شعیہ کا نبیﷺ کے صحابہ سے متعلق عقیدہ
اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم علی الاطلاق اور بالخصوص ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم انیباء کے بعد سب سے افضل ترین ہستیاں ہیں۔ اس عقیدہ پر ان کے دلائل کتاب اللہ کی وہ آیات ہیں جن میں ان کی تعریف کی گئی ہے ، اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ احادیث ہیں جن میں ان کی مدح و توصیف کی گئی ہے ۔ اور عقل ان لوگوں کی کامیابی کا تقاضہ کرتی ہے جو تاریخ کے اس عظیم ترین مدرسہ کے تربیت یافتہ ہیں جہاں کے معلم اور مربی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور یہ سارا کام اللہ رب العالمین کی نگرانی میں ہو رہا تھا۔ اور واقع الحال بھی اس کے گواہ ہیں کیونکہ انہوں نے تھوڑی سی مدت میں عالم فتح کر لیا۔
جبکہ شیعہ اثنا عشریہ اس مدرسہ پر ناکام ہونے کا حکم لگاتے ہیں اور کہتے ہیں چند کے علاوہ تمام صحابہ ناکام ہو گئے تھے۔ یہ چند انگلیوں کی تعداد کے برابر ہیں۔
کافی میں حمران بن اعین سے روایت ہے کہا: میں نے ابو جعفر سے پوچھا: ”میں آپ پر قربان جاؤں ہم کتنے کم ہیں ایک بکری پر جمع ہو جائیں تو اسے ختم نہ کر سکیں؟
آپ نے کہا: کیا میں تمہیں اس سے بھی عجیب بات نہ بتاوں؟
مہاجرین اور انصار سارے مرتد ہو گئے تھے سوائے تین کے اور ہاتھ کے اشارے سے تین کا عدد بتایا۔“
[الكافي: 244/2]
کیا یہ حکم عقلی طور پر مقبول ہے یا نہیں؟
اس لئے کہ عقل سلیم جب خارجی موثرات سے محفوظ رہے اور حقائق کی تلاش میں صداقت سے کام لے تو حق تک رسائی ہو جاتی ہے۔
یہاں پر ہم اختصار کے ساتھ اس تسلسل کی حقیقت بیان کرتے ہیں:
اولا:
مہاجرین صحابہ مشرک اور اپنی قوم کے دین پر تھے جب اللہ تعالیٰ نے ان میں اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو آپ نے ان کے دین پر تنقید کی ان کے عقلاء کو بیوقوف بتایا۔ اور ان کے عقائد کو باطل ٹھہرایا۔ آپ کی قوم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی اور اس دعوت کا انکار کیا۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے قوم کی مخالفت کی ، اور تمام تر نامساعد حالات کے باوجود اسلام قبول کر لیا۔ تو ان کی قوم نے انہیں تکالیف دیں ان سے قطع تعلقی کی بہت سوں کو مارا پیٹا کچھ کو قتل کر دیا۔ جو بھی مسلمان ہوتا وہ ان کی نظروں سے گر جاتا اور مجالس سے محروم ہو جاتا۔ ان پر ان کا دانہ پانی بند کر دیا جاتا۔ کچھ نے برداشت کا مظاہرہ کیا اور کچھ افراد کے خاندان نے ان کی حمایت اور پشت پناہی کی اور بعض نے دیس چھوڑ کر پردیس کی تکلیفیں اٹھائیں اور حبشہ کی طرف ہجرت کر لی گھر بار اور اِہل و عیال چھوڑ کر چل پڑے نہ کوئی مال ساتھ لیا اور نہ ہی کوئی دنیاوی مقصد پا سکے۔ شیعہ اور سنی کوئی بھی اس حقیقت کا انکار نہیں کرتا۔ لیکن ظاہر ہوتا ہے کہ شعیہ کتابوں میں ان اِہل ایمان کے پورے پورے احوال ذکر نہیں کئے گئے ۔ اور نہ ہی دین اسلام کی وجہ سے ان پر آنے والی مشکلات کا کوئی تذکرہ ہے اس لئے ان حضرات پر جب بھی کوئی تہمت لگائی گئی شیعہ نے اسے آسانی سے قبول کر لیا۔
دوئم:
یہ حضرات جو دینِ اسلام میں داخل ہوئے یا تو اس دین پر قناعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کی وجہ سے مسلمان ہوئے ہوں گے یا پھر انہوں نے جو کچھ کیا اسلام قبول کرنا ایمان لانا تکالیف برداشت کرنا یہ سب دھوکہ اور منافقت ہو گی تا کہ اس غیب تک پہنچ سکیں جس کا انتظام اسلام کو ہے یعنی دین کی نصرت ، غلبہ اور استحکام ۔
عصر قریب سے ایک مثال اس حقیقت کی وضاحت کے لئے لیتے ہیں۔
❀ یہ خمینی جی ہیں: خمینی کا ظہور ظالم بادشاہ کے عہد میں ہوا ، جس نے اسے تکلیفیں دیں ، جیل میں ڈالا اور اس پر زندگی تنگ کر دی اور پھر ملک بدر کر دیا۔ ان سخت حالات میں بھی کچھ لوگ خمینی سے نبھاؤ کرتے رہے اور اس کی شاگردی اختیار کی۔ انہیں بھی خمینی کی طرح قید و بند اور ملک بدری کی تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔ تو اب کیا یہ کہنا ممکن ہے کہ یہ شاگرد جھوٹے تھے ، اور خمینی پر قناعت نہیں کرتے تھے لیکن انہیں اس کی کامیابی کی توقع تھی اسی لئے اس کے ساتھ مل گئے تھے تا کہ دنیاوی مکاسب حاصل کرسکیں۔
❀ اگر کوئی ایسی بات کہے گا تو اس کی بات ردّ کر دی جائے گی باوجود اس کے کہ عصرِ حاضر میں علم و تجربہ کی روشنی میں ایسی توقع کا وجود ممکن ہے مگر ہم کسی بھی ایسی بات کا دعویٰ نہیں کرتے۔
جبکہ قریشی معاشرہ میں کوئی ایسے تجربہ کار ، علم و خبر رکھنے والے موجود نہ تھے جس کی وجہ سے اس احتمال کو مطلق طور پر قبول کیا جائے۔
اگر یہ احتمال بعض اسباب کے باوجود خمینی کے ساتھیوں سے قبول نہیں کیا جا سکتا تو مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ احتمال اور توقع بہت دور کی بات ہے۔
سوم:
یہ حضرات انصار رضی اللہ عنہم ہیں جو مدینہ سے حج کے لئے تشریف لائے تھے اور ان کی ملاقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو گئی اور یہ لوگ اسلام لے آئے۔ پھر واپس جا کر اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی ان میں سے بہت سارے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔
اگلے سال یہ لوگ دوبارہ حج کے لئے گئے۔
یہ ایک بڑا گروہ تھا جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اسلام قبول کر لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت پر آپ کی بیعت کی۔ حالانکہ انہیں آپ کی قوم کی دشمنی کا علم تھا۔ اور اس وقت میں تمام عربوں کی دشمنی اور پھر اس کے نتیجہ میں متوقع نتائج کا اندازہ تھا جبکہ حقیقی نتائج کا علم تو اللہ تعالٰی کے پاس تھا۔
کیا یہ کوگ اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اسلام لائے تھے ، اور جنگ و قتال پر بیعت کی تھی؟ یا پھر بیعت کرنے اور اسلام لانے کا مقصد یہ تھا کہ انہیں علم تھا کہ آخر کار انہیں حکومت مل جائے گی، اور وہ وہاں پر خلفاء بن کر بیٹھ جائیں گے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا عقلمند انسان جسے اپنی عقل کا ذرا بھر بھی احترام ہو، وہ اس بات کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان لوگوں کو اسلام لانے اور اس بیعت پر برانگیختہ کرنے والی چیز اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت تھی۔
چہارم:
یہ حضرات انصار رضی اللہ عنہم ہیں، جنہوں نے مکہ مکرمہ سے آنے والے اپنے مہاجرین بھائیوں کا پرتپاک استقبال کیا۔ ان کے لیے اپنے گھر بار کھول دیے۔ اور اپنے مال ان کی راہوں میں نچھاور کر دیے۔ اور یہ اموال ان کے درمیان تقسیم کر دیے حتی کہ انصار اپنے مہاجر بھائیوں کو یہ پیشکش بھی کرتے کہ وہ اپنی ایک بیوی کو طلاق دے دیتے ہیں ، وہ اس سے شادی کرلے۔
❀ کیا یہ ساری باتیں ایسی دنیا کی طمع اور خواہش کی وجہ سے تھیں جس کے مستقبل کا انہیں کوئی علم نہیں تھا۔ کہ انہیں اس میں سے کچھ ملے گا یا نہیں؟ یا پھر ان کا سبب اللہ اور اس کے رسول پر ایمان تھا؟ ۔
❀ کیا آپ انسانی تاریخ میں کوئی ایسی مثال تلاش کر سکتے ہیں کہ کوئی انسان اپنا گھر بار اور مال اپنے کسی بھائی پر اس لیے خرچ کر دے کہ ایک خیالی اور مبہم دنیا اسے ملنے والی ہے؟ ۔
❀ ایسے حقائق میں شکوک و شبہات کا اظہار کرنا دراصل حقائق کی نفی ہے۔ جس کی وجہ سے تاریخ اور سچائی کی ظاہری حقیقت پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ اور انسانی عقل حماقت اور جنون کا شکار ہو جاتی ہے۔
پنجم:
ہم تمام لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم ، یہ تمام لوگ ابتدائی ایام اسلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔
قطع بظر اس بات سے کہ ان میں سے کون پہلے اسلام لایا اور کون بعد میں۔
❀ ابتدائے دعوت سے ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا؟ کسی بھی وقت سفر یا حضر میں ، جنگ اور سلامتی میں ، خوف اور امن میں (کسی بھی حالت میں) آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ سوائے ان چند مواقع کے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا۔
اس مسئلہ میں شیعہ اور اہل سنت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔
ششم:
یا تو یہ لوگ ظاہری اور باطنی طور پر موٗمن تھے۔ یا پھر صرف ظاہری طور پر موٗمن تھے ، اور باطن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر گردش ایام کے منتظر تھے؟ ۔
یہ دوسرا نکتہ اہل سنت و الجماعت کے ہاں ممتنع ہے۔ لیکن پھر بھی منطقی لحاظ سے کسی نتیجہ پر پہنچنے کے لیے کچھ دیر کے لیے اس کو تسلیم کر لیتے ہیں۔
ہفتم:
اگر یہ لوگ واقعی ایسے ہی تھے ، تو پھر کیا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان چیزوں کا علم تھا یا نہیں تھا؟ ۔
اگر آپ جانتے تھے، تو – استغفر الله ، و معاذ الله آپ ہی اس کا اصل سبب تھے، کہ آپ کو ان کی ان فاسد اور بری نیتوں کا علم تھا ، مگر پھر بھی آپ نے ان حضرات کو ان تمام مواقع پر اپنے ساتھ باقی رکھا۔ کہ ہر وہ انسان جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا تھا، وہ ان حضرات کو بھی آپ کے ساتھ ہی دیکھتا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنے والا ہر انسان ان حضرات کی آپ کے ساتھ قربت کو بھی روایت کرتا ہے۔ یہ ظاہر میں اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت کرتے تھے اور ان پر راضی تھے۔
بلکہ اس سے بڑھ کر آپ نے ان کی مدح و توصیف سے کام لیا ہے۔
بلکہ اس سے بھی ایک قدم آ گے بڑھ کر ان میں سے کچھ کی بیٹیوں سے خود شادیاں کیں ، اور کچھ کو اپنی بیٹیاں بیاہ کر دیں۔
ہشتم:
آپ اپنے بہت سارے کاموں میں ان حضرات سے مشورہ لیا کرتے تھے، اور ان کی رائے کو قبول فرمایا کرتے تھے ۔
نہم:
آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی امامت کرنے کا حکم دیا ، اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے تمام ایام میں ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود باہر تشریف نہیں لا سکتے تھے ، تو آپ ہی امامت کا فریضہ انجام دیتے رہے۔
اگر ایسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی اور اختیار سے ہوا تھا ، اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے ، تو پھر معاذ الله یہ امت کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ ہے۔
اور اگر ایسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا و رغبت کے بغیر پیش آیا ، کہ ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر رکھا تھا ، اور آپ پر مسلط ہو گئے تھے ، تو معاذ الله یہ آپ کی نبوت پر طعنہ زنی ہے جس سے تبلیغ نبوت و رسالت پر اعتماد مفقود ہو جاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ خوف کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی ان لوگوں کو اپنے قریب کرتے اور ان کی مدح و توصیف کرتے۔
جب نہ چاہتے ہوئے بھی خوف کے مارے ان کی تعریف کر سکتے ہیں ، تو پھر نہ جانے ان لوگوں کے خوف سے دین کی کتنی ہی چیزیں چھپا دی ہوں گی۔ استغفر الله .
اور پھر اس بات کا کیا بھروسہ کہ آپ نے کتنی ہی چیزوں کی شرح ان کے خوف سے ان کی مرضی کے مطابق ہی کی ہو گی؟ ۔
ایسی باتوں سے اللہ تعالیٰ کے دین پر اعتماد اور بھروسہ ختم ہو جاتا ہے۔
پھر جتنی بھی روایات ان حضرات کے ذریعہ سے روایت کی گئی ہیں ، ان سب پر اعتماد اور بھروسہ ختم ہو جاتا ہے۔
قرآن کو نقل کرنے والے یہی لوگ ہیں ۔
ان تمام حضرات کے ایمان کی گواہی دینا ، ایسے ہی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایمان پر گواہی دینا ۔ یہ گواہی ان تمام حضرات پر اعتماد و ثقاہت کو رفعت اور بلندی دیتی ہے۔ اس لیے کہ ان لوگوں نے قرآن کو نقل کیا ہے۔
ہمارے نزدیک ان تمام حضرات کا ایمان صحیح اور ثابت ہے ۔
ہمارے لیے ان میں سے موٗمن اور غیر موٗمن کی تمیز اور معرفت خود ان حضرات کی گواہی کے بغیر ممکین نہیں ۔
دہم:
پھر یا تو اللہ تعالی یہ بات جانتے تھے کہ یہ لوگ ظاہری اور باطنی طور پر مؤمن ہیں: یا پھر نہیں جانتے تھے۔
اگر اللہ تعالیٰ یہ بات جانتے تھے۔ اور یہی ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جانتے تھے، اور ایسے فرضی اشکالات پر ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغفار کرتے ہیں ، اور پناہ چاہتے ہیں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قربت کو برقرار رکھا، یہی نہیں ، بلکہ انہیں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لیے چن لیا ، اور کئی ایک آیات مبارکہ میں ان کی تعریف و توصیف اور مدح سرائی کی۔ یہ تو ان کے صاحب ایمان ہونے کی ، اور ان کے فضائل پر دلیل ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ نہیں جانتے تھے۔ ہم ایسے بدعقیدہ ظالم لوگوں کے کفریہ عقائد سے توبہ کرتے ہیں۔ تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر طعنہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ بلند و بری ہیں۔
اور اگر اللہ تعالیٰ ان کے باطن کی حالت کو جانتے تھے ، مگر پھر بھی انہیں اپنے نبی کے ساتھ برقرار رکھا ، حالانکہ اللہ تعالیٰ کو ان کی حقیقت حال کا علم تھا ، مگر پھر بھی اپنے نبی کو اس کی خبر نہیں دی ، تو یہ خالق باری تعالیٰ پر طعنہ زنی ہے۔ استغفر الله
تو پھر جو ہوا ، وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ارادہ سے ہی ایسے ہوا ہے کہ یہ حضرات اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد و نواح میں رہیں ، اور آپ پر مسلط ہو جائیں، اور لوگوں پر دین اسلام کی حجت قائم نہ ہونے دیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا [النساء: 165]
”رسول جو خوشخبری دینے اور ڈرانے والے تھے ، تا کہ لوگوں کے پاس رسولوں کے بعد الله کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہ جائے اور غالب ، کمال حکمت والا ہے۔ “
یاز دہم:
اور اگر اللہ تعالیٰ جانتے تھے کہ یہ لوگ اہل ایمان تو ہیں مگر بعد میں مرتد ہو جائیں گے ، اور وصیت کے بارے میں خیانت کریں گے، اور پھر بھی انہیں اسی حالت پر باقی رکھا ، اور ان کے حال کو آشکار نہیں کیا ، بلکہ ان کی تعریف اور مدح سرائی کی ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی تعریف اور مدح سرائی کی۔ اور اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حال کی خبر نہیں دی۔ تو یہ اللہ سبحانہ و تعالی پر تہمت ہے۔ کیونکہ ان کے مابین جو کچھ پیش آیا تو اس کا سبب – شیعہ عقیدہ کے مطابق۔ اللہ تعالیٰ ہی ہوئے ، ہم ایسی فرضی باتوں پر توبه و استغفار کرتے ہیں۔ لیکن ان باطل اور فرضی باتوں سے مقصود یہ ہے کہ شیعہ کی سوئی ہوئی فکر کو بیدار کیا جائے ۔ تا کہ وہ ان فرضی اور من گھڑت روایات سے نجات پا سکیں جنہوں نے ان لوگوں کو ہر طرف سے گھیر رکھا ہے۔ اور ان کے لیے سوچ و بچار کا کوئی موقع ہی نہیں چھوڑا۔
دواز دهم:
اہل سنت و الجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لیے مبعوث کیا تھا تا کہ آپ اسلامی حکومت قائم کر سکیں۔ فرمان الٰہی ہے:
يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (32) هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (33) [التوبة: 32-33]
”وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے بجھا دیں اور مگر اللہ اپنے نور کو پورا کرنا چاہتے ہیں ، خواہ کافر برا ہی جانیں۔ وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تا کہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے ، خواہ مشرک برا جانیں۔ “
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا [الفتح: 28]
”وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین میں کے ساتھ بھیجا ، تا کہ اسے ہر دین پر غالب کر دے اور اللہ تعالیٰ گواہ کے طور پر کافی ہے۔“
❀ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وعدہ تھا ، تو کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقصد کو پورا کیا؟
❀ یقیناََ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گروہ کی ایسی تربیت کی جو اس طرح کا ملک قائم کر سکیں ، اور انہیں شرک کے اندھیروں سے ایمان کی روشنی کی طرف نکالا۔ انہیں لوگوں کے سامنے بھی بلند مقام و مرتبہ عطا کیا۔ اور قربت سے نوازا۔ ان ہی میں سے آپ کے مشیر اور ہم مجلس بھی تھے۔ اور ان میں سے ہی ایک آدمی کو چن لیا ، اور اسے خصوصی قربت سے نوازا ، اور سب سے بڑے موقعہ پر اسے بلند مقام عطا کیا ، حتی کہ لوگ بھی اس کی قدر و قیمت سے آگاہ ہو گئے۔ ان کی فضیلت کو پہچان لیا ، اور ان کی تعظیم کرنے لگ گئے۔ اس سے پہلے ان کی قوم میں نہ اس انسان کو نہ ہی اس کے خاندان کو یہ مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ اللہ تعالیٰ اس ہستی سے راضی ہو جائے۔
❀ یہ انسان جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بلند مقام عطا کیا ، حتی کہ صحابہ کی نظروں میں آپ کی عظمت واضح ہو گئی، اگر یہ واقعی اس کا اہل تھا ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درست اقدام کیا ، اور حق بات تک رسائی حاصل کر لی۔ اور یہی ہمارا عقیدہ ہے۔
❀ اور اگر یہ اس مقام و مرتبہ کا مستحق نہ تھا ۔ استغفر الله العظيم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے انسان کو بلند مقام عطا کرنے کا سبب بن گئے جو کہ بعد میں دین کو بدل دے گا ، اور اسلامی مملکت قائم کرنے کی آپ کی وصیت کو توڑ ڈالے گا ، اور اس کی جگہ ایک کفر کی مملکت قائم کر دے گا۔ معاذ الله کہ ایسا کچھ ہوا ہو۔
❀ وہ شخصیت اور ہستی جناب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔
❀ آپ کو ہر موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قربت کا شرف حاصل رہا ۔
❀ اور جب تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ پیش آیا ، جب آپ ہجرت کر کے جا رہے تھے تا کہ اسلامی مملکت قائم کی جا سکے ، تو اس وقت آپ کو ہی ہمراہی کا شرف بخشا گیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ۖ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ ۗ وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ [التوبة: 40]
”اگر تم اس کی مدد نہ کرو تو بلا شبہ اللہ نے اس کی مدد کی ، جب اسے کافروں نے نکال دیا ، جب کہ وہ دو میں دوسرا تھا ، وہ دونوں غار میں تھے ، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا غم نہ کر ، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ تو اللہ نے اپنا سکون اس پر اتارا ، اور اسے ان لشکروں کے ساتھ قوت دی جو تم نے نہیں دیکھے اور کافروں کی بات نیچی کر دی اور اللہ کی بات ہی سب سے اونچی ہے اور اللہ تعالٰی غالب ، کمال حکمت والے ہیں۔“
❀ اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی ، یہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لیے بہت بڑا شرف تھا کہ آپ کی بیٹی ام المؤمنین بن گئیں۔ رضی اللہ عنہا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا [الاحزاب: 6]
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتے ہیں اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ، اور کتاب اللہ میں رشتہ داروں حق ایک دوسرے پر موٗمنین اور مہاجرین سے زیادہ ہے اور یہ کہ تم اپنے دوستوں سے نیکی کرو۔ یہ حکم کتاب میں لکھا ہوا ہے ۔“
❀ غزوہ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چھپر کے سب سے زیادہ قریب آپ ہی تھے۔ ان دونوں کے علاوہ کوئی اور انسان وہاں پر نہیں تھا۔
❀ اپنی مرض وفات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کی امامت کروائیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی ایک مواقف مواقع ہیں جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خصوصیت اور مزید قربت واضح ہوتی ہے۔ یہ ہمارے ہاں صحیح ترین کتابوں میں ثابت ہے۔
❀ یہی خصوصیت تھی جس کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی بیعت کی ، آپ کو خلیفہ بنایا ، اور آپ کے ہر حکم اور نہی پر اطاعت گزاری کا دم بھرتے رہے۔ آپ نے مختلف علاقوں کو فتح کرنے کے لیے لشکر روانہ فرمائے ، اور اپنے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر فرمایا ، اس میں بھی لوگ آپ کے اطاعت گزار رہے۔ حالانکہ نہ ہی آپ کا قبیلہ بہت بڑا اور طاقت ور تھا، اور نہ ہی آپ کے پاس مال و دولت تھے کہ لوگوں کو دیکر اپنے ساتھ ملاتے۔ پھر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رضا مندی سے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔
❀ اپنی زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی آپ قابل صد احترام ہی رہے، اس کی کیا وجہ تھی؟ یہ وجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قربت تھی ۔
❀ اگر یہ بات درست ہے ، جیسا کہ ہم لوگوں کا عقیدہ ہے۔ تو پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس مقصد کا ایک جزء تھے جس مقصد کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا تھا۔
اور اگر یہ بات غلط ہے۔ استغفر الله – ہم بارگاہ رسالت مآب میں ایسے مفروضوں پر عذر پیش کرتے ہیں ، ان سے ہمارا مقصد ان لوگوں کہ بیدار کرنا ہے جنہیں ان غلط روایات نے اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے ، جو کہ بارگاہ رسالت مآب میں گستاخی کا سبب بنتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت کا مقصد پورا نہیں کر سکے ۔
❀ کیا عقل اس چیز کو تسلیم کر سکتی ہے کہ یہ تمام امور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی کے بغیر پیش آ گئے ، حالا نکہ آپ نے ہی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ مرتبہ اور عظمت عطا کی تھی۔
سیز دهم:
اگر یہ لوگ دین اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہو گئے تھے، تو پھر بتائیے کہ یہ لوگ دین اسلام کو چھوڑ کر کس دین پر چلے گئے تھے؟ !
❀ ان حضرات کی زندگیاں ایک کھلا ہوا باب ہیں۔
انہوں نے اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کیا ، نمازیں قائم کرتے رہے ، زکوٰۃ ادا کرتے ، رمضان کے روزے رکھتے ، بیت اللہ کا حج کرتے ، اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ، اور روئے زمین کو فتح کرتے۔ حلال کو حلال جانتے اور حرام کو حرام جانتے ۔ اور دین کی کوئی چیز ان حضرات نے ترک نہیں کی۔
❀ عصر جاہلیت میں ان کا دین ان مذکورہ بالا امور کے خلاف تھا۔ تو پھر یہ حضرات کس دین کی طرف پلٹ گئے تھے؟
❀ اگر یہ بات کہیں کہ: انہوں نے امامت (خلافت) کو ترک کر دیا تھا ، اور ایک دوسرے انسان کو خلیفہ بنا لیا تھا !
تو ہم پوچھتے ہیں کہ ایک قبیلہ کے ایک انسان کو خلافت ملی ، تو پھر تمام قبائل اس بات پر کیسے راضی ہو گئے کہ ایک شخص ایک قبیلہ سے ان پر بادشاہ بن جائے ، اور یہ لوگ مرتد ہو جائیں، اور اس کی وجہ سے وہ اپنے دین کا خسارہ برداشت کر لیں۔ اور پھر ایسے شخص کی اطاعت گزاری میں جلدی کرنے لگ گئے جو کہ مرتد ہو گیا تھا۔ حالانکہ ان لوگوں نے اپنے آباء واجداد کے دین کے برعکس ایک دوسرے دین کو قبول کیا ، اور اسے اپنی زندگیوں میں نافذ کیا ، اور پھر اپنی ساری زندگیاں اس دین کو پھیلانے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے میں لگا دیں ۔
کیا یہ ان کی طرف سے کھلا ہوا تضاد نہیں ہے؟ !
کیا یہ ان کی طرف سے کھلا ہوا تضاد نہیں ہے ؟ !
کیا ان میں اپنے دین اور شرف کے لیے اتنی بھی غیرت اور حمیت نہیں تھی کہ اس انسان کے خلاف بغاوت اور نافرمانی کا اعلان کر دیں جو ان پر ایسا دین لازم کر دے جس پر وہ خوش اور راضی نہیں ہیں۔
❀ کیا ایسے نہیں ہوا ۔ جیسا کہ شیعہ کا خیال ہے کہ امامت پر اعتداء (تجاوز ) کیا گیا ، اور اسے ختم کر دیا گیا ، حالانکہ امامت دین کے ارکان میں سے ایک رکن تھا۔ اور پھر ان پر باقی دین قبول کرنے کو لازم کر دیا گیا ، جو کہ انہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں امامت کے بغیر کچھ بھی کام نہیں آئے گا۔ جیسا کہ شیعہ حضرات کا عقیدہ ہے۔
❀ بلکہ ان سے اس راہ میں جہاد کرنے اور اس بنیاد پر موت کو قبول کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ وہ بخوشی اس راہ میں آگے بڑھتے رہے ، حالانکہ ان کا ایسا کرنا انہیں اللہ کے ہاں کچھ بھی کام نہیں آئے گا ۔ جیسا کہ شیعہ حضرات کا عقیدہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ تعالی کی طرف سے منصوب و متعین امام کی بیعت نہیں کی تھی۔ جیسا کہ شیعہ لوگوں کا دعوی ہے۔
❀ ذرا سوچئے! اگر کچھ لوگ ایسے ہوں جو اس سارے کام سے مستفید ہو رہے ہوں ، تو ان دسویں ہزار لوگوں کا کیا قصور ہے؟ کیا وہ ان چند افراد کے حساب میں شمار ہوں گے؟ ۔
❀ عقل سلیم ان تمام احتمالات کو تسلیم نہیں کرتی جو کہ اہل بیت نبوت کی طرف منسوب غیر صحیح روایات کے نتیجہ میں سامنے آتے ہیں، اور اس اتنی بڑی تعداد پر مرتد ہونے کا حکم لگایا جاتا ہے۔ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد حضرت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب ، القرشی الہاشمی رضی اللہ عنہ کے خلاف حسد و بغض اور دشمنی کی وجہ سے ایک سازش ہے۔
جیسا کہ شیعہ لوگ گمان کرتے ہیں۔ اور ان لوگوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پر حسد نہیں کیا ، کیونکہ آپ بنو ہاشم کے اس قبیلہ میں سے نہیں تھے جس کی تعظیم عرب عہد جاہلیت میں بھی کرتے رہے تھے اور اسلام میں بھی ۔
❀ بلا شک و شبہ وہ عقلی دلائل جو ان تمام دعووں کو ان کی جڑوں سے اکھیڑ کر رکھ دیتے ہیں ، ان کا ایک لامتناہی تسلسل ہے۔ لیکن ہم یہاں پر ان چند اشارات پر اکتفاء کرتے ہیں۔ اور یہ ان لوگوں کے لیے کافی ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالی نے کھول دیا ہو ، اور ان کی عقل بیدار ہو ، تا کہ وہ ان مسائل میں غور و فکر کر سکیں۔ اور اللہ تعالی سے دعا کریں کہ انہیں راہ حق کی طرف ہدایت دے۔ [آمين]
بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی حفاظت فرماتے ہیں جو اس کی پناہ میں آئیں ، اور اس سے عصمت کے طلبگار ہوں ۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارے دلوں کو ہدایت دے ، اور ہماری عقول کو بیدار کر دے۔ اور ہمارے فہم کو درست کرے۔ اور ہمیں تمام فتنوں سے محفوظ رکھے ، اور تمام امت کو قرآن کے جھنڈے کے نیچے نبی ہادی امین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر اور آپ کے اصحاب کی راہ پر جمع کر دے۔ بیشک وہ سننے اور جاننے والا ہے۔
دو لازمی تنبیہات
اول:
ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اہل بیت کی محبت دین و ایمان ہے۔ اور ہم ان کی محبت کو اللہ تعالی کا دین سمجھ کر قبول کرتے ہیں ، اور اس محبت کے ذریعہ سے اللہ تعالی کی قربت حاصل کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ان لوگوں پر درود پڑھنا نماز کے واجبات میں سے ہے۔ جس کے بغیر ہماری نماز مکمل نہیں ہوتی۔
لیکن ہم یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ: اہل بیت کی طرف منسوب روایات اور عقائد صحیح نہیں ۔ یہ باتیں اس علمی صنہج کی روشنی میں کہی جا سکتی ہیں جو کہ بیک وقت عقل سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔ یہ عقلی گفتگو اس کی ایک مثال اور نمونہ ہے۔
دوم:
ہماری اس گفتگو کی بنیاد وہ روایات اور عقائد ہیں جن پر دوسرے عقائد کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ اور ان کے مابین تناقض پایا جاتا ہے۔ اور انہیں آل بیت کی طرف منسوب کرنا کسی طرح بھی درست نہیں ۔
آخر میں ہم نصیحت کرتے ہیں کہ شیعہ عالم آیت اللہ العظمی البرقعی ، جنہوں نے شیعہ مذہب کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا ، ان کی کتاب [كسر الصنم] کا مطالعہ ضرور کیا جائے۔ اس کتاب میں انہوں نے اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازش اور منصوبے سے پردہ چاک کیا ہے۔ اس میں ایسی باتیں بھی ہیں جو کہ سونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ اور ہم یہ امید کرتے ہیں کہ یہ عقلی گفتگو ایسی سنجیدہ سوچ و فکر کو بیدار کرے گی جس میں ان لوگوں کے لیے اس حقیقت کا پردہ چاک ہو گا جو کہ حقائق کے متلاشی ہوں۔ اور امت کے لیے ایک جھنڈے کے نیچے کتاب و سنت پر جمع ہونا ممکن ہو جائے گا۔