۲۷ رجب المرجب میں عبادات کی نفی کے متعلق سوالات اور جوابات
سوالات:
- کیا ۲۷ رجب المرجب میں عبادات کی بالکلیہ نفی درست ہے، جب کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "تبیین العجب” میں اس دن کے اعمال کا ذکر بعض روایات کے حوالے سے کیا ہے؟
- شعب الایمان میں ایک روایت موجود ہے جس میں ۲۷ رجب المرجب کی رات میں اعمال کا ذکر ہے۔ کیا ان روایات کی بنیاد پر ۲۷ رجب المرجب کو عبادات کے لیے مخصوص کرنا درست ہے؟
- کیا کوئی ایسی حدیث موجود ہے جس میں ذکر ہو کہ اللہ تعالیٰ فجر کی نماز یا اس کے بعد دعائیں قبول کرتے ہیں؟ اس حدیث کا حوالہ اور وضاحت بیان کیجیے۔
جواب:
۱۔ ۲۷ رجب کے اعمال اور ان کی شرعی حیثیت
عمومی وضاحت:
رجب کے مہینے کے فضائل یا اس میں کسی دن روزہ رکھنے یا کسی رات کو عبادت کے لیے خاص کرنے سے متعلق تمام منقول روایات سند کے اعتبار سے قابل استدلال نہیں ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "تبیین العجب بما ورد فی شہر رجب” میں ایسی تمام ضعیف اور موضوع روایات کو جمع کیا ہے اور ان پر تفصیلی کلام کیا ہے۔
حافظ ابن حجر کا بیان:
کتاب کے آغاز میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے رجب کے مہینے کی فضیلت اور مخصوص عبادات کے بارے میں واضح فرمایا:
"لم يردْ في فضلِ شهر رجب، ولا في صِيامِه، ولا في صِيامِ شيءٍ منه معيّنٍ، ولا في قيامِ ليلةٍ مخصوصةٍ فيه، حديثٌ صحيحٌ يَصلحُ للحُجّة.”
(تبیین العجب، ص:2)
ترجمہ:
رجب کے مہینے کی فضیلت، اس میں کسی دن روزہ رکھنے یا کسی مخصوص رات میں عبادت کرنے کے بارے میں کوئی ایسی صحیح حدیث وارد نہیں ہوئی جو قابلِ استدلال ہو۔
ستائیس رجب سے متعلق حافظ ابن حجر کی تحقیق:
حافظ ابن حجر نے ۲۷ رجب المرجب میں روزہ رکھنے اور اس رات میں عبادات سے متعلق پانچ روایات ذکر کی ہیں اور ہر ایک پر تفصیلی کلام کیا ہے۔ ان میں سے ہر روایت سند کے اعتبار سے ضعیف یا موضوع ہے۔
پہلی روایت:
"مَن صلّى ليلةَ سبعٍ وعِشرين مِن رجبَ اثنتي عشرةَ ركعةً …”
(تبیین العجب، ص:14)
حکم: یہ روایت باطل ہے۔ حافظ ابن حجر نے اسے احادیثِ باطلہ میں شمار کیا ہے۔
دوسری روایت:
"في رجبَ يومٌ وليلةٌ، مَن صام ذلك اليوم وقام تلك الليلة كان كمن صام مِن الدهر مائةَ سنةٍ …”
(تبیین العجب، ص:21)
حکم: یہ روایت منکر ہے۔ اس کی سند میں ایک راوی "ہیاج بن بسطام” ضعیف اور منکر الحدیث ہے۔
تیسری روایت:
"في رجبَ ليلةٌ يُكتب للعامل فيها حسناتُ مائةِ سنةٍ …”
(تبیین العجب، ص:21)
حکم: اس روایت کی سند کو حافظ ابن حجر نے إسنادٌ مُظلِمٌ (تاریک سند) قرار دیا ہے۔
چوتھی روایت:
"بعثتُ نبيّاً في السابع والعشرين مِن رجبَ …”
(تبیین العجب، ص:22)
حکم: اس روایت کو حافظ ابن حجر نے إسنادٌ منكرٌ اور سندٌ باطلٌ کہا ہے۔
پانچویں روایت:
"مَن صام يوم سبعٍ وعِشرين من رجبَ كُتب له صِيامُ سِتين شهراً …”
(تبیین العجب، ص:22)
حکم: یہ روایت موقوف ہے (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں بلکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے) اور اس کی سند ضعیف ہے۔
خلاصہ:
تمام روایات پر کلام کے بعد حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے نتیجہ اخذ کیا کہ ۲۷ رجب المرجب کے دن کو عبادات کے لیے خاص کرنے کی کوئی صحیح دلیل نہیں۔ اس لیے اس دن عبادات کو مخصوص کرنا درست نہیں ہے۔
۲۔ فجر کی نماز یا اس کے بعد دعاؤں کی قبولیت سے متعلق حدیث:
آپ کے ذکر کردہ الفاظ بعینہ کسی حدیث میں نہیں ملے، لیکن مضمون کے قریب ایک حدیث "مسند احمد” میں موجود ہے:
حدیث:
"ينزلُ الله عزّ وجلّ كلّ ليلةٍ إلى السماء الدنيا لِنصف الليل الآخر …”
(مسند احمد، حدیث:14544، ط: مؤسسہ الرسالۃ)
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل ہر رات آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں، پھر فرماتے ہیں:
- کون ہے جو مجھ سے دعا کرے کہ میں اس کی دعا قبول کروں؟
- کون ہے جو مجھ سے سوال کرے کہ میں اسے عطا کروں؟
- کون ہے جو مجھ سے بخشش مانگے کہ میں اسے بخش دوں؟
یہ اعلان طلوعِ فجر یا صبح کی نماز کے بعد تک جاری رہتا ہے۔
حکم حدیث:
یہ حدیث حسن ہے اور کثیر طرق سے مروی ہے، جیسا کہ حافظ ذہبی نے "کتاب الأربعین فی صفات رب العالمین” میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔
نتیجہ:
- ۲۷ رجب المرجب کی عبادات: اس دن کو خاص عبادات کے لیے مقرر کرنا درست نہیں، کیونکہ اس بارے میں کوئی صحیح یا قابلِ استدلال روایت موجود نہیں۔
- فجر کے وقت دعاؤں کی قبولیت: اللہ تعالیٰ کے ہر رات نزول فرمانے سے متعلق صحیح احادیث موجود ہیں، اور یہ وقت دعا کی قبولیت کے لیے بہترین ہے۔