سوال:
کیا محمد بن عبد الوہاب نجدی برے آدمی تھے، جیسا کہ مولانا انور شاہ کشمیری نے "فیض الباری” (1/121) میں لکھا ہے کہ "محمد بن عبد الوہاب بلید (کم فہم) اور کفر کا فتویٰ لگانے میں جلد باز تھے”؟
اور کیا نجد کی مذمت میں احادیث وارد ہیں، جیسا کہ بعض لوگ ذکر کرتے ہیں؟
الجواب:
الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
ہم اللہ تعالیٰ سے عدل، انصاف، اور حق گوئی کی دعا کرتے ہیں، اور بغیر تحقیق کے کسی پر فتویٰ دینا درست نہیں۔
نجد کی مذمت میں وارد احادیث اور ان کا درست مفہوم
بعض احادیث میں نجد کی مذمت کا ذکر ہے، لیکن ان احادیث میں مذکور "نجد” سے مراد عراق ہے، نہ کہ وہ نجد جہاں محمد بن عبد الوہاب پیدا ہوئے۔
📖 پہلی حدیث:
"اے اللہ! ہمارے مد، صاع، شام، اور یمن میں برکت دے۔”
کسی نے کہا: "اور ہمارے عراق میں؟”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہاں شیطان کا سینگ ہوگا، اور فتنے وہاں سے اٹھیں گے، اور جفاکاری مشرق میں ہوگی۔”
📖 (طبرانی، الترغیب و الترہیب، مجمع الزوائد، حدیث صحیح)
یہ حدیث بتاتی ہے کہ عراق میں فتنے اٹھیں گے، اور تاریخ گواہ ہے کہ قدریہ، جہمیہ، روافض (شیعہ)، اور خوارج جیسے فتنے عراق سے ہی نکلے۔
📖 دوسری حدیث:
"اے اللہ! ہمارے شام میں برکت دے، اے اللہ! ہمارے یمن میں برکت دے۔”
صحابہ نے عرض کیا: "اور ہمارے نجد میں؟”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے، اور وہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔”
📖 (صحیح بخاری: 7094، ترمذی: 3937، مسند احمد: 576)
یہاں نجد سے مراد عراق ہے، جیسا کہ محدثین اور مفسرین نے وضاحت کی ہے۔
عرب کے نشیبی علاقے نجد کہلاتے تھے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں "نجد” عراق کے لیے بولا جاتا تھا۔
📖 امام طحاوی رحمہ اللہ نے "شرح معانی الآثار” (1/175) میں لکھا:
"ابن عمر رضی اللہ عنہ سے قنوت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: ‘میں نے کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھا، میرے خیال میں یہ صرف عراقیوں کا طریقہ ہے۔'”
معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں مذکور "نجد” عراق ہے، نہ کہ وہ نجد جہاں محمد بن عبد الوہاب پیدا ہوئے۔
📖 امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"عرب کے نشیبی علاقوں کو نجد کہا جاتا ہے، اور یہ عراق کی طرف اشارہ ہے۔”
📖 (النہایہ فی غریب الحدیث، جلد 5، صفحہ 55)
شیخ محمد بن عبد الوہاب کے بارے میں حقیقت
شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ توحید اور سنت کی طرف دعوت دینے والے ایک بڑے عالم تھے۔
ان کی تعریف اہل علم نے کی ہے، اور ان پر اعتراض کرنے والے زیادہ تر اہل بدعت ہیں۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب کی مذمت کرنے والے زیادہ تر لوگ وہ ہیں جو شرک، قبروں کی عبادت، اور بدعات کے حامی تھے، کیونکہ انہوں نے شرک اور بدعات کا سخت رد کیا۔
📖 مولانا رشید احمد گنگوہی دیوبندی نے "فتاویٰ رشیدیہ” میں لکھا:
"محمد بن عبد الوہاب صحیح العقیدہ، عامل بالحدیث، اور اچھے آدمی تھے، جو شرک و بدعت کا رد کرنے والے تھے، البتہ ان کے مزاج میں کچھ سختی تھی۔”
📖 امیر صنعانی رحمہ اللہ نے اپنے قصیدے میں فرمایا:
"محمد بن عبد الوہاب نے اتباع سنت کی دعوت دی اور شرک کو رد کیا۔”
📖 علامہ محمود شکری آلوسی رحمہ اللہ نے "تاریخ نجد” میں لکھا:
"شیخ محمد بن عبد الوہاب ایک علمی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، حدیث و فقہ میں ماہر تھے، اور شرک و بدعات کے خلاف سختی سے موقف رکھتے تھے۔”
📖 شیخ احمد بن حجر آل بوطامی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "محمد بن عبد الوہاب” (صفحہ 65-70) میں لکھا:
"شیخ محمد بن عبد الوہاب ایک مخلص عالم اور دین اسلام کے حقیقی داعی تھے۔ ان کی دعوت پر بے بنیاد الزامات لگانے والے اکثر وہ لوگ ہیں جو اہل بدعت اور قبوری فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔”
امام شوکانی، شیخ حسین بن غنام، اور دیگر علمائے اہل سنت نے بھی ان کی خدمات کو سراہا ہے۔
مولانا انور شاہ کشمیری کے اعتراضات کا تجزیہ
مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے "فیض الباری” (1/121) میں شیخ محمد بن عبد الوہاب پر اعتراض کیا کہ وہ "بلید” (کم فہم) تھے اور کفر کا فتویٰ جلدی لگا دیتے تھے۔
یہ اعتراض تحقیق اور تتبع کے بغیر کیا گیا، کیونکہ انہوں نے زیادہ تر شیخ محمد بن عبد الوہاب کے مخالفین کی کتابوں کا مطالعہ کیا، اور اصل تحریرات تک رسائی حاصل نہیں کی۔
یہی وجہ ہے کہ دیوبندی علماء میں بھی ان کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی دعوت قرآن و سنت پر مبنی تھی، اور ان کی مخالفت کرنے والے زیادہ تر لوگ وہ تھے جو قبروں کی عبادت، غیر اللہ سے مدد، اور بدعات کے حامی تھے۔
اہل بدعت نے ان کے خلاف پروپیگنڈا کیا تاکہ لوگ ان کی کتب، ان کے شاگردوں، اور ان کی دعوت سے دور رہیں۔
لیکن اللہ نے ان کی دعوت کو چار سو پھیلا دیا، اور سچائی ہمیشہ قائم رہی۔
اللہ کی سنت یہی ہے کہ اہل حق کی دعوت ہمیشہ زندہ رہتی ہے، اور جاہلوں کی مخالفت بے اثر ہو جاتی ہے۔
نتیجہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں "نجد” سے مراد عراق ہے، نہ کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب کا علاقہ۔
نجد کی مذمت والی احادیث کو شیخ محمد بن عبد الوہاب پر چسپاں کرنا علمی خیانت ہے۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ ایک بڑے عالم اور توحید و سنت کے داعی تھے، اور ان پر کیے گئے الزامات اہل بدعت کے پروپیگنڈے پر مبنی ہیں۔
علماء اہل سنت نے ان کی تعریف کی ہے، اور ان کی خدمات کو سراہا ہے۔
تحقیق کے بغیر کسی عالم کے بارے میں فتویٰ دینا درست نہیں، اور اہل علم کا فرض ہے کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں غیر جانبدار ہو کر تحقیق کریں۔
📖 (صحیح بخاری، صحیح مسلم، مسند احمد، تاریخ نجد، فتاویٰ رشیدیہ، فیض الباری، تاریخ آلوسی، محمد بن عبد الوہاب از احمد بن حجر آل بوطامی)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب