جہالت
کتاب وسنت سے لاعلمی وہ سب سے بڑا چور دروازہ ہے جو شرک کے پھلنے پھولنے کا سبب بنتا ہے۔ جیسے علم انسان کو اللہ تعالیٰ کی پہچان کراتا ہے بعینہ جہالت غیر اللہ کی عبادت کا سرچشمہ ہے۔ جہالت کے بھوت جبھی انسان کی عقل و دانش پر ڈیرہ ڈالتے ہیں۔ جب علم سے وابستگی نہ ہو۔ جہالت ایک ایسا ناسور ہے جس کی وجہ سے ہماری دینی، سیاسی ، اور معاشرتی زندگی ننگ دین ، جنگ آدم اور نگ وطن کی تصویر ہے ۔ جہالت ہی کے نتیجے میں انسان آباء و اجداد اور رسم و رواج کی اندھی تقلید کا اسیر ہو جاتا ہے، اور پھر اس کے نتیجے میں ضعف ایمان، ضعف عمل اور ضعف کردار کے امراض پیدا ہوتے ہیں، یاد رہے کہ قوم نوح نے ود، سواع، یغوث ، یعوق اور نسر کی عبادت بھی اپنی جہالت اور عدم علم کی بنیاد پر کرنا شروع کی تھی، جیسا کہ صحیح بخاری میں سید نا ابن عباسؓ سے مروی ہے:
(( هَذِهِ أَسْمَاءُ رِجَالٍ صَالِحِيْنَ مِنْ قَوْمٍ نُوحٍ فَلَمَّا هَلَكُوا أَوْحَى الشَّيْطَانُ إِلَى قَوْمِهِمُ أَنِ انْصِبُوا إِلَى مَجَالِسِهِمُ الَّتِي كَانُوا يَجْلِسُونَ أَنْصَابًا وَسَمُّوهَا بِأَسْمَائِهِمْ ، فَفَعَلُوا وَلَمْ تُعْبَدُ حَتَّى إِذَا هَلَكَ أُوْلَئِكَ وَنُسِيَ الْعِلْمُ عُبِدَتْ . ))
صحیح بخاری، کتاب التفسير، ح: ٤٩٢٠ .
’’یہ قوم نوحؑ میں سے نیک لوگوں کے نام ہیں جب یہ فوت ہو گئے تو شیطان نے اس قوم کے دل میں بات ڈالی کہ ان بزرگوں کی نشست گاہوں پر بطور یاد گار پتھر نصب کر دینے چاہییں ، اور ان پتھروں کو ان بزرگوں کے ناموں سے پکارا جانا چاہیے ، چنانچہ اس قوم نے شیطان کی بات مان لی۔ مگر (ابتداء میں ) ان پتھروں کی عبادت نہیں کی گئی۔ لیکن جب پہلی نسل ختم ہوگئی اور بعد میں پیدا ہونے والی نسلوں میں جہالت در آئی تو انہوں نے ان پتھروں کی عبادت شروع در کردی۔‘‘
مذکورہ بالا روایت سے پتہ چلتا ہے کہ جہالت کی وجہ سے شرک کا یہ سلسلہ بڑا قدیم ہے اور موجودہ ترقی یافتہ دور میں اس کے مظاہر گزشتہ مشرک اقوام وملل کی یاد تازہ کرتے ہیں۔
علامہ داؤ درازدهلویؒ رقم طراز ہیں:
’’اب بھی بہت سے کم فہم عوام کا یہی حال ہے کہ اپنی خود ساختہ عقیدت کی بناء پر کتنے ہی بزرگان کو ان کی وفات کے بعد قاضی الحاجات سمجھ کر ان کی پوجا پرستش شروع کر دیتے ہیں۔‘‘
آج ٹاٹانگر جمشید پور بہار میں بر مکان محمد اسحاق صاحب گارڈ یہ نوٹ لکھ رہا ہوں یہاں بتلایا گیا کہ بالکل اسی طرح سے ایک صاحب یہاں چونا بھٹی میں کام کیا کرتے تھے ۔ اتفاق سے وہ دیوانے ہو گئے اور لوگوں نے ان کو خدا رسیدہ سمجھ کر ’’بابا‘‘ بنا لیا۔ اب ان کے انتقال کے بعد ان کی قبر کو مزار کی شکل میں آراستہ پیراستہ کر کے ’’چونا بابا‘‘ کے نام سے مشہور کر دیا گیا ہے اور وہاں سالانہ عرس اور قوالیاں ہوتی ہیں۔ بہت سے لوگ ان کو قاضی الحاجات سمجھ کر ان کی قبر پر ہاتھ باندھ کر اپنی عرضیاں پیش کرتے رہتے ہیں۔ خدا جانے مسلمانوں کی عقل کہاں ماری گئی ہے کہ وہ ایسے تو ہمات میں مبتلا ہو کر پرچم توحید کی اپنے ہاتھوں سے دھجیاں بکھیرتے ہیں۔
إِنَّا لِلَّهِ اللَّهُمَّ اهْدِ قَومِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ. آمين .
اشرح صحیح بخاری ٤٠٨/٦
حکیم فیض عالم صدیقی مرحوم رقم طراز ہیں:
’’میں آپ کے سامنے ایک واقعہ حلفیہ پیش کرتا ہوں، چند روز ہوئے میرے پاس ایک عزیز رشتہ دار آئے جو شدت سے کشتہ پیری ہیں۔ میں نے باتوں باتوں میں کہا کہ فلاں پیر صاحب کے متعلق اگر چار عاقل ، بالغ گواہ پیش کر دوں، جنہوں نے انہیں زنا کا ارتکاب کرتے دیکھا ہو تو پھر ان کے متعلق کیا کہو گے؟ کہنے لگے :
’’ یہ بھی کوئی فقیری راز ہی ہوگا جو ہماری سمجھ میں نہ آتا ہو گا۔‘‘
پھر ایک پیر صاحب کی شراب خوری اور بھنگ نوشی کا ذکر کیا تو کہنے لگے:
”بھائی جان ! یہ باتیں ہماری سمجھ سے باہر ہیں، وہ بہت بڑے ولی ہیں۔“
اختلاف امت کا المیہ ص ۹۴
ملھہ پنجابی میں خار دار جھاڑی کو کہتے ہیں، علاقہ حافظ آباد میں اسٹیشن گا جر گولہ سے شمالی جانب تقریبا چار فرلانگ پر چند خار دار جھاڑیاں ہیں جو کسی زمانہ میں ایک تھیں، اور کسی وقت کوئی ’’مشرک پیر‘‘ در بار بھڑی شاہ رحمٰن کی زیارت کے لیے آتا تو وہاں جوتیاں وغیرہ اُتار کر احرام باندھتا تھا۔ اس لیے وہ پیر کا ملھہ مشہور ہوا ، اور آہستہ آہستہ پیر ملھہ یعنی خود پیر کے نام سے موسوم ہو گیا۔ آج کل اس جھاڑی کا عرس لگتا ہے اور نذرو نیاز دی جاتی ہے۔
جناب جسٹس عثمان علی شاہ صاحب نے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا کہ ”میرے دادا بھی فقیر تھے ۔ ان کے متعلق مشہور تھا کہ اگر بارش نہ ہو تو اس مست آدمی کو پکڑ کر دریا میں پھینک دو تو بارش ہو جائے گی۔ انہیں دریا میں پھینکتے ہی بارش ہو جاتی تھی ، آج بھی ان کے مزار پر لوگ پانی کے گھڑے بھر بھر ڈالتے ہیں ۔‘‘
اُردو ڈائجسٹ ، ستمبر ۱۹۹۱ء
محترم قارئین! یہ اور اس طرح کے دوسرے اعتقادات ضعیفہ وسقیمہ جہالت کی اندھیر نگریوں کے پیداوار ہیں، علم کی روش سے ان کا دور کا بھی تعلق نہیں۔
بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ