شرک اکبر اور شرک اصغر کی وضاحت

سوال

اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغۡفِرُ اَنۡ يُّشۡرَكَ بِهٖ وَيَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰ لِكَ لِمَنۡ يَّشَآءُ‌ ۚ وَمَنۡ يُّشۡرِكۡ بِاللّٰهِ فَقَدِ افۡتَـرٰۤى اِثۡمًا عَظِيمًا‏
[سورة النساء: 48]
’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا اور جو اللہ کا شریک بنائے تو یقینا اس نے بہت بڑا گناہ گھڑا‘۔
کیا اس آیت کا مصداق شرک اکبر یا شرک اصغر بھی ہے؟ بعض لوگ ریاکاری کرنے والے کو ابدی جہنمی قرار دیتے ہیں۔

جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اس آیت میں شرک اکبر کا ذکر ہے، اگر وہ بغیر توبہ کے دنیا سے چلے گئے ہیں تو نجات کی کوئی سبیل نہیں ہے۔
ریاکاری بھی گناہ کے اعتبار سے کبیرہ ہے، مگر شرک کے مقابلے میں اس کو شرک اصغر کہا گیا ہے۔ اس میں ایک بحث یہ بھی ہے کہ صغیرہ پر اصرار اس کو کبیرہ کردیتا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ اعمال برباد ہو جائیں جن میں ریاکاری ہوئی تھی۔ اگر شرک اکبر تک معاملہ نہیں پہنچا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے یا وقتی سزا ہوگی۔
باقی کسی کا نام لے کر اس کو ریاکار یا منافق کہنا یہ بھی محل نظر ہے، اس کو ڈرانے کی حد تک رکھیں۔ میرے خیال میں ابدی جھنمی کہنا صحیح نہیں ہے۔
ترغیب اور ترھیب کے اعتبار سے شرک اکبر کی آیات کو شرک اصغر پر اور شرک اصغر کی آیات کو شرک اکبر پر فٹ کرنے کی گنجائش ہے، یہ زیادہ موثر ہوتی ہے، اگر یہ مراد ہے پھر ٹھیک ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1