شیطان انسان کا کھلا دشمن
شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے، اور اس کے فریب سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔ بعض اوقات نیک نیت اور نیک عمل لوگ بھی اس کے دھوکے میں آجاتے ہیں۔ اگر ہمارے والد سیدنا آدم علیہ السلام شیطان کے فریب میں آگئے تو ہم اور آپ کس گنتی میں ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے شر سے محفوظ رکھے اور اگر ہم غیر شعوری طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں افراط و تفریط کا شکار ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے۔
شیطانی فریب اور صحابہ کرام پر الزامات کی مثالیں
مثال 1: صحبت نبوی کی مدت پر اعتراض
زید یہ کہتا ہے کہ بعض صحابہ کو صحبت نبوی زیادہ عرصے کے لیے نہیں ملی، اس لیے ان کی شخصیت مکمل طور پر بدل نہیں سکی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خود زید کی شخصیت مکمل طور پر بدلی ہے؟ اگر زید کا دعویٰ ہے کہ اس کی شخصیت مکمل طور پر بدل گئی ہے تو پھر اس کا پیمانہ یہ ہے کہ دس سال کی صحبت نبوی کے بعد تبدیلی مکمل ہوتی ہے۔ جسے پانچ سال صحبت ملی، وہ 50 فیصد بدلا، اور جسے دو سال صحبت ملی، وہ 20 فیصد بدلا۔ لیکن جسے ایک لمحے کی صحبت بھی نہ ملی، اس کے بارے میں زید کے پیمانے کے مطابق تبدیلی صفر ہوئی۔ اس صورت میں زید خود ناقابل اعتبار ٹھہرا، اور ایسے شخص کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں رائے کیسے معتبر ہو سکتی ہے؟
مثال 2: صحابہ کرام معیار حق نہیں؟
زید کہتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم معیار حق نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا خود زید معیار حق ہے؟ اگر وہ معیار حق ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا دعویٰ قابل قبول نہیں، کیونکہ جب زید کے نزدیک صحابہ معیار حق نہیں تو وہ خود کیسے بن گیا؟ قرآن کریم میں بھی واضح ہے:
"فماذا بعد الحق إلا الضلال”۔
جب زید اپنے دعوے کے مطابق معیار حق نہیں، تو وہ معیار ضلال (گمراہی) ٹھہرا۔
غیر معصوم افراد اور معیار حق
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہر غلطی کو باطل نہیں کہا جا سکتا۔ اجتہادی مسائل میں غلطی کرنے والے مجتہد کو حدیث کے مطابق ایک اجر ملتا ہے، اور صحیح اجتہاد پر دو اجر۔ انبیاء علیہم السلام معصوم عن الخطا ہیں، لیکن امت محمدیہ میں دیگر افراد، بشمول صحابہ کرام، اپنی حد تک معیار حق ہیں۔
انعام یافتہ لوگوں کا راستہ
سورہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے جن انعام یافتہ لوگوں کے راستے پر چلنے کی دعا سکھائی ہے، ان میں انبیاء علیہم السلام کے ساتھ صدیقین، شہداء اور صالحین بھی شامل ہیں۔ ان کے باوجود کہ یہ معصوم عن الخطا نہیں، ان کا راستہ صراط مستقیم ہے۔
افراط و تفریط کا شکار گروہ
کچھ لوگوں نے افراط میں یہ سمجھا کہ ہر دور میں معصوم امام کا ہونا ضروری ہے، اور کچھ نے تفریط میں یہ کہہ دیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی معیار حق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام معیار حق ہیں، اور ان کے مراتب مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن ان کا معیار حق ہونا متاثر نہیں ہوتا۔
صحابہ کرام کے اختلافات
جنگ جمل یا صفین جیسے واقعات میں، زید اگر یہ کہتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا میں سے کون معیار حق تھا، تو یہ سوال ایسا ہی ہے جیسے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام کے اختلاف میں کسی ایک کو معیار حق ٹھہرانا۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر الزامات
زید اگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو باغی یا ان کی حکومت کو جابر کہتا ہے، تو سوال یہ ہے کہ کیا زید کو اپنی موت پر ایمان و اعمال صالحہ کے ساتھ ہونے کا یقین ہے؟ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے حسن عاقبت کا واضح اعلان فرمایا ہے:
"یوم لا یخزی اللہ النبی والذین آمنوا معه”۔
"جس دن اللہ نہ رسوا کرے گا نبی کو اور نہ ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے۔”
منافق ہونے کا الزام
اگر کوئی کہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ منافق تھے، تو یہ قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے خلاف ہوگا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کوئی سختی نہیں کی، بلکہ انہیں کاتب وحی مقرر فرمایا اور ان کے خاندان کو اعزاز بخشا۔
صحابہ کرام کے متعلق اللہ کا وعدہ
تمام صحابہ کرام کے حسن عاقبت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح فرما دیا ہے۔ ان کے خلاف دل میں بغض و عناد رکھنے والا خود ظالم اور گمراہ ہے۔
صحابہ کرام اور فتنہ ارتداد
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد فتنہ ارتداد پیدا ہوا، جسے ختم کرنے والے یہی مہاجرین، انصار اور مولفتہ القلوب تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان اور حسن عاقبت کی گواہی دی ہے۔
جنگوں میں شامل صحابہ
مسلمانوں کے درمیان جنگوں میں صحابہ کرام کی بڑی اکثریت شامل نہیں ہوئی۔ ان جنگوں میں بھی صحابہ کرام کے درمیان صلح کرانے کا شرف حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا۔
نتیجہ
صحابہ کرام معصوم عن الخطا نہیں، لیکن وہ اپنی حیثیت میں معیار حق ہیں۔ ان کے حسن عاقبت کے متعلق قرآن کریم میں قطعی خبریں موجود ہیں، اور ان کے بارے میں شک یا بدگمانی گناہ ہے۔