دوران حج صفا مروہ کے درمیان سعی کا وجوب

 

تحریر: عمران ایوب لاہوری

مسنون دعائیں پڑھتا ہوا صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگائے گا۔
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ …. بِهِمَا [البقرة: 158]
”صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں اس لیے بیت اللہ کا حج وعمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں ۔“
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے طواف سے فارغ ہوئے تو صفا (کی پہاڑی) کے پاس آئے اور اس پر چڑھ گئے حتی کہ بیت اللہ کی طرف دیکھا اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے پھر اللہ کی حمد بیان کی اور جو بھی دعا کرنا چاہتے تھے دعا کرنے لگے۔
[مسلم: 1780 ، كتاب الجهاد والسير: باب فتح مكة ، ابو داود: 1872 ، أحمد: 538/2 ، ابن خزيمة: 2758]
➌ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب صفا پہاڑی کے نزدیک پہنچے تو یہ آیت پڑھی:
إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ
(پھر فرمایا ) میں (سعی کو ) اس مقام سے شروع کرتا ہوں جہاں سے اللہ تعالیٰ نے اسے شروع کیا ہے پھر صفا پر چڑھے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کو دیکھا پھر قبلہ رخ ہوئے اور اللہ کی وحدانیت اور کبریائی بیان کی اور کہا:
لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْء قَدِيرٌ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الأحْزَابَ وَحْدَهُ
پھر اس کے درمیان اسی طرح تین مرتبہ دعا پڑھی ۔ پھر صفا سے اترے اور مروہ کی طرف گئے حتی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں پاؤں وادی کے نشیب میں پڑے تو دوڑے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نشیب سے اوپر چڑھے اور مروہ کی طرف چلے۔ مروہ پر بھی وہی کچھ کیا جو صفا پر کیا تھا (بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتواں چکر مروہ پر آ کر ختم کیا ) ۔
[أحمد: 320/3 ، مسلم: 1218 ، كتاب الحج: باب حجة النبى ، نسائى: 236/5 ، ابو داود: 1905]
سعی کے حکم میں علماء نے اختلاف کیا ہے۔
(جمہور) سعی فرض ہے۔
(شافعیؒ) یہ رکن ہے اس کے بغیر حج نہیں ہو گا۔
(ابو حنیفہؒ) سعی واجب ہے اور جو اسے چھوڑے گا اس پر بطور فدیہ ایک جانور دینا لازم ہے۔
[الأم: 323/2 ، الحاوى: 156/4 ، المغنى: 238/5 ، المبسوط: 50/4 ، الإختيار: 148/1 ، الحجة على أهل المدينة: 304/2 ، الكافي: ص/ 135 ، كشاف القناع: 487/2 ، نيل الأوطار: 402/3 ، الروضة الندية: 628/1]
(صدیق حسن خانؒ) سعی واجب ہے۔
ان حضرات کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حدیث نبوی ہے کہ ”اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کا حج اور عمرہ پورا نہیں کیا جس نے صفا مروہ کے چکر نہیں لگائے ۔“
[مسلم: 1277 ، كتاب الحج: باب بيان أن السعي بين الصفا والمروة …..]
➋ حبیبہ بنت ابی تجراہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا مروہ کی سعی کرتے ہوئے فرما رہے تھے:
سعوا فإن الله كتب عليكم السعي
”سعی کرو کیونکہ بے شک اللہ تعالیٰ نے سعی کو تم پر فرض کر دیا ہے ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 1072 ، 268/4 ، أحمد: 421/6 ، ترتيب المسند للشافعي: 907 ، حاكم: 70/4 ، بيهقي: 98/5]
اگر حجِ تمتع کر رہا ہو تو سعی کے بعد احرام اتار دے گا حتی کہ جب ترويہ كا دن (یعنی 8 ذوالحجہ ) ہو گا تو حج کے لیے احرام باندھے گا اور منٰی کی طرف چلا جائے گا، اور پھر ظہر ، عصر ، مغرب ، عشاء اور فجر کی نمازیں وہیں ادا کرے گا۔
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں کا حج بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ :
فأما من أهل بالعمرة نأحلوا حين طافوا بالبيت وبالصفا والمروة
”پس جنہوں نے (صرف) عمرے کا احرام باندھا تھا وہ بیت اللہ اور صفا مروہ کے چکر لگا کر حلال ہو گئے ۔“
[مؤطا: 335/1 ، بخاري: 1562 ، مسلم: 1211 ، ابو داود: 1779 ، نسائي: 145/5]
➋ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے صرف مفرد حج کا احرام باندھا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ (عمرے کا احرام باندھ لو اور ) بیت اللہ کے طواف اور صفا مروہ کی سعی کے بعد احرام کھول ڈالو اور بال ترش والو۔ اس طرح اپنے حجِ مفرد کو جس کی تم نے پہلے نیت کی تھی اب تمتع بنا لو۔
[بخارى: 1568 ، كتاب الحج: باب التمتع والإقران والإفراد ، مسلم: 1216 ، أحمد: 217/3 ، نسائي: 202/5 ، حميدي: 1293 ، ابن حبان: 3791 ، بيهقي: 41/5]
➌ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ہم نے احرام اتار دیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ جب ہم منٰی کی طرف جائیں تو احرام باندھ لیں تو ہم نے وادی ابطح سے احرام باندھا۔
[مسلم: 1214 ، كتاب الحج: باب بيان وجوب الإحرام ، أحمد: 318/3 ، ابن خزيمة: 2794]
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ”جب ترویہ کا دن (یعنی 8 ذوالحجہ ) ہوا تو لوگ منٰی کی طرف متوجہ ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی سوار تھے:
فصلي بها الظهر ، والعصر ، والمغرب والعشاء والفجر
”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں ظہر ، عصر ، مغرب ، عشا اور فجر کی نماز پڑھائی ۔“
[مسلم: 1218 ، كتاب الحج: باب حجة النبى ، ابو داود: 1905]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1