شفعہ کا بیان
تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ الرَّابِعُ: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ ” جَعَلَ – وَفِي لَفْظٍ: { قَضَى – النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالشُّفْعَةِ فِي كُلِّ مَا لَمْ يُقْسَمْ . فَإِذَا وَقَعَتْ الْحُدُودُ ، وَصُرِّفَتْ الطُّرُقُ: فَلَا شُفْعَةَ . }
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا۔ اور بعض الفاظ میں ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس مال میں جو تقسیم نہ کیا گیا ہو، شفعہ کا فیصلہ فرمایا ہے، لیکن جب حدود واقع ہو جائیں اور راستے بنادیے جائیں تو پھر شفعہ نہیں ہے ۔
شرح المفردات:
الشفعة: کسی کی زمین یا جائیداد کے فروخت کیے جانے کے وقت اس کے ساتھ والی زمین یا جائیداد کے مالک کا پڑوسی ہونے کے ناطے سے اسے جبرا حاصل کرنے کا حق رکھنا۔
وقعت الحدود پڑوسی کی زمین سے جدا کر لی جائے ، اس کی الگ حد بندی کر دی جائے ۔ / وقعت: واحد مؤنث غائب، فعل ماضی معلوم، باب فتح يفتح ۔
صرفت الطرق: اس کے الگ راستے اور سڑکیں بنادی جائیں ۔ / صرفت: واحد مونث غائب، فعل ماضی مجہول، باب تفعیل ۔
شرح الحدیث:
شریعت نے پڑوسی کو شفعہ کا حق دیا ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جَارُ الدَّارِ اَحَقُّ بِالدَّارِ مِنْ غَيْرِهِ ”گھر کا پڑوسی کسی اور کی نسبت خود اس گھر کا زیادہ حق رکھتا ہے۔“ [مسند احمد: 388/4]
لیکن شفعہ کے لیے یہ شرط بھی لگا دی ہے کہ یہ اس وقت تک ہو سکتا ہے جب تک کہ وہ زمین تقسیم نہ ہوئی ہو، جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے۔ لیکن اگر وہ تقسیم ہو جائے، حد بندی کر دی جائے اور راستے الگ الگ ہو جائیں تو پھر شفعہ نہیں ہو سکتا۔
شفعہ کے لیے یہ بھی حکم ہے کہ یہ صرف غیر منقولہ جائیداد یعنی جاگیر، زمین اور گھر وغیرہ ہی میں ہو سکتا ہے، علاوہ ازیں درخت، کھیتی، جانور اور تلوار وغیرہ جیسی چیزوں میں شفعہ نہیں ہوتا۔ [الاقناع للحجاوي: 610/2]
(283) صحيح البخارى، كتاب الشركة ، باب اذا قسم الشركاء الدور ، ح: 2496 – صحيح مسلم، كتاب المساقاة، باب الشفعة ، ح: 1608

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے