صرف اس حق پر عمل کا دعویٰ جو پاس ہے
تالیف: الشیخ السلام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ، ترجمہ: مولانا مختار احمد ندوی حفظ اللہ

اہل جاہلیت کا دعویٰ تھا کہ ہم صرف اس حق پر عمل کریں گے جو ہمارے پاس باپ دادا کے وقت سے موجود ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنبِيَاءَ اللَّـهِ مِن قَبْلُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ [2-البقرة:91]
”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو (کتاب) خدا نے (اب) نازل فرمائی ہے، اس کو مانو۔ تو کہتے ہیں کہ جو کتاب ہم پر (پہلے) نازل ہو چکی ہے، ہم تو اسی کو مانتے ہیں۔ (یعنی) یہ اس کے سوا کسی اور (کتاب) کو نہیں مانتے، حالانکہ وہ (سراسر) سچی ہے اور جو ان کی (آسمانی) کتاب ہے، اس کی بھی تصدیق کرتی ہے۔ (ان سے) کہہ دو کہ اگر تم صاحبِ ایمان ہوتے تو الله کے پیغمبروں کو پہلے ہی کیوں قتل کیا کرتے۔ “
لفظ عَلَيْنَا ”ہم پر“ سے مراد یا تو بنی اسرائیل کے انبیاء ہیں، اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ چونکہ قرآن بنی اسرائیل کے کسی نبی پر نہیں اترا اس لئے ہم اس پر ایمان نہیں لائیں گے، ظاہر ہے کہ یہ ان کے حسد و ظلم کی دلیل ہے۔ یا پھر ”ہم پر“ سے مراد خود ان کی ذات ہے یعنی خود انہیں جن احکام کا پابند کیا جائے اسی پر وہ عمل کریں گے، لیکن قرآن کے اس جواب کے سامنے انہیں چپ ہونا پڑا کہ جو احکام خود تمہارے بنی اسرائیلی انبیاء پر اترے ان کو بھی تم نہیں مانے بلکہ الٹے خود ان انبیاء کو قتل کر ڈالا، اس پر ندامت کے سوا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے