شر و الم کا اسلامی نقطۂ نظر سے فکری تجزیہ

دادا کی شراب کا قصہ: ایک تمثیل

بچپن میں میں نے کئی بار دادا کی شراب پینے کی کوشش کی، لیکن والدین نے ہر دفعہ سختی سے منع کیا۔ اُس وقت میں والدین کی سختی کو اپنی آزادی پر حملہ سمجھتا تھا، لیکن بڑے ہو کر معلوم ہوا کہ وہ میری بھلائی کے لیے تھا۔ اگر میں بچپن میں 40 فیصد الکحل پیتا، تو یہ میرے ناتواں جسم کے لیے زہر بن سکتی تھی۔

یہ تمثیل دراصل خدا اور اُس کے بندوں کے تعلق کی وضاحت کرتی ہے، خاص طور پر جب ایک انسان دنیا میں شر و الم کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ملحدین اکثر خدا کے وجود کو دنیا میں شر کے وجود سے متصادم سمجھتے ہیں، لیکن یہ استدلال کئی بنیادی غلطیوں پر مبنی ہے۔

ملحدین کا استدلال اور اس کی کمزوریاں

1. خدا کی صفات کی غلط تفہیم

ملحدین خدا کو صرف دو صفات، یعنی قادرِ مطلق اور رحیمِ کامل تک محدود کرتے ہیں، جبکہ قرآن میں خدا کی بہت سی صفات کا ذکر ہے، جیسے الحكيم (حکمت والا)۔ حکمت خدا کی صفات کا لازمی جزو ہے، اور خدا کے تمام فیصلے حکمت کے مطابق ہوتے ہیں۔ ملحدین کا خدا کی صفات کو محدود کرنا، ایک غلط فہمی کو جنم دیتا ہے۔

2. خدا کی حکمت کا انکار

بعض ملحدین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر شر و الم کا کوئی مقصد ہے تو وہ ہمیں کیوں نظر نہیں آتا؟ لیکن یہ دعویٰ کرنا کہ اگر ہمیں حکمت نظر نہ آئے تو وہ موجود ہی نہیں، ایک منطقی مغالطہ ہے۔ مثال کے طور پر، جیسے ایک بچہ والدین کے فیصلوں کی حکمت کو نہیں سمجھ پاتا، ویسے ہی انسان خدا کی حکمت کو مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر ہیں۔

خدائی حکمت اور شر و الم کا وجود

قرآن کی مثال: موسیٰ اور خضرؑ کا واقعہ

قرآن میں موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کے قصے (سورۃ الکہف، آیات 65-82) سے واضح ہوتا ہے کہ بعض اعمال کی حکمت بظاہر انسان کی سمجھ سے بالاتر ہوتی ہے۔ خضر نے ایسے کام کیے جو موسیٰ علیہ السلام کو غیرمنصفانہ لگے، لیکن آخر میں ان اعمال کی حکمت واضح کر دی گئی۔

تفسیر ابن کثیر: ابن کثیر فرماتے ہیں کہ خضر علیہ السلام کے اعمال خدا کی حکمت کے مطابق تھے، جو موسیٰ علیہ السلام کو اس وقت سمجھ نہیں آئے۔ (تفسیر ابن کثیر، جلد 5، صفحہ 181)

شر و الم کے وجود کی معقول وجوہات

  1. زندگی ایک امتحان ہے: قرآن کہتا ہے: وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا۔ (سورۃ الملک، آیت 2) دنیا کو امتحان کے لیے تخلیق کیا گیا ہے، اور شر و الم اس امتحان کا حصہ ہیں۔ مشکلات انسان کی روحانی اور اخلاقی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔
  2. اللہ کی صفات کا شعور: رنج و الم کے بغیر اللہ کی صفات، جیسے الشَّافِي (شفا دینے والا) یا الْحَافِظُ (محافظ)، کی معرفت ممکن نہیں۔ مشکلات انسان کو اللہ کے قریب کرتی ہیں۔
  3. ابدی کامیابی کا ذریعہ: شر و الم کو اللہ کی محبت اور جنت کی ابدی نعمت کے حصول کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ قَوْمًا ابْتَلَاهُمْ۔ (جامع ترمذی، حدیث 2396)
  4. "جب اللہ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے۔”

  5. آزادئ ارادہ: اللہ نے انسان کو آزادئ ارادہ دیا، اور اس آزادی کے نتیجے میں برے اعمال بھی ممکن ہیں۔ امتحان کا تصور آزادی کے بغیر بے معنی ہے۔
  6. دنیا سے بے رغبتی: اسلامی تعلیمات کے مطابق دنیا عارضی ہے اور آخرت دائمی۔ مشکلات انسان کو دنیا کی حقیقت یاد دلاتی ہیں اور آخرت کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ قرآن کہتا ہے: اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ۔ (سورۃ الحدید، آیت 20)
  7. "جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور دل لگی ہے۔”

معصوم لوگوں کی تکالیف: ایک ابدی تسلی

اسلامی نظریہ کے مطابق، دنیاوی مشکلات کا شکار ہونے والے معصومین کو آخرت میں بے پناہ اجر ملے گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا:

يُؤْتَى بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسًا فِي الدُّنْيَا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ۔ (صحیح مسلم، حدیث 2807)"دنیا میں سب سے زیادہ مصیبتیں جھیلنے والے جنتیوں کو لایا جائے گا۔”

روحانی زاویہ: اسلام اور الحاد کا تقابل

الحاد کے برعکس، اسلام مصائب کو ایک اعلیٰ مقصد کے ساتھ جوڑتا ہے۔ ملحدین کے لیے شر و الم بے معنی ہیں، جبکہ اسلام انھیں روحانی ترقی، صبر اور خدا کی قربت کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ۔ (صحیح مسلم، حدیث 2999)
"مومن کے معاملے پر حیرت ہوتی ہے۔”

نتیجہ: شر و الم کے وجود کا حکیمانہ جواز

شر و الم کا وجود خدا کی حکمت، امتحان اور انسان کی روحانی ترقی سے منسلک ہے۔ یہ ایک محدود انسان کے لیے مشکل ہے کہ وہ خدا کی حکمت کو پوری طرح سمجھے، لیکن اسلام کا تصور زندگی، شر و الم کو ایک گہرا مقصد عطا کرتا ہے، جو امید اور سکون کا باعث بنتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے