وَعَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَاصٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: ( (أَنْهَاكُمْ عَنْ قَلِيلٍ مَا أَسْكَرَ كَثِيرُهُ)) – أَخْرَجَهُ النَّسَائِيُّ
سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں منع کرتا ہوں اس چیز کی تھوڑی مقدار سے جس کی کثرت نشہ آور ہو ۔ نسائی
تحقيق وتخریج:
حدیث صحیح ہے۔
[نسائي: 301/8، دارمي: 21، 5، ابن حبان: 1386، دار قطني: 2/ 251، بيهقي: 296/8]
وَقَدْ وَرَدَ: ( (مَا أَسْكَرَ كَثِيرُهُ فَقَلِيلُهُ حَرَامٌ )) – مِنْ حَدِيثِ جَمَاعَةٍ مِنْهُمْ: جابِرٌ، وَعَائِشَةَ وَأَخْرَجَهُمَا أَبُو دَاوُدَ وَعَلَى الْأَوَّلِ: دَاوُدُ بنُ بَكْرِ بْنِ أَبِي الْفُرَاتِ، وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ: لَيْسَ بِالْمُبِينِ وَأَخْرَجَ الثَّانِي ابْنُ حِبَّانَ فِي ( (صَحِيحِهِ)) مِنْ حَدِيثِ أَبِي عُثْمَانَ وَزَعَمَ ابْنُ القَطَّانِ أَنَّهُ لَا يُعْرَفُ حَالُهُ
یہ بھی وارد ہے کہ جس کی کثیر مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار حرام ہے۔ یہ ایک جماعت کی حدیث سے ہے ان میں جابر ، عائشہ ہیں اور ان دونوں کو ابوداؤد نے نکالا ہے اور پہلی پر داؤد بن بکر بن ابی فرات ہے ابو حاتم نے کہا ہے کہ وہ واضح نہیں ہے اور دوسری کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں نکالا ہے ابی عثمان کی حدیث سے اور ابن فطان کا خیال ہے کہ وہ ایسا راوی ہے جس کا حال مجہول ہے۔
تحقيق وتخریج:
حدیث صحیح ہے۔
[الامام احمد: 3/ 343 ، ابوداؤد: 3681، ترمذي: 1865 ، ابن ماجة: 3393، بيهقي: 296/8]
فوائد:
➊ شراب کی حرمت کی کوئی حد مقرر نہیں ہے یعنی تھوڑی سے تھوڑی اور زیادہ سے زیادہ شراب بھی حرام ہی ہے۔
➋ شراب کی حرمت کی حکمت عقل انسانی محفوظ رکھنا ہے۔ یعنی اسلام اس حق میں نہیں ہے کہ انسان کی عقل ماؤف ہو جائے۔
➌ یہ بھی معلوم ہوا کہ شراب کو چکھنا بھی درست نہیں ہے۔ الا یہ کہ تحقیق کرتے وقت۔