزاء الإمام» .

’’ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول! ایسا عمل بتائیے ، جس سے میں جنت میں داخل ہو جاؤں، فرمایا: موذن بنیں، امام بہنیں یا امام کے برابر کھڑے ہو جائیں۔‘‘

🌿(التاريخ الكبير للبخاري : 37/1 ، المُعجم الأوسط للطبراني : 7737، الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 284/7 ، الضعفاء الكبير للعقيلي : 22/4)

سند ’’ضعیف‘‘ ہے، محمد بن اسماعیل ضمی ’’منکر الحدیث‘‘ ہے۔ امام بخاری (التاريخ الكبير : 37/1) ، امام ابن عدی (الکامل فی ضعفاء الرجال : 284/7) اور امام ابن الجارود رحمتہ اللہ (لسان . المیزان لابن حجر: 467/6 ) نے ’’منکر الحدیث‘‘ کہا ہے۔

امام ابو حاتم رازی رحمتہ اللہ نے ’’مجہول‘‘ کہا ہے۔
🌿(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 189/7)

سوائے امام ابن حبان رحمتہ اللہ (الثقات : 49/9) کے کسی نے توثیق نہیں کی۔
مصنف ابن ابو شیبہ (537/2) میں امام حسن بصری رحمتہ اللہ کا قول یونس بن عبید کے عنعنہ کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ ہے۔
ابراہیم نخعی رحمتہ اللہ کے قول کی سند میں ہشیم بن بشیر ’’مدلس‘‘ ہیں، انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے