میت کو کسی شرعی عذر کی بنا پر قبر سے نکالا جا سکتا ہے
(البانیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[أحكام الجنائز: ص/203]
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عبد اللہ بن ابی (رئیس المنافقین ) کو اس کی قبر میں ڈالا جا چکا تھا:
فامر به فأخرج
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اسے قبر سے نکال لیا گیا۔“
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے گھٹنوں پر رکھ کر لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور اپنا کرتہ اسے پہنایا۔ اب اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے (غالبا مرنے کے بعد منافق کے ساتھ ایسے سلوک کی وجہ یہ تھی کہ ) اس نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ایک قمیض پہنائی تھی ۔ “
[بخاري: 1350 ، كتاب الجنائز: باب هل يخرج الميت من القبر واللحد لعلة]
➋ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے والد کے ساتھ قبر میں ایک اور صحابی دفن تھے لیکن میرا دل اس پر راضی نہیں ہو رہا تھا اس لیے میں نے ان کی لاش نکال کر دوسری قبر میں دفن کر دی۔
[بخاري: 1352 أيضا ، نسائي: 84/4]
(شوکانیؒ) اس عمل کے جواز کے قائل ہیں۔
[نيل الأوطار: 65/3]