شہابِ ثاقب کا لغوی مطلب
شہاب: دہکتا ہوا شعلہ یا انگارہ
ثاقب: سوراخ کرنے والا
شہابِ ثاقب دراصل وہ خلائی پتھر ہیں جو ہمارے نظامِ شمسی میں مریخ اور مشتری کے مدار کے درمیان پائے جاتے ہیں۔ انہیں سیارچے (Asteroids) کہا جاتا ہے۔ جب یہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہیں، تو ہوا سے رگڑ کھانے کی وجہ سے اتنی حرارت پیدا ہوتی ہے کہ یہ جل کر روشنی پیدا کرتے ہیں، جسے عام زبان میں "تارا ٹوٹنا” کہا جاتا ہے۔
شہابِ ثاقب کو یہ نام کیوں دیا گیا؟
- شہاب (شعلہ): جب یہ زمین کی فضا سے ٹکراتے ہیں تو جل کر روشن انگارے کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔
- ثاقب (سوراخ کرنے والا): جب یہ تاریکی میں روشنی پیدا کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے تاریکی میں سوراخ کر دیا ہو۔
قرآن میں شہابِ ثاقب کا ذکر
قرآن میں شہابِ ثاقب کو آسمانوں کی حفاظت کے ایک ذریعے کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔
سورۃ الجن:
”اور یہ کہ : ہم پہلے سن گن لینے کے لیے آسمان کی کچھ جگہوں پر جا بیٹھا کرتے تھے۔ لیکن اب جو کوئی سننا چاہتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ ایک شعلہ اس کی گھات میں لگا ہوا ہے۔”
(الجن، آیت 9)
حدیث میں شہابِ ثاقب کا ذکر
آسمانی خبروں کی حفاظت
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے (صحیح مسلم) کہ جب اللہ تعالیٰ کوئی حکم آسمان میں جاری فرماتے ہیں تو فرشتے اسے سن کر اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ شیاطین اس حکم کو چوری چھپے سننے کی کوشش کرتے تھے اور کاہنوں تک یہ خبریں پہنچاتے تھے۔
لیکن رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد آسمانی خبروں کی حفاظت کے لیے یہ عمل بند کر دیا گیا۔ اب اگر کوئی شیطان سننے کی کوشش کرتا تو شہابِ ثاقب اسے بھگا دیتا۔
جنات کا واقعہ
صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق جب شیاطین پر پہرہ سخت ہو گیا تو جنات کو تشویش ہوئی۔ جنات کے مختلف گروہوں نے زمین پر گھوم پھر کر معلوم کرنا چاہا کہ کیا نئی بات ہوئی ہے۔
ان میں سے ایک گروہ وادیٔ نخلہ سے گزرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کو صبح کی نماز میں قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے ہوئے سننے لگا۔ قرآن سن کر وہ کہنے لگے:
"اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا يَّهْدِيْٓ اِلَى الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِهٖ وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا”
(الجن: 1-2)
"بلاشبہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا جو سیدھی راہ دکھاتا ہے، تو ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔”
یہ جنات واپس اپنی قوم کے پاس گئے اور انہیں قرآن کے متعلق آگاہ کیا۔ اس واقعے کا ذکر بعد میں سورۃ الجن میں کیا گیا۔
[بخاری، کتاب الأذان، باب الجھر بقراءۃ صلوۃ الصبح: 773؛ مسلم، کتاب الصلوۃ، باب الجھر بالقراءۃ فی الصبح والقراءۃ علی الجن: 449]
شہابِ ثاقب کے متعلق عربوں کے خیالات
عرب لوگ شہابِ ثاقب کو حیرت سے دیکھتے تھے اور یہ مانتے تھے کہ اس کا ظاہر ہونا کسی بڑی شخصیت کی موت یا پیدائش کی نشانی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کے اس عقیدے کی اصلاح کی اور فرمایا:
"یہ شہابِ ثاقب نہ کسی کی موت کی وجہ سے آتے ہیں اور نہ کسی کی پیدائش کی وجہ سے، بلکہ یہ شیاطین کو دفع کرنے کے لیے ہیں۔”
[صحیح مسلم حدیث 1322]
شہابِ ثاقب: سائنسی و شریعی پہلو
سائنسی وضاحت:
شہابِ ثاقب وزنی خلائی پتھر ہیں جو زمین کی فضا میں داخل ہو کر رگڑ سے جلنے لگتے ہیں۔ بعض اوقات یہ زمین پر گرتے بھی ہیں۔
قرآنی وضاحت:
قرآن نے ان کی سائنسی تفصیلات بیان نہیں کیں بلکہ صرف ان کے شریعی پہلو کا ذکر کیا ہے کہ یہ شیاطین کو بھگانے اور آسمانوں کی حفاظت کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
قرآن اور سائنسی تحقیق میں تضاد نہیں
قرآن کی یہ وضاحت سائنسی تحقیق کے منافی نہیں ہے۔ یہ ممکن ہے کہ شہابِ ثاقب صرف شیاطین کو مارنے کے لیے مخصوص نہ ہوں بلکہ یہ فطری طور پر بھی نمودار ہوتے ہوں۔
عربی معاشرے میں شہابِ ثاقب کا تصور اور قرآنی اصلاح
عرب کے لوگ کاہنوں کو شیاطین سے جڑا ہوا مانتے تھے اور سمجھتے تھے کہ کاہنوں کو شیاطین غیب کی خبریں پہنچاتے ہیں۔
قرآن نے واضح طور پر بیان کیا کہ شیاطین کے لیے غیب کی خبریں حاصل کرنا ممکن نہیں کیونکہ آسمان کی حفاظت شہابِ ثاقب کے ذریعے کی جاتی ہے۔
[تفہیم القرآن: جلد دوم، سورۃ الحجر، حواشی 9 تا 12؛ جلد چہارم، سورۃ الصافات، حواشی 6، 7]