شبہہ: ذخیرۂ احادیث کی حیثیت محض تاریخ کی سی ہے
اصل مضمون فضیلۃ الشیخ عَبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

ادارہ ’’طلوع اسلام‘‘ کی جانب سے یہ بات بار بار کہی جاتی ہے کہ احادیث کا ذخیرہ دراصل تاریخ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ ’’دینی تاریخ‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے، لیکن اسے دین کا حصہ نہیں کہا جا سکتا۔ اس سلسلے میں دلیل کے طور پر امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب کا مکمل نام پیش کیا جاتا ہے، جو کہ درج ذیل ہے:

[الْجَامِعُ الصَّحِيحُ الْمُخْتَصَرُ مِنْ أُمُورِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَيَّامِهِ]

صحیح البخاری کے مکمل نام کی وضاحت

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نام میں "امور” اور "ایام” کے الفاظ کو بہت نمایاں کیا جاتا ہے، تاکہ اس سے احادیث کو محض تاریخ ثابت کیا جا سکے۔ تاہم، وہ الفاظ جو حدیث کو تاریخ سے بلند مرتبہ عطا کرتے ہیں، انہیں نظرانداز کیا جاتا ہے۔ حالانکہ کتاب کے نام پر غور کرنے سے تاریخ اور حدیث کے درمیان واضح فرق سمجھ آتا ہے:

الجامع:

محدثین کی اصطلاح میں "الجامع” اس حدیث کے مجموعے کو کہا جاتا ہے جو زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرے۔ تاریخ صرف سیاسی، معاشرتی یا معاشی حالات کا ذکر کرتی ہے، لیکن "الجامع” عقائد، اعمال، اخلاق، معاشرت، معیشت اور دیگر معاملات جیسے حشر و نشر، مکافات عمل، اور جنت و دوزخ جیسے موضوعات کا بھی احاطہ کرتا ہے۔

الصحيح:

یہ کتاب "الصحيح” بھی کہلاتی ہے۔ محدثین کے نزدیک صحیح حدیث وہ ہوتی ہے جس کے راوی تمام ثقہ ہوں، یعنی عادل اور قابل اعتماد۔ اس کے علاوہ، ان راویوں کا اتصال بھی ضروری ہے، اور وہ حدیث کسی اور صحیح حدیث سے متصادم نہ ہو۔

تاریخ کی کسی بھی کتاب کو دیکھ لیجیے، وہاں مورخین ایسی شرائط کا لحاظ نہیں رکھتے۔ اکثر تاریخی کتابوں میں بے بنیاد افواہیں درج کی جاتی ہیں، جن کے راویوں کا کوئی اتا پتا نہیں ہوتا۔ ایک مشہور مؤرخ کے مطابق تاریخی کتابوں میں غیر مصدقہ واقعات قلمبند کر دیے جاتے ہیں، اور کچھ عرصے بعد وہی افواہیں دلچسپ تاریخ بن جاتی ہیں۔

تاریخی مستندات:

اگر کسی قدیم تحریر یا نوشتہ کو تاریخ میں شامل کر دیا جائے تو اسے زیادہ مستند مانا جاتا ہے۔ جتنا قدیم اور دیمک زدہ وہ نسخہ ہوگا، اتنی ہی زیادہ اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، چاہے اس کے راوی مجہول ہوں یا اس کے لکھنے والے کا کوئی کردار نہ ہو۔ آج کل تو ایسی دستاویزات کو تیار کرنے کے مصنوعی طریقے بھی دریافت کر لیے گئے ہیں۔

قدیم کتبے:

جب کبھی پتھر یا دھات پر کوئی قدیم تحریر دریافت ہو جاتی ہے، تو اسے وحی الٰہی سے بھی زیادہ معتبر سمجھا جانے لگتا ہے، حالانکہ اس تحریر کا مصنف نہ معلوم ہوتا ہے کہ کس قسم کا شخص تھا۔ آج کل ایسے کتبوں کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، اور بعض اوقات خود ہی ایسی تحریریں تیار کرکے دور دراز علاقوں میں دفن کر دی جاتی ہیں تاکہ بعد میں دریافت ہونے پر ان کی اہمیت بڑھائی جا سکے۔

تاریخ اور حدیث میں فرق

تاریخی واقعات میں سب سے زیادہ اہمیت خود نوشتہ سوانح حیات (Autobiography) کو دی جاتی ہے، لیکن اس میں بھی انسانی جذبات، جانبداری اور خود تعریف جیسے فطری رجحانات سے انکار ممکن نہیں ہے۔ فارسی میں ایک مقولہ ہے: "ملا در مدح خودمی گوید”، یعنی ملا اپنی ہی تعریف کر رہا ہے، اور یہ جانبداری کا فطری اظہار ہے۔ حکومتیں اور ریاستیں تاریخ کی تحریر اور تدوین کے لیے بھاری رقوم خرچ کرتی ہیں تاکہ اپنی مرضی کے مطابق بیانیہ تشکیل دے سکیں۔

اس کے مقابلے میں جب ہم حدیث کی تصنیف پر نظر ڈالتے ہیں، تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ حدیث کا ذخیرہ زیادہ معتبر اور معتمد ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے اولین راوی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی وہ پاکباز جماعت ہے جن میں کچھ اہم خصوصیات پائی جاتی ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

عینی شاہد ہونے کی حیثیت: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہ اولین افراد تھے جو کسی بھی واقعے کے براہِ راست گواہ ہوتے تھے۔ وہ جو کچھ روایت کرتے تھے، اسے اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور کانوں سے سنتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کتب احادیث میں اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم احادیث کو بیان کرتے وقت "رَأَيتُ” (میں نے دیکھا) یا "سَمِعْتُ” (میں نے سنا) جیسے الفاظ استعمال کرتے تھے۔ اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا حجر اسود کا بوسہ لینا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے حجر اسود سے کہا:

"تو محض ایک پتھر ہے، جو نقصان پہنچا سکتا ہے نہ فائدہ۔ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے نہ دیکھا ہوتا، تو میں کبھی تیرا بوسہ نہ لیتا۔”

پھر انہوں نے حجر اسود کا بوسہ لیا۔ (موطا امام مالک: کتاب الحج)

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا سفر اور نماز کی ترکیب: ایک سفر کے دوران، جب سورج غروب ہو چکا تھا، تو سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے نماز مغرب اور عشاء کو جمع کیا اور فرمایا:

"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔”(نسائی: کتاب المواقيت)

سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کا احسان کے بارے میں قول: سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا:

"اللہ تعالیٰ نے ہر کام میں احسان کو فرض کیا ہے، جب تم قتل کرو، تو بہتر طریقے سے کرو، اور جب جانور ذبح کرو، تو بہترین طریقے سے کرو۔”(ابو داؤد: کتاب الضحايا)

سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کا قرض لینا: سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

"میں نے اپنے نبی اور دوست محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو مسلمان قرض لیتا ہے اور اسے واپس کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اللہ اس کی مدد فرماتا ہے کہ وہ دنیا میں ہی قرض چکا دے۔”(ابن ماجہ: کتاب الصدقات)

عینی شاہدین کی اہمیت

مذکورہ چار مثالوں میں پہلی دو مثالیں دیکھنے پر مبنی ہیں، جبکہ آخری دو مثالیں سننے پر مبنی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو کچھ بیان کیا، وہ براہِ راست مشاہدے یا سماعت کی بنیاد پر تھا، جو تاریخ کے مقابلے میں حدیث کو زیادہ معتبر بناتا ہے۔

صحابہ کرام کی سیرت اور حدیث کی پابندی

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو غور سے دیکھنے، سمجھنے اور پھر اسے اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ وہ اس بات کے پابند تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک حرکت کو نہ صرف بغور مشاہدہ کریں بلکہ اس پر عمل بھی کریں، تاکہ وہ خود بھی اسی تعلیمات کے رنگ میں رنگ جائیں۔

قرآن مجید میں رہنمائی:

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: "لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا” (الأحزاب: 33:21)

ترجمہ: "یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں عمدہ نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے اور آخرت کے دن سے امید رکھتا ہے۔”

اسی طرح سورۃ الحشر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا” (الحشر: 7)

ترجمہ: "جو کچھ رسول تمہیں دیں، اسے لے لو اور جس سے منع کریں، رک جاؤ۔”

صحابہ کرام کا عملی نمونہ:

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں اس طرح نافذ کیا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کر دیتے تھے۔

مثال 1: نماز سفر
ایک دفعہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی نے سوال کیا کہ قرآن میں "صلوة الخوف” اور "صلوة الحضر” (جنگ اور اقامت کی نماز) کا ذکر تو ہے، لیکن نماز سفر کا ذکر نہیں ملتا۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جواب دیا:
"ہمیں اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا اور ہم کچھ نہیں جانتے تھے۔ ہم وہی کرتے ہیں جو انہیں کرتے ہوئے دیکھا ہے، اور نماز سفر بھی ہم اسی لیے پڑھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت سفر میں یہ نماز پڑھی۔”
(موطا امام مالک)

مثال 2: تسبیح کے کلمات
ایک دن نماز میں ایک شخص نے بلند آواز سے کہا:
"اللہ سب سے بڑا ہے، بہت زیادہ تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اور اللہ ہر عیب سے پاک ہے۔”
نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
"یہ کلمات کہنے والا کون ہے؟”
جب شخص نے اپنا تعارف کروایا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ان کلمات کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔”
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
"جب سے میں نے یہ سنا ہے، میں نے یہ کلمات کبھی ترک نہیں کیے۔”
(نسائی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور پیروی

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو بعد میں آنے والی نسلوں تک پہنچانے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔ یہ ذمہ داری نہایت اہم تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کی تاکید فرمائی۔

مثال 1: مکہ کی حرمت
فتح مکہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مکہ کو اللہ نے حرم قرار دیا ہے، لہٰذا یہاں کسی کا خون بہانا یا درخت کاٹنا جائز نہیں۔
آپ نے یہ بھی فرمایا:
"جو یہاں موجود ہیں، وہ یہ پیغام ان تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔”
(صحیح بخاری)

مثال 2: حدیث کی اشاعت
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی:
"اللہ تعالیٰ تروتازہ رکھے اس شخص کو جو ہم سے حدیث سنتا ہے، اسے یاد کرتا ہے اور آگے پہنچاتا ہے۔”
(ترمذی)

محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے والدین، اولاد اور تمام دنیاوی رشتوں سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم میں سے کوئی اس وقت تک ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔”
(صحیح بخاری)

مثال: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ
ایک دن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:
"آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں، سوائے میری جان کے۔”
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"نہیں، اس وقت تک تمہارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک میں تمہیں تمہاری جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔”
(صحیح بخاری)

تاریخ اور حدیث کا عملی فرق

یہ فرق نہ صرف نظریاتی (ideological) تھا بلکہ عملی (practical) طور پر بھی حقیقت کا مظہر تھا۔ اس کی ایک نمایاں مثال غزوۂ احد کا معرکہ ہے، جہاں اسلامی لشکر کی ایک بڑی تعداد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہوگئی تھی۔ ایک حصہ دشمن پر فدایانہ حملے کر رہا تھا، جبکہ دوسرا حصہ اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے فکر مند تھا۔

غزوۂ احد کا معرکہ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد کفار نے گھیراؤ کر لیا، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے پلٹ آئے۔ ان میں سرفہرست سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر بن خطاب اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم تھے، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں نثار کر دیں۔

نازک لمحات

جب دشمنوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا اور آپ کے ساتھ صرف نو صحابہ باقی رہ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو پکارا:
"میرے ساتھیو! میری طرف آؤ، میں اللہ کا رسول ہوں!”
لیکن آپ کی آواز مشرکین نے پہلے سن لی اور پہچان لیا۔ نتیجتاً، انہوں نے آپ پر حملہ کیا۔ اس حملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں نو جانثار صحابہ نے بے مثال شجاعت دکھائی، جن میں سات انصاری اور دو مہاجر صحابہ تھے۔ ان صحابہ نے نہایت سخت معرکہ آرائی کی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

فدائی صحابہ کی قربانی

سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان انصاری صحابہ سے فرمایا:
"دشمنوں کو ہم سے کون دور ہٹائے گا؟ اس کے لیے جنت ہے، یا وہ جنت میں میرا ساتھی ہو گا۔”
ایک انصاری صحابی آگے بڑھا اور لڑتے ہوئے شہید ہوگیا۔ اسی طرح دیگر انصاری صحابہ بھی دشمنوں کو روکنے کے لیے لڑتے رہے، یہاں تک کہ ساتوں صحابہ شہید ہوگئے۔

[صحيح مسلم: كتاب الجهاد: باب غزوة أحد: 1789]

سیدنا عمارہ بن یزید رضی اللہ عنہ کا مقام

ان فدائی صحابہ میں آخری شہید سیدنا عمارہ بن یزید بن السکن رضی اللہ عنہ تھے، جو زخموں سے چور ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے قریب گر پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے قدموں پر ٹیک لیا، اور انہوں نے اسی حالت میں دم توڑ دیا۔ یہ منظر سیدنا عمارہ کی محبت رسول کی عکاسی کرتا ہے، جو ہر عام و خاص کے دل پر نقش ہو چکا ہے۔ [ابن هشام: 81/2]

سیدنا طلحہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کا کردار

غزوۂ احد کے ان نازک لمحات میں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر شدید حملے کیے جا رہے تھے، سیدنا طلحہ بن عبیداللہ اور سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما نے مشرکین کے حملے روکے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تحفظ یقینی بنایا۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص نے اپنی تیر اندازی کی مہارت سے دشمنوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آنے سے روکا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد کو دعائیں دیتے ہوئے فرمایا:
"سعد! تیر چلاؤ، میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں!”

سیدنا طلحہ نے تنہا گیارہ مشرکین کے برابر لڑائی کی اور اپنی جان کو شدید خطرے میں ڈال کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی۔ اس قربانی کی بنا پر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے:
"یہ جنگ ساری کی ساری طلحہ کے لیے تھی۔” [سنن نسائي: 52/2 ، 53]

حدیث کی حیثیت اور تاریخ سے فرق

غزوۂ احد اور دیگر واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کی حفاظت کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ یہ عمل نہ صرف محبت رسول کی علامت تھا، بلکہ عملی طور پر بھی ان کی زندگیاں اسی مشن میں گزریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو آگے پہنچائیں۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"مدینہ کے رہنے والوں کو اور جو دیہاتی ان کے گرد رہتے ہیں، ان کو زیب نہیں دیتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر پیچھے رہ جائیں اور نہ یہ زیب دیتا ہے کہ اپنی جان کو ان کی جان سے زیادہ عزیز سمجھیں۔”
(التوبہ: 120)

حدیث کی ذمہ داری اور صداقت

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ بھی حکم دیا گیا تھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو پوری امانت داری سے بیان کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے، اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔”
(صحیح بخاری)

یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حدیث بیان کرتے وقت انتہائی احتیاط سے کام لیتے تھے اور اگر کسی لفظ میں شک ہوتا تو وہ دونوں ممکنہ الفاظ بیان کرتے۔

تاریخ اور حدیث کا تقابل

تاریخ کی بنیاد:

تاریخ: اکثر اوقات افواہوں اور غیر مصدقہ باتوں پر مبنی ہوتی ہے، جو بعد میں قیاسات اور قرائن سے ترتیب دے کر لکھی جاتی ہے۔
حدیث: حدیث عینی شاہدین کے بیانات پر مبنی ہوتی ہے، جنہوں نے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وقت گزارا اور آپ کی باتیں اور اعمال مشاہدہ کیے۔ جیسے کہ سیدنا انس، سیدنا ابو ہریرہ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم۔

مؤرخ کا تعلق:

تاریخ: مؤرخ کا صاحبِ تاریخ (جس کی تاریخ لکھ رہا ہو) سے کوئی ذاتی تعلق نہیں ہوتا۔
حدیث: محدثین کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گہرا قلبی تعلق ہوتا ہے، اور ان کی محبت و اطاعت ان کے بیانات کی صداقت کا اہم حصہ ہے۔

راوی کا کردار:

تاریخ: تاریخ میں مؤرخ کے ذاتی کردار کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔
حدیث: حدیث کی صحت کے لیے راوی کا قابل اعتماد اور عادل ہونا ضروری ہے، اور راوی کے کردار کو اولین اہمیت دی جاتی ہے۔

دائرہ کار:

تاریخ: کسی خاص ملک یا علاقے کے مخصوص دور کے واقعات کو بیان کرتی ہے۔
حدیث: حدیث کا تعلق تمام انسانیت اور قیامت تک کے لیے ہوتا ہے۔

مرکزی شخصیت:

تاریخ: اکثر تاریخ ایک حکمران یا حکومتی ادارے کے گرد گھومتی ہے۔
حدیث: حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ واحد مرکز ہوتی ہے، اور آپ کے اقوال و افعال ہی اصل موضوع ہوتے ہیں۔

تحقیقی ذرائع:

تاریخ: اکثر ایک یا دو مؤرخین تاریخ لکھتے ہیں، جو حکومتی ادارے کے تحت بھی ہوسکتے ہیں۔
حدیث: حدیث کے ابتدائی راویوں کی تعداد ہزاروں میں تھی، جو ایک ایک حدیث کے درست ہونے کی تحقیق میں عمر بھر مشغول رہے۔

تحقیقی غلطیوں کا امکان:

تاریخ: چونکہ مؤرخین کی تعداد کم ہوتی ہے اور تحقیق وسیع ہوتی ہے، اس لیے غلطیوں کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
حدیث: محدثین کی تعداد بہت زیادہ اور تحقیق کا دائرہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ تک محدود ہونے کی وجہ سے غلطی کا امکان نہایت کم رہ جاتا ہے۔

ذرائع کی وضاحت:

تاریخ: مؤرخ کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ اپنے مواد کے ذرائع کی وضاحت کرے۔
حدیث: محدثین کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ ہر حدیث کے تمام راویوں اور ذرائع کا ذکر کریں، اور ان راویوں کا قابل اعتماد ہونا بھی ضروری ہے۔

تاریخ کا میدان:

تاریخ: زیادہ تر کسی علاقے کے سیاسی حالات پر مبنی ہوتی ہے اور تہذیب و تمدن کو ضمناً شامل کرتی ہے۔
حدیث: حدیث زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہوتی ہے، چاہے وہ معاشرتی ہو، اخلاقی ہو یا خانگی زندگی کے معاملات۔

مؤرخ کے رجحانات:

تاریخ: مؤرخ کے ذاتی اور قومی رجحانات تاریخ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، اور تاریخ کو مخصوص نظریات کے مطابق توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔
حدیث: محدثین کے درمیان تحقیق کا وسیع دائرہ ہونے کی وجہ سے ایسے رجحانات کا خاتمہ ہو جاتا ہے، اور مختلف ملکوں اور زبانوں کے محدثین ایک ہی حدیث کو جانچنے میں شامل ہوتے ہیں۔

غلط بیانی پر کوئی قدغن:

تاریخ: مؤرخ اپنی رائے بیان کرنے میں آزاد ہوتا ہے، اور غلط بیانی پر کوئی بڑی پابندی نہیں ہوتی۔
حدیث: حدیث میں غلط بیانی پر سخت وعید سنائی گئی ہے، اور جھوٹ باندھنے والوں کو جہنم کی وعید ہے۔

معاوضہ اور اخلاص:

تاریخ: مؤرخین اور ادارے تاریخ لکھنے کے معاوضے وصول کرتے ہیں اور حکومتیں تاریخ نویسی پر بڑی رقم خرچ کرتی ہیں۔
حدیث: محدثین نے اپنی پوری زندگی اور دولت حدیث کے جمع کرنے اور تحقیق میں لگا دی، اور اس کام میں کسی قسم کی مالی منفعت حاصل نہیں کی۔

احادیث اور اناجیل کا تقابل

احادیث کا معیار اور احتیاط دنیا کی کسی بھی مذہبی یا تاریخی کتاب کے معیار سے کہیں بلند ہے۔ اناجیل کے راوی صرف چار تھے، اور انہوں نے خود اناجیل کو قلمبند نہیں کیا۔ ان کے بعد آنے والے شاگردوں نے انہیں مرتب کیا۔ سلسلۂ اسناد کا کوئی ذکر نہیں اور روایت و درایت کا کوئی معیار نہیں۔ تورات بھی قومِ موسیٰ کو لکھی ہوئی حالت میں ملی تھی، لیکن یہ کتابیں دو مرتبہ ضائع ہوئیں اور بعد میں دوبارہ تحریر کی گئیں۔

اعجاز حدیث

حدیث اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت محض اتفاقی نہیں بلکہ اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی مدد کارفرما تھی۔ اللہ نے ان پاکباز محدثین کو ایسی ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں عطا کیں جن کی مدد سے انہوں نے دین کے اس قیمتی ذخیرے کو آنے والی نسلوں تک محفوظ کیا۔

خلاصہ مضمون

تاریخ اور حدیث کا تقابل واضح کرتا ہے کہ دونوں کے مقاصد، طریقہ کار اور معیار میں نمایاں فرق ہے۔ تاریخ عموماً افواہوں اور قیاسات پر مبنی ہوتی ہے، جس میں مؤرخ کا صاحب تاریخ سے کوئی ذاتی تعلق نہیں ہوتا اور اس کے کردار کو جانچنے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔ اس کے برعکس، حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات کا وہ ذخیرہ ہے جو عینی شاہدین کی گواہی اور محدثین کی انتہائی احتیاط اور امانت داری کے ساتھ محفوظ کیا گیا ہے۔

حدیث کا مواد پوری انسانیت اور قیامت تک کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے اور اس کی تحقیق میں ہزاروں محدثین نے اپنا تن من دھن قربان کیا، تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو خالص اور محفوظ رکھا جا سکے۔ محدثین کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے ذرائع اور روایات کو انتہائی دقت اور احتیاط سے جانچیں، جب کہ تاریخ نویسی میں ایسے معیارات نہیں پائے جاتے۔

آخر میں، یہ ثابت ہوتا ہے کہ حدیث ایک منفرد اور مقدس ذخیرہ ہے جس کی مثال دنیا کی کسی اور کتاب میں نہیں ملتی۔ اس کی حفاظت کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی مدد اور محدثین کی محنت کا کردار ہے، اور اسی لیے حدیث کا مقام تاریخ سے بلند اور مقدس ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے