شبینہ کی شرعی حیثیت
تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی

سوال : شبینہ کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
جواب : مذکورہ صورت میں دو تین باتیں قابل غور ہیں، اولاً نفل نماز باجماعت ادا کرنا، ثانیاً نفل نماز کا اپنی طرف سے مقررہ اہتمام اور اس پر دوام و اصرار کرنا۔ یعنی خاص وقت یا معین مہینہ میں اس کا خصوصی اہتمام کرنا۔ اول الذکر بات تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ’’ میں ایک رات اپنی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد میں مشغول ہوئے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز تہجد پڑھنے لگا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری امامت کی نیت نہیں کی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سر سے پکڑ کر اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا۔ “ [صحيح بخاري، كتاب الاذان، باب اذالم ينو الامام ان يوم ثم جاو قوم فامهم : 699]

↰ اور اسی طرح صحیح بخاری میں محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ سے سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کا واقعہ منقول ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ کی فرمائش پر ان کے گھر تشریف لائے اور دو رکعت نماز باجماعت ادا فرمائی۔ [صحيح بخاري، كتاب التهجد : باب صلوة النوافل جماعة : 1186]

↰ان دو احادیث صحیحہ سے ثابت ہوا کہ نفل نماز کی جماعت بلاشک و شبہ جائز ہے۔ لیکن اس کا اعلان کرنا، مردوں اور عورتوں کو بذریعہ اشتہارات جمع کرنا، نوافل باجماعت بالدوام ادا کرنا اور رات کو چراغ گل کر کے دعائیں مانگنا ناجائز اور بدعت ہے کیونکہ مطلقاً نفل نماز باجماعت ادا کرنا تو صحیح ہے لیکن یہ قیود مع اہتمام اس مطلق جواز کو بدعت میں بدل دیتے ہیں۔ جیسا کہ نماز چاشت صحیح احادیث سے ثابت ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ اور ام ہانی رضی اللہ عنہ سے یہ نماز مروی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس کی پابندی کی وصیت بھی فرمائی۔ [صحيح بخاري، كتاب التهجد، باب صلوةالضحي فى الحضر : 1178]

↰ مگر اس وصیت کے باوصف سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس کو بدعت کہتے ہیں ( اس کی وجہ ذیل میں آرہی ہے ) جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ مجاہد کہتے ہیں۔
دخلت انا وعروة بن الزبير المسجد فإذا عبد الله بن عمر رضي الله عنهما جالس إلى حجرة عائشة وإذا ناس يصلون في المسجد صلاة الضحى قال : فسالناه عن صلاتهم فقال : بدعة
’’ میں اور عروہ ابن زبیر دونوں مسجد میں داخل ہوئے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ کے پاس بیٹھے تھے اور اس وقت کچھ لوگ مسجد میں نماز چاشت پڑھ رہے تھے۔ ہم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ان کی اس نماز کے متعلق پوچھا: تو انہوں نے کہا: ’’ یہ بدعت ہے “۔ [ صحيح بخاري، كتاب العمر ة : باب كم اعتمر النبى صلى الله عليه وسلم : 1775، صحيح مسلم : 3037]
↰ جب کہ یہ نماز متعدد اسانید صحیحہ سے مروی ہے جیسا کہ اوپر صحیح بخاری کے حوالے سے گزر چکا ہے۔ مقام غور ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے بدعت کیوں کہا: ؟ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مسعود میں اس نماز کو باجماعت ادا کرنے کا دستور نہیں تھا۔ چنانچہ :
◈ امام نووی رحمه الله نے شرح مسلم میں لکھا ہے :
مراده ان اظهارها والاجتماع لها بدعة لا ان صلوة الضحي بدعة وقد سبقت المسئلة فى كتاب الصلوة
’’ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مراد یہ تھی کہ نماز چاشت کو مسجد میں ظاہر کر کے پڑھنا اور اس کے لیے اجتماع و اہتمام کرنا بدعت ہے نہ کہ نماز چاشت بدعت ہے۔ “

◈ امام ابوبکر محمد بن ولید الطرطوشی لکھتے ہیں :
محله عندي على احد وجهين انهم كانوا يصلونها جماعة اما انها يصلونها معا او فذاذا على هيئة النوافل فى اعقاب الفرائض۔
’’ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان کی اس نماز کو تو اس لیے بدعت قرار دیا کہ وہ اسے باجماعت پڑھ رہے تھے یا اس لیے کہ اکیلے اکیلے اس طرح پڑھ رہے تھے جیسے فرائض کے بعد ایک ہی وقت میں تمام نمازی سنن رواتب پڑھا کرتے ہیں۔ “ [كتاب الحوادث والبدع 40]

↰ اس کی دوسری مثال یہ لے لیں کہ سبحان اللہ، اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ کے وظائف اپنے اپنے مقام پر بڑے فضائل کے حامل ہیں اور مفسرین نے انہیں باقیات صالحات میں شمار کیا ہے۔ یہ بلند ی درجات اور نجات اخروی کا بہترین ذریعہ ہیں مگر اس کے باوجود جب انہیں خاص قیود اور غیر ثابت تکلفات و التزامات کے ساتھ پڑھا جائے گا تو یہی وظائف ہلاکت اور خسارے کا باعث بن جائیں گے۔ جیسا کہ :
❀ سنن دارمی میں بسند صحیح سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے آتا ہے کہ کچھ لوگ کوفہ شہر کی مسجد میں حلقہ باندھے کنکریوں پر سبحان اللہ، اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ سو سو دفعہ پڑ ھ رہے تھے تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹتے ہوئے کہا:
فعدوا سيئاتكم فأنا ضامن أن لا يضيع من حسناتكم شيء ويحكم يا أمة ‏ ‏محمد ! ‏ ‏ما أسرع هلكتكم، هؤلاء صحابة نبيكم ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏متوافرون ‏ ‏وهذه ثيابه لم تبل وآنيته لم تكسر. او مفتتحو باب ضلالة؟
’’ تم اپنے گناہوں کو شمار کرو میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ اے امت محمد ! تم پر افسوس ہے کہ تم کتنی جلدی ہلاکت میں مبتلا ہو گئے ہو، ابھی تو تم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بکثرت موجود ہیں، ابھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے بھی پرانے نہیں ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استعمال میں آنے والے برتن بھی نہیں ٹوٹے …. تم ایسا کر کے گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو۔ “ [سنن دارمي المقدمة : باب فى كراهية اخذ الراي 208]

↰ اس روایت سے یہ ثابت ہوا کہ عبادت اور اطاعت جس طرح جس طرح شریعت میں منقول ہو، اس کو اسی انداز میں ادا کرنا چاہیے یعنی جس ہئیت و صورت میں عبادت ہوئی ہے، اس کو اسی طرز سے اپنانا چاہیے۔ اپنی طرف سے اس میں پابندیاں عائد کرنا، بغیر دلیل کے مطلق کو مقید کرنا، غیر موقت کو موقت کرنا یعنی کسی وقت کے ساتھ خاص کر لینا، غیر معین کو معین بنانا بدعت بن جائے گا، جس سے اجتناب ضروری ہے، وگرنہ ہلاکت میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔ چنانچہ یہی وہ نکتہ ہے جس کے پیش نظر ابن عمر رضی اللہ عنہما نے چاشت کو بدعت کہا: اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے حلقہ باندہ کر اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ وغیرہ کا ذکر کونے کو بدعت اور ہلاکت قرار دیا۔

◈ امام ابواسحاق شاطبی رحمه الله رقم طراز ہیں :
منها التزام الكيفيات بهيئة الاجتماع على صوت واحد، واتخاذ يوم ولادة النبي صلى الله عليه وسلم عيدا، وما أشبه ذلك ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته
’’ یہ بھی بدعات سے ہے کہ کسی نیک عمل کی ادائیگی کے لیے اجتماع کی صورت میں ایک ہی آواز کے ساتھ ذکر کا التزام کرنا، عید میلاد النبی منانا اور اس کی مثل دیگر امور اور ان بدعات میں سے یہ بھی ہے کہ عبادات کو معین کرنا، معین اوقات کے ساتھ جن کی تعیین شریعت میں نہیں پائی جاتی۔ جیسا کہ 15 شعبان اور اس کی رات کو پابندی کے ساتھ عبادت بجا لانے کا کوئی ثبوت شریعت میں نہیں۔ “

↰ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور امام شاطبی اور دیگر محدثین کی تصریح سے یہ بات ثابت ہوئی کہ شریعت نے جن عبادات و اطاعات کو مطلق چھوڑا ہے، ان میں اپنی طرف سے پابندیاں عائد کرنا ان کی ہئیت و کیفیت کو بدلنا ہے، ان کو اوقات کے ساتھ معین کرنا گویا دین کو بدلنا ہے اور اس کا نام تحریف ہے اور یہ گمراہی ہے۔

↰ لہذٰا لوگوں کو نوافل کے لیے اہتمام، خصوصی شبینہ کرنا، اس کے لیے لوگوں کو تیار کرنا، اس پر اصرار کرنا سراسر سنت اور سبیل المؤمنین کے خلاف ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تابعین، فقہا اور محدثین رحمه الله نے اس تکلف اور اہتمام کو پسند نہیں کیا۔ لہذٰا اس بدعت سے اجتناب کرنا چاہیے اور عبادت کو جو طریقہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے اس پر عمل کرنا چاہیے۔

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے