سیکولر فکر کے عدالتی مضمرات اور اسلامی نقطۂ نظر

گفتگو کا خلاصہ

یہ گفتگو پاکستانی مسلم سیکولر کے ساتھ خیالات کی وضاحت پر مبنی ہے، جہاں "مدعی” سیکولر فکر کے حامل ہیں اور "مبصر” ان کے خیالات پر سوالات کرتے ہوئے وضاحت پیش کر رہے ہیں۔

مدعی:

آئین پاکستان کی اسلامی حیثیت ختم ہونی چاہیے کیونکہ اس سے اقلیتوں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔

مبصر:

بطور مسلمان، آپ کے ایمان کے مطابق کیا اللہ کے احکامات عادلانہ ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو اعتراض کس بات پر ہے؟ اگر نہیں، تو پھر ایمان کا کیا مطلب؟

مدعی کی طرف سے یہ وضاحت آئی کہ وہ بطور مسلمان یا غیر مسلم، دونوں زاویوں سے بات کر سکتے ہیں۔ گفتگو کے دوران سیکولر فکر کے مختلف مفروضات کو تفصیل سے پرکھا گیا اور آخر میں یہ نتیجہ نکالا گیا:

اہم نکات

بطور مسلمان کسی اسلامی ریاست کی اسلامی حیثیت پر اعتراض کا جواز:

  • مبصر نے واضح کیا کہ بطور مسلمان، اسلامی تعلیمات سے ہٹ کر کسی "غیر اسلامی عدل” کا مطالبہ منطقی نہیں ہو سکتا۔
  • اگر کوئی مسلمان عدل کی تعریف اسلام کے علاوہ کسی اور نظریے سے کرتا ہے تو وہ دراصل اپنی ایمانیات کے بنیادی تقاضے سے دور ہو جاتا ہے۔

سیکولر عدل کا مفروضہ:

  • سیکولر عدل کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہم سب آزاد اور خود مختار ہستیاں ہیں، اور اجتماعی زندگی میں مذہب کا کردار لایعنی ہے۔
  • مبصر نے سوال اٹھایا کہ یہ مان لینا کہ تمام مذاہب عدل کے سوال سے غیر متعلق ہیں، درحقیقت مذہبی تصورات کو خارج کر دینے کا ایک نیا نظریہ مسلط کرنے کے مترادف ہے۔

سب کو "سب کچھ رہنے” کا دعوی:

  • مدعی نے کہا کہ ان کے پیش کردہ حل کے بعد ہر شخص اپنے مذہب پر قائم رہ سکتا ہے۔
  • مبصر نے اس پر اعتراض کیا کہ اگر اجتماعی عدل کے قیام سے متعلق مذہب کے تقاضے ہی لایعنی قرار دیے جائیں تو "مذہب پر قائم رہنے” کا کیا مطلب باقی رہتا ہے؟

سیکولر امن کی حقیقت:

  • مدعی نے کہا کہ مغربی دنیا میں سیکولر اصولوں کے تحت مذہبی اختلافات ختم ہو چکے ہیں، اور سب امن سے رہتے ہیں۔
  • مبصر نے واضح کیا کہ یہ امن اس لیے ممکن ہوا کیونکہ مذاہب کو اجتماعی عدل کے دائرے میں غیر متعلق قرار دے دیا گیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ مذاہب کو زندگی کے ایک اہم دائرے سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔

سیکولر فکر کے نتائج

  • سیکولر فکر مذہب کو اجتماعی زندگی سے نکال کر اسے صرف ذاتی عقیدے تک محدود کرتی ہے۔
  • مذہبی تصوراتِ عدل کو لایعنی قرار دینا دراصل ایک نئے تصور عدل کو تمام مذاہب پر مسلط کرنے کے مترادف ہے۔
  • اس فکر کے مطابق، اگر تمام مذاہب والے اپنے عقائد میں سیکولر عدل کے مطابق ترمیم کریں تو معاشرے میں امن قائم ہو سکتا ہے، لیکن یہ امن "سب کچھ ہونے” کا دعویٰ پورا نہیں کرتا۔

نتیجہ

یہ گفتگو اس بات کو واضح کرتی ہے کہ سیکولر عدل کا تصور درحقیقت مذہبی تصوراتِ عدل کی نفی کرتے ہوئے انہیں اجتماعی زندگی سے بے دخل کر دیتا ہے، اور یہی چیز سیکولر فکر کے مضمرات کی بنیاد ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1