شیطان کے چنگل سے کیسے بچا جائے؟
تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

91۔ کیا شیطان کے تمام معاملات بائیں ہاتھ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں ؟
جواب :
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
إذا دخل الرجل بيته ذكر الله تعالي د ځوله و عند طعامه قال الشيطان: لا مبيت لكم ولا عشاء، وإذا دخل فلم يذكر الله تعالي عند دخوله، قال الشيطان: أدركتم المبيت، وإذا لم يذكر الله تعالي عند طعامه قال: أدركتم المبيت والعشاء
”جب انسان گھر میں داخل ہوتا ہے تو گھر میں داخل ہوتے اور کھانا کھانے کے وقت دعا پڑھ لے تو شیطان اپنے چیلوں سے کہتا ہے: تمھارے لیے رات بسر کرنے کی جگہ ہے اور نہ شام کا کھانا، لیکن بندہ جب گھر میں داخلے کے وقت دعا نہیں پڑھتا تو شیطان اپنے چیلوں سے کہتا ہے تم کو رات گزارنے کے لیے جگہ مل گئی ہے۔ پھر جب بندہ کھانے کے وقت بھی دعا نہیں پڑھتا تو شیطان اپنے چیلوں سے کہتا ہے۔ تمھیں رات بسر کرنے کرنے کے لیے جگہ اور شام کے گزر کے لیے کھانا بھی مل گیا ہے۔“ [ صحيح مسلم رقم الحديث 2020، 106]
مسلم نے زیادہ کیا ہے۔
لا يأخذ بها ولا يعطي بها
نہ بائیں ہاتھ سے کوئی بندہ کوئی چیز لے اور نہ دے ( کیونکہ بائیں ہاتھ سے شیطان دیتا لیتا ہے)۔“ [ صحيح مسلم رقم الحديث 2020]
——————

92۔ میں لباس کیسے اتاروں کہ شیطان میرا بدن نہ دیکھ سکے ؟
جواب :
سیدنا علی بن ابی طالب اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ستر ما بين أعين الجن و عورات بني آدم إذا وضع أحدهم ثوبه أن يقول: باسم الله
”جنات اور بنی آدم کی شرم گاہوں کے درمیان پردہ یہ ہے کہ جب بندہ کپڑا اتارے تو بسم الله پڑھ لے۔“ [سنن الترمذي رقم الحديث 606، صحيح الجامع رقم الحديث 3610 ]
بسم الله پڑھ لینا گویا بنی آدم پر ایک مہر ہے، جس کو شیطان کھول نہیں سکتا۔ بعض علماے کرام نے کہا ہے کہ ظاہر پر توقف کرتے ہوئے بسم الله کے ساتھ الرحمن الرحيم کا اضافہ نہ کیا جائے (یعنی صرف بسم الله ہی پڑھی جائے نہ مکمل بسم الله الرحمن الرحيم
——————

93۔ اللہ تعالیٰ نے یحیی بن زکریا کو کیسے شیطان سے ڈرایا ؟
جواب :
حارث اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن الله أمر يحيى بن زكريا بخمس كلمات أن يعمل بها و يأمر بني إسرائيل أن يعملوا بها وذكر منها: وأمركم أن تذكروا الله، فإن مثل ذلك كمثل رجل خرج العدو فى أثره سراعا حتى إذا أتى على حصن حصين فأحرز نفسه منهم، كذلك العبد لا يحرز نفسه من الشيطان إلا بذكر الله
”بے شک الله تعالیٰ نے یحییٰ بن زکریا کو پانچ باتوں کا حکم دیا کہ وہ خود بھی ان پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دیں۔ ان پانچ باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں ذکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ یقیناً ذکر کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جس کے پیچھے دشمن بڑا تیز بھاگ رہا ہے، حتی کہ جب وہ ایک مضبوط قلعے تک پہنچتا ہے تو اپنے آپ کو (اس قلعے میں گھس کر) دشمن سے محفوظ کر لیتا ہے۔ ایسے ہی بندہ اپنے آپ کو صرف اللہ کے ذکر ہی کے ذریعے شیطان سے بچا سکتا ہے۔“ [مسند احمد 2024، سنن الترمذي رقم الحديث 2872 ]
——————

94۔ کیا ولادت کے وقت بچہ شیطان کے ( چھونے کی وجہ سے ) روتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں!
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَىٰ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ ۖ وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ﴿٣٦﴾
”پھر جب اس نے اسے جنا تو کہا: اے میرے رب ! یہ تو میں نے لڑکی جنی ہے، اور اللہ زیادہ جاننے والا ہے جو اس نے جنا اور لڑکا اس لڑکی جیسا نہیں اور بے شک میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور بے شک میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ “ [آل عمران: 36]
یعنی میں اس کو شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ میں دیتی ہوں اور اس کی اولاد کو بھی اور وہ اس کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مریم کی والدہ کی دعا کو قبول فرما لیا۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما من مولود يولد إلا والشيطان يمسه حين يولد، فيستهل صارخا من مس الشيطان إياه إلا مريم وابنها ثم يقول أبو هريرة : واقرؤا إن ششم: إني أعيذهابك وذريتها من الشيطن الرجيم
”ہر بچے کو ولادت کے وقت شیطان چھوتا ہے، تو وہ شیطان کے چوکے کی وجہ سے چیختا ہے، سوائے مریم اور اس کے بیٹے کے۔ پھر سیدنا ابوہریرہ (مریم اور اس کے بیٹے عیسی علیہ السلام کے استثنی پر دلیل دیتے ہوئے) فرمانے لگے: اگر (دلیل) چاہتے ہو تو پڑھ لو: (اور بے شک میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور بے شک میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں)۔“ [صحيح البخاري رقم الحديث 3431]

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما من مولود إلا عصره الشيطاث عصرة أو عضرتين إلا عيسى ابن مريم و مريم
”عیسی اور ام عیسیٰ (مریم علیہما السلام ) کے علاوہ ہر بچے کو ہی شیطان ایک ٹھوکا یا دو ٹھوکے مارتا ہے۔“ [صحيح مسلم رقم الحديث 2366 ]

——————

95۔ کیا غصہ شیطان کے ورغلانے کی وجہ سے آتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں!
سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور دو آدمی ایک دوسرے کو گالی گلوچ کر رہے تھے۔ غصے کی بنا پر ایک کا سانس پھولا ہوا تھا اور اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إني لأعلم كلمة لو قالها لذهب عنه ما يجد، لو قال: أعوذ بالله من الشيطان الرجيم، ذهب عنه ما يجد فقالوا له: إن النبى ال قال: تعوذ بالله من الشيطان الرجيم
مجھے ایک ایسے کلمے کا پتا ہے۔ اگر یہ بندہ وہ کلمہ پڑھ لے تو اس کا غصہ کافور ہو جائے۔ اگر یہ بندہ أعوذ بالله من الشيطان الرجيم ، پڑھ لے تو اس کا غصہ کافور ہو جائے گا۔ لوگوں نے اس شخص کو کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ أعوذ بالله من الشيطان الرجيم ، پڑھو۔ [صحيح بخاري رقم الحديث 3108، صحيح مسلم رقم الحديث 2610 ]
نیز فرمایا :
إن الغضب من الشيطان، وإن الشيطان ځلق من نار، وإنما تطفأ النار بالماء، فإذا غضب أحدكم فليتوضا
’’غصہ شیطان کے (بہکاوے) کی وجہ سے آتا ہے، جب کہ شیطان کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ کو پانی ٹھنڈا کرتا ہے۔ لہٰذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وہ وضو کرے۔ [سنن أبى داؤد رقم الحديث 4784]

غصے کا علاج:
➊ متعدد مرتبہ أعوذ بالله من الشيطان الرجيم پڑھنا۔
➋ وضو کرنا۔
➌ ہیئت کو بدل دینا، یعنی اگر کھڑا ہے تو بیٹھ جائے اور بیٹھا ہے تو کھڑا ہو جائے یا لیٹ جائے۔
➍ جگہ بدل لینا، لیکن ایک جگہ (جہاں غصہ آیا ہے) سے دوسری جگہ چلے جانا۔
➎ مظلوم سے معافی مانگنا۔
➏ تین مرتبہ بائیں جانب تھوک دیا۔
——————

96۔ کیا مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ سیدھا کرنے کی نوبت شیطان (کے بہکاوے ) کی وجہ سے پیش آتی ہے ؟
جواب :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا يشير أحدكم على أخيه بالسلاح فإنه لا يدري لعل الشيطان ينزغ فى يده فيقع فى حفرة من النار
”کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف اسلحہ سیدھا نہ کرے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ شیطان اس کو بہکا دے تو اس کی وجہ سے وہ جہنم کے گھڑے میں گر جائے۔“ [صحيح البخاري رقم الحديث 6661 صحيح مسلم رقم الحديث 2617 ]
مطلب یہ ہے کہ کسی عاقل مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کی طرف اسلحہ سیدھا کرے، اگر چہ مذاق ہی کر رہا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ اسلحہ والے کا ہاتھ اٹھے اور بغیر کسی ارادے کے اس کے ہاتھ سے ایک جان قتل ہو جائے، کیونکہ شیطان بغیر کسی شرعی سبب ہی کے انسان کو دوسروں سے انتقام لینے کے لیے ابھارتا اور ترغیب دیتا ہے۔ تو اس بنا پر اس کا ٹھکانا (جب اللہ تعالیٰ چاہے) آگ ہو سکتا ہے۔ اس لیے بغیر کسی وجہ کے اسلحہ اٹھانے سے گریز کرنا چاہیے۔ خاص طور پر خوشیوں کے موقع پر، انتخابات، میلہ گاہوں اور بازاروں جیسی جگہوں میں، کیونکہ ایسی جگہوں کا لیڈر شیطان ہوتا ہے اور انسان سے ایسا کام کروا دیتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں۔
——————

97۔ کیا گالی شیطان دلواتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں!
کیونکہ حدیث میں مذکور ہے۔
ایک شخص سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو گالی دے رہا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ اس نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ گالی دی، پھر گالی دی، پھر تیسری مرتبہ گالی دی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی گالی کا جواب دے دیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كان الملك ينافخ عنك، فلما رددت عليه جاء الشيطان فلم أكن لأجلس
”ابوبکر ! فرشتہ تیری طرف سے جواب دے رہا تھا جب تو نے جواب دیا تو شیطان آ گیا، اس لیے میرا وہاں بیٹھنا مناسب نہیں رہا تھا۔ “ [سنن أبى داود رقم الحديث 4896]
دوسری حدیث میں آتا ہے: سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ دو بندے ایک دوسرے کو گالی گلوچ کر رہے تھے۔ ایک بندے کا چہرہ (غصے کی وجہ سے) سرخ ہو چکا تھا اور اس کی گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں تو رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إني لأعلم كلمة لو قالها لذهب عنه ما يجد، لو قال أعوذ بالله من الشيطان الرجيم فقالوا له: ألا تسمع ما يقول النبى صلى الله عليه وسلم ؟ قال: إني لست بمجون
”مجھے ایک کلمہ معلوم ہے، اگر یہ بندہ وہ کلمہ پڑھ لے تو اس کا غصہ ختم ہو جائے (وہ کلمہ ) أعوذ بالله من الشيطان الرجيم هے.
لوگوں نے اسے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن رہا ہے؟ تو وہ کہنے لگا: میں کوئی پاگل تو نہیں ہوں۔“ [صحيح البخاري رقم الحديث 3108 صحيح مسلم رقم الحديث 2610]
اس حدیث میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گالی گلوچ کا محرک شیطان ہی کو ٹھہرایا ہے، اسی لیے تو کہا کہ شیطان سے پناہ مانگے تو اس کی حالت درست ہو جائے گی، غصہ کافور ہو جائے گا اور شیطان کا دخل ختم ہو جائے گا۔
——————

98۔ کیا نسیان ( بھول) شیطان کی وجہ سے ہوتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں!
➊ اس کی پہلی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ ۚ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا ﴿٦٣﴾
اس نے کہا: کیا تو نے دیکھا جب ہم اس چٹان کے پاس جا کر ٹھہرے تھے تو بے شک میں مچھلی بھول گیا اور مجھے وہ نہیں بھلائی مگر شیطان نے کہ میں اس کا ذکر کروں اور اس نے اپنا راستہ سمندر میں عجیب طرح سے بنا لیا۔“ [الكهف: 63]
وہ قدموں کے نشانات پر واپس چٹان (جہاں سے پچھلی سمندر کے اندر چلی گئی تھی) تک پہنچے۔ تو نسیان کا سبب شیطان ہی بنا، پھر موسی علیہ السلام سمندر کی طرف چلے گئے۔

➋ دوسری دلیل یوسف علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب یوسف علیہ السلام سے دو شخصوں نے آ کر خواب کی تعبیر دریافت کی تو تعبیر دینے کے بعد یوسف علیہ السلام نے کہا:
وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ ﴿٤٢﴾
اور اس نے اس سے کہا، جس کے متعلق اس نے سمجھا تھا کہ بے شک وہ دونوں میں سے رہا ہونے والا ہے کہ اپنے مالک کے پاس میرا ذکر کرنا، تو شیطان نے اسے اس کے مالک سے ذکر کرنا بھلا دیا تو وہ کئی سال قید خانے میں رہا۔“ [يوسف: 42 ]
جب تعبیر بیان کر کے یوسف علیہ السلام نے سوچا کہ ساقی (مالک کو شراب نچوڑ کر پا رہا ہے) نجات پا جائے گا تو دوسرے سے (جو سولی چڑھنے والا تھا) چھپا کر ساقی کو کہا:
اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ یعنی میرا قصہ اپنے (بادشاہ) سے بیان کرنا۔ رب کا لفظ بادشاہ پر بولا جاتا تھا، اس لیے عِندَ رَبِّكَ کا لفظ اللہ تعالیٰ نے استعمال کیا ہے۔
فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ میں فَأَنسَاهُ میں (5) ضمیر کا مرجع وہ شخص ہے، جسے یوسف علیہ السلام نے ناجی (نجات پانے والا) خیال کیا تھا۔ تو شیطان کے بھولانے کی وجہ سے یوسف علیہ السلام کئی سال جیل میں رہے۔ بارہ سال یا چودہ سال کا کہا گیا ہے، تو یوسف علیہ السلام کا بادشاہ کے سامنے ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا۔

➌ تیسری دلیل یہ ہے
اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّـهِ ۚ أُولَـٰئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴿١٩﴾
شیطان ان پر غالب آ گیا، سو اس نے انھیں اللہ کی یاد بھلا دی، یہ لوگ شیطان کا گروہ ہیں۔ سن لو! یقینا شیطان کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جو خسارہ اٹھانے والے ہیں۔“ [ المجادلة: 19 ]
——————

99۔ کیاموت کے وقت بھی شیطان (گمراہ کرنے کے لیے ) آتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں!
نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن الشيطان يأتي أحدكم عند موته ؛ فيقول: مت يهوديا، أو مت نصرانيا
”یقیناً شیطان موت کے وقت انسان کے پاس آ کر کہتا ہے کہ یہودی یا عیسائی ہو کر مرو۔‘‘ [سنن أبى داود رقم الحديث 1552، سنن النسائي 6778، المستدرك للحاكم 5315/61]
اس لیے ہر مسلمان مرد و عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحیح عقیدہ اور عمل صالح کو اختیار کرے، تاکہ جب اس کی موت کا وقت ہو تو اللہ تعالیٰ اسے ایمان پر ثابت قدمی عطا کرے اور شیطان لعین اور اس کی ذریت کے شر سے نجات عطا کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
يُثَبِّتُ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّـهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّـهُ مَا يَشَاءُ ﴿٢٧﴾
اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے، پختہ بات کے ساتھ خوب قائم رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی اور اللہ ظالموں کو گمراہ کر دیتا ہے اور اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے [إبراهيم: 27]
دنیاوی زندگی میں ثبات سے مراد خروج روح کا وقت ہے اور آخرت میں ثبات میں قبر سے سوال و جواب اور قیامت والے دن اللہ کے سامنے پیشی مراد ہے۔
ہم اللہ تعالیٰ سے التجا کرتے ہیں کہ وہ تمام مسلمانوں کو دنیا و آخرت میں ثبات ( ثابت قدمی) اور ہم سب کو جنت الفردوس میں داخل فرمائے۔ آمين
——————

100۔ کیا کوئی ایسی دعا ہے جس کے ورد سے انسان مرتے وقت شیطان کے چنگل سے بچ جائے ؟
جواب :
جی ہاں!
ابو اليسر سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے :
اللهم إني أعوذ بك من التردي والهرم والغرق والحريق، و أعوذ بك أن يتخبطني الشيطان عند الموت، وأعوذ بك أن أموت فى سبيلك مدبرا، وأعوذ بك أن أموت لديغا
”اے اللہ! میں گر کر فوت ہونے، بڑھاپے، غرق ہونے اور جل کر مرنے سے اور حالت جنگ میں پیٹھ پھیر کر بھاگنے کی موت اور سانپ کے ڈسنے کی وجہ سے موت کے واقع ہونے سے تیری پناه مانگتا ہوں۔ “
——————

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: