شیطان کا آدمؑ اور اس کی اولاد کو گمراہ کرنے کا دعویٰ
آیت کا خلاصہ اور اعتراض:
ملحد نے قرآن کی آیات (سورہ بنی اسرائیل: 61-64) سے یہ استدلال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کے ذریعے ایک منصوبہ پہلے ہی طے کر رکھا تھا۔ اعتراض کے مطابق آدمؑ کی اولاد کا وجود ابھی ممکن نہیں تھا، لیکن شیطان پہلے ہی ان کی گمراہی کا دعویٰ کر رہا تھا، اور اللہ نے شیطان کو اس گمراہی کے لیے چھوٹ دے دی۔
اعتراض کا جواب:
اس اعتراض کی وضاحت دو نکات کے ذریعے کی جا سکتی ہے:
- اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کی تخلیق کے متعلق فرشتوں اور ابلیس کو تفصیلات پہلے سے بتا دی تھیں۔
- تقدیر اور آزمائش کی حکمت۔
1. آدمؑ کی تخلیق سے متعلق تفصیلات:
کیا ابلیس کا دعویٰ بے بنیاد تھا؟
قرآن میں واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو آدمؑ کی تخلیق کے بارے میں پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا:
"وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً…”
"اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں…”
(سورہ البقرہ: 30)۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کی تخلیق کا تذکرہ آدمؑ کا پتلا بننے سے پہلے کیا گیا۔ ابلیس جو کہ اللہ کے قربت یافتہ تھا، وہ بھی ان باتوں سے آگاہ تھا۔ اسے معلوم تھا کہ انسان زمین پر آباد ہوں گے اور ان میں سے کچھ اللہ کے برگزیدہ بندے ہوں گے، جن پر اس کا قابو نہیں چل سکے گا۔
ابلیس کا دعویٰ عقل کے مطابق کیوں تھا؟
ابلیس نے فرشتوں کے ذریعے آدمؑ کی فضیلت اور خلافت کے اعلان کو سنا اور یہ جان لیا کہ انسان کی نسل زمین پر آباد ہوگی۔
اسے یہ بھی علم تھا کہ اللہ تعالیٰ نے خیر و شر کے درمیان انتخاب کا اختیار انسان کو دیا ہے۔
مزید یہ کہ قرآن کے مطابق ابلیس کو معلوم تھا کہ اللہ کے خاص بندے اس کی گمراہی سے محفوظ رہیں گے:
"إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ…”
"بے شک، میرے بندوں پر تیرا کوئی اختیار نہیں ہوگا…”
(سورہ الحجر: 42)۔
نتیجہ:
لہٰذا، ابلیس کا یہ دعویٰ کوئی خلافِ عقل بات نہیں کہ وہ آدمؑ کی اولاد کو گمراہ کرے گا اور ان میں سے کچھ لوگ اس کے قابو میں نہیں آئیں گے۔
2. تقدیر اور آزمائش کا فلسفہ:
اللہ کا علم اور مشیت میں فرق:
- علمِ الٰہی: اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز پر محیط ہے، چاہے وہ خیر ہو یا شر۔
- مشیتِ الٰہی: اللہ کی رضا ہمیشہ خیر کے ساتھ ہے، شر کے ساتھ نہیں۔
شر کا خالق کون؟
اللہ تعالیٰ خالقِ مطلق ہیں اور ہر چیز کو پیدا کرتے ہیں، لیکن شر کو پیدا کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ شر کو چاہتا ہے۔ بلکہ شر کو پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو آزمایا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ کون خیر کو اپناتا ہے اور کون شر کا انتخاب کرتا ہے۔
اختیار اور آزمائش:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ خیر یا شر میں سے کسی کو چن لے۔
شیطان کو بھی انسان کی طرح آزادی دی گئی کہ وہ آزمائش کا حصہ بنے، لیکن زبردستی انسان کو گمراہ کرنے کا اختیار اسے نہیں دیا گیا۔
شیطان کا کردار:
قرآن کے مطابق شیطان کا کام صرف وسوسہ ڈالنا اور گمراہ کرنے کی دعوت دینا ہے، زبردستی کسی کو غلط راستے پر کھینچنے کا اختیار اسے نہیں دیا گیا:
"وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ…”
"اور کہہ دو کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پھر جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے…”
(سورہ البقرہ: 256)۔
مثال:
اللہ نے انسان کو زبان جیسی نعمت عطا کی۔ اگر انسان اسی زبان سے جھوٹ بولے یا غیبت کرے، تو یہ انسان کے اختیار کا غلط استعمال ہوگا، نہ کہ اللہ کی رضا۔
انسان کے لیے امتحان اور شیطان کے لیے آزمائش:
یہ دنیا انسان کے لیے امتحان اور شیطان کے لیے آزمائش کا میدان ہے۔ اللہ نے خیر و شر دونوں کے فوائد اور نقصانات واضح کر دیے ہیں۔ اب یہ انسان پر ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرتا ہے۔
زبردستی کامیاب کرنے کا تصور:
امتحان کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو آزادی دی جائے۔ اگر اللہ زبردستی انسان کو کامیاب کر دے، تو آزمائش کا مقصد ختم ہو جائے گا۔
نتیجہ:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو محدود آزادی دی تاکہ وہ اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہو۔
شیطان کو بھی آزادی دی گئی، لیکن یہ آزادی صرف وسوسے تک محدود ہے۔
آزمائش کی حکمت یہی ہے کہ انسان خیر کو اپنائے اور شر سے بچے، اور شیطان کا کردار اس آزمائش کا حصہ ہے۔