صدقہ فطر سے متعلق صحیح احادیث
تحریر: محمد ارشد کمال، ماہنامہ نور الحدیث

صدقہ فطر اور اس کے مسائل

صدقہ فطر کو :

زكاة فطر، زكاة صوم، زكاة رمضان، صدقہ رمضان اور صدقہ صوم بھی کہا جاتا ہے ہمارے ہاں لوگ اسے فطرانہ بولتے ہیں۔ صدقہ فطر سے مراد وہ صدقہ ہے جو ماہ رمضان کے اختتام پر روزوں کے مکمل ہونے کی خوشی اور ان میں ہو جانے والی کمی کوتاہیوں کے پیش نظر دیا جاتا ہے تا کہ یہ گناہوں کا کفارہ بن جائے اور محتاجوں کے لیے عید کی خوشیوں میں شمولیت کا ذریعہ بن جائے۔ چنانچہ سیدنا ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا تا کہ روزے کے لیے لغواور بے ہودہ اقوال و افعال سے پاکیزگی ہو جائے اور مسکینوں کو کھانا مل جائے۔ لہٰذا جس نے اسے نماز عید سے پہلے پہلے ادا کر دیا تو یہ ایسی زکوٰۃ ہے جو قبول کر لی گئی اور جس نے اسے نماز عید کے بعد ادا کیا تو یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے۔

(سنن ابی داود : 1609، وسنده حسن)

صدقہ فطر کے مسائل:

➊ بیشتر احادیث میں صدقہ فطر کے لیے ”فَرَضَ“ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ یہ فرض ہے۔ امام ابن المنذرؒ فرماتے ہیں کہ اس کی فرضیت پر اجماع ہے۔

(کتاب الاجماع : 35)

➋ صدقہ فطر ہر مسلمان امیر غریب، مرد عورت، چھوٹے بڑے، ہر ایک پر فرض ہے۔ چنانچہ سیدنا ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر مسلمان مرد، عورت، چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام پر زکاۃ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو سے فرض کیا ہے اور نماز عید کے لیے جانے سے پہلے اس کی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔

(صحیح البخاری : 1503)

➌ صدقہ فطر جنس خوراک میں سے ایک صاع ادا کیا جائے گا۔ یعنی جو چیز سال کے بیشتر حصے میں بطور خوراک استعمال ہوتی ہو اس سے صدقہ فطر ادا کیا جائے اور اس کی مقدار ایک صاع ہے۔ سیدنا ابوسعید خدریؓ کہتے ہیں:

ہم لوگ نبی ﷺ کے دور میں اناج یا کھجور یا جو یا منقی کا ایک صاع بطور صدقہ فطر دیا کرتے تھے جب سیدنا معاویہؓ کا دور آیا اور (ملک شام سے) گندم آئی تو انھوں نے کہا:

میرے خیال کے مطابق (شام سے آنے والی) گندم کا ایک مد دیگر اجناس کے دو مد کے برابر ہے۔

(ایضاً : 1908)

سید نا ابوسعیدؓ فرماتے ہیں:

میں تو جب تک زندہ ہوں ہمیشہ اسی طرح (پورا صاع) ادا کرتا رہوں گا جس طرح رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں کیا کرتا تھا۔

(صحیح مسلم : 985۔ سنن ابی داود : 1616)

➍ صاع ایک پیمانہ ہے جیسے ہمارے ہاں ٹو پہ ہوتا ہے۔ اس (صاع حجازی) کے وزن کے متعلق کچھ اختلاف ہے۔ عام طور پر ہمارے سامنے دو موقف ہیں:

❀ 2 سیر 10 چھٹانک 3 تولہ اور 4 ماشہ یعنی پونے تین سیر، رائج الوقت تقریباً اڑھائی کلو۔

❀ 2 سیر 4 چھٹانک رائج الوقت تقریباً 2 کلو اور 100 گرام۔ راقم کے نزدیک پہلا موقف احوط ہے اور دوسرا جواز کا ہے۔ یعنی 2 کلو اور 100 گرام جائز ہے لیکن زیادہ مناسب اڑھائی کلو ہے۔

صدقہ فطر کی ادائیگی کا آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ معتدل ہاتھوں والا آدمی دونوں ہاتھوں کی لپیں ( بک ) چار مرتبہ بھر کر دے تو یہ اس کی طرف سے ادا ہو جائے گا۔

➎ افضل یہی ہے کہ صدقہ فطر جنس خوراک ہی سے ادا کیا جائے کیونکہ احادیث میں مختلف اجناس ہی کی تعیین فرمائی گئی ہے اور صحابہ کرامؓ کا عمل بھی اسی پر تھا، کہیں بھی قیمت اور کرنے کا ذکر نہیں ، لہٰذا جنس خوراک کی ادائیگی ہی زیادہ بہتر اور افضل ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ صدقہ فطر روزمرہ کی خوراک سے ادا کیا جائے۔

(مجموع الفتاوى : 35/25، 36)

تاہم اگر کوئی خوراک کے بدلے میں قیمت ادا کر دے تو یہ بھی جائز ہے کیونکہ صدقہ فطر کا جو مقصد بیان ہوا ہے وہ مساکین کو کھلانا ہے اور یہ چیز قیمت سے بھی ممکن ہے اور پھر یہ کہ کسی حدیث سے اس کی ممانعت بھی ثابت نہیں۔ خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے بصرہ میں عدی کی طرف لکھ کر بھیجا کہ ہر انسان سے آدھا درہم وصول کیا جائے۔

(مصنف ابن ابى شيبة : 74/3 ، 10358 وسنده صحيح)

قره بن خالد کہتے ہیں:

ہمارے پاس عمر بن عبد العزیز کا نوشتہ (حکم) پہنچا کہ صدقہ فطر میں ہر انسان کی طرف سے آدھا صاع یا اس کی قیمت آدھا درہم وصول کرو۔

( ايضاً : 10369، وسندہ صحیح)

ابو اسحاق السبعیؒ کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو رمضان میں صدقہ فطر میں کھانے کی قیمت دراہم دیتے ہوئے پایا۔

(ایضاً : 10371، وسندہ حسن )

➏ صدقہ فطر نماز عید کی ادائیگی کے لیے گھر سے نکلنے سے پہلے پہلے ادا کر دینا چاہیے۔

سید نا عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر نماز (عید) کے لیے جانے سے پہلے پہلے ادا کرنے کا حکم دیا۔

(صحیح البخاری : 1509)

معلوم ہوا کہ صدقہ فطر نماز عید کے لیے روانگی سے پہلے پہلے ادا کرنا ضروری ہے۔ امام نافع فرماتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ یوم فطر سے دو تین دن پہلے زکاۃ فطر اس کے پاس بھیج دیتے تھے جس کے پاس وہ جمع کی جارہی ہوتی تھی۔

(الموطا للإمام مالك : 631، وسنده صحيح)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!