سوال
معزز علماء کرام، کیا شکاری کتے کی قیمت لینا جائز ہے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
حدیث مبارکہ کی روشنی میں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی کمائی کو خبیث اور حرام قرار دیا ہے۔ سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، وَمَهْرِ الْبَغِيِّ، وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ”
[صحیح البخاری: 2237]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، زانیہ کی اجرت اور کاہن کی اجرت سے منع فرمایا تھا۔‘‘
تین اقسام کے کتوں کی اجازت
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا لَيْسَ بِكَلْبِ صَيْدٍ، وَلَا مَاشِيَةٍ، وَلَا أَرْضٍ فَإِنَّهُ يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ قِيرَاطَانِ كُلَّ يَوْمٍ”
[سنن النسائی: 4295]
’’جس نے کسی ایسے کتے کو پالا جو نہ تو شکاری ہو، نہ جانوروں کی نگرانی کے لیے ہو اور نہ ہی کھیتی کی رکھوالی کے لیے، تو روزانہ اس کا اجر دو قیراط کم ہوگا۔‘‘
شکاری کتے کی بیع کا مسئلہ
- بعض علماء نے اس حدیث کی بنیاد پر شکاری کتے کی خرید و فروخت کو جائز قرار دیا ہے۔
- دیگر علماء کتے کی خرید و فروخت کو عمومی طور پر ممنوع سمجھتے ہیں، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت کو حرام قرار دیا ہے۔
- شکاری کتے کی خرید و فروخت کے جواز کا انحصار مختلف فقہی آراء پر ہے اور اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
خلاصہ
شکاری کتے کی خرید و فروخت کے جواز کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف موجود ہے۔ تاہم، عمومی احادیث کی روشنی میں کتے کی کمائی حرام ہے، لیکن شکاری کتے کے استثنا پر بعض علماء نے نرمی برتی ہے۔