سیکولر ریاست اور تصورات خیر کی جانبداریت کا تجزیہ

سیکولر ریاست کی محدودیت

سیکولر ریاست صرف انہی تصورات کو قبول کرتی ہے جو اس کے اپنے تصورِ خیر یعنی ہیومن رائٹس سے متصادم نہ ہوں۔ ایسے تمام تصورات خیر جو ہیومن رائٹس کے فلسفے سے ٹکراتے ہیں، انہیں جبر، قانون اور قوت کے ذریعے دبایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر:

➊ اگر ہندو اپنی مذہبی روایت کی بنیاد پر ستی (خودسوزی) کی رسم یا ذات پات کے نظام کو معاشرے میں نافذ کرنا چاہیں، تو کیا سیکولر ریاست اس کی اجازت دے گی؟

جواب واضح ہے: ہرگز نہیں۔ کیوں؟ کیونکہ یہ اعمال ہیومن رائٹس کے اصولوں سے متصادم ہیں۔

نتیجتاً، سیکولر ریاست نہ صرف ان اعمال کی بیخ کنی کرتی ہے بلکہ اس عمل میں ہندو تصور خیر اور انفرادیت کو بھی ختم کر دیتی ہے، کیونکہ ہندوؤں کے نزدیک ذات پات کے نظام کے بغیر ان کی انفرادیت مکمل نہیں ہو سکتی۔

اسلامی انفرادیت اور سیکولر ریاست

اسی طرح، اگر کوئی مسلمان لڑکی کسی غیر مسلم سے شادی کرنا چاہے یا کوئی مسلمان لڑکا کسی لڑکے سے شادی یا زنا کا ارادہ رکھے، تو اسلامی ریاست اس کی اجازت نہیں دے گی۔ لیکن سیکولر ریاست میں چونکہ ان افعال کو ہیومن رائٹس کے تحت حقوق تسلیم کیا جاتا ہے، اس لیے:

➊ سیکولر ریاست ان افعال کو قانونی تحفظ دیتی ہے۔

➋ اگر مسلمان اجتماعیت ان افعال کو روکنے کی کوشش کرے، تو سیکولر ریاست ان کے خلاف کارروائی کرکے انہیں دبانے کی کوشش کرے گی۔

یہ صورتحال اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ سیکولر ریاست اسلامی معاشرتی نظم کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ اسلامی معاشرت اور انفرادیت اس وقت انتشار کا شکار ہو جاتی ہے جب ان کے معاشرتی اصولوں کے برعکس قوانین نافذ کیے جاتے ہیں۔

ہیومن رائٹس کا دائرہ کار

➊ ہیومن رائٹس صرف ہیومن انفرادیت کے حقوق کو تسلیم کرتا ہے، جو خود کو خدا کے تابع نہیں سمجھتی۔

➋ لیکن یہ حقوق مسلم، ہندو یا عیسائی انفرادیت کو تسلیم نہیں کرتے۔

مثال کے طور پر: مسلم مرد کی مرد سے شادی کو ہیومن رائٹس کے تحت درست سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ اسلامی حقوق کے خلاف ہے۔

سیکولر ریاست کی جانبداری

سوال: جب ہیومن انفرادیت اور مسلم انفرادیت کے حقوق میں تصادم ہو تو ریاست کس کو ترجیح دے گی؟
جواب: سیکولر ریاست ہمیشہ ہیومن انفرادیت کو ترجیح دیتی ہے اور دوسرے تمام تصورات خیر کو رد کرتی ہے۔

➊ اس ترجیح کی بنیاد پر، سیکولر ریاست ایک ڈوگمیٹک (متعصب) اور عدم برداشت پر مبنی رویہ اپناتی ہے۔

مشہور لبرل مفکرین کی رائے:

رالز (Rawls) کہتے ہیں کہ مذہبی آزادی کو لبرل اقدار کے لیے خطرہ بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ایسے نظریات جو لبرل آزادیوں کو مسترد کرتے ہیں، انہیں ختم کرنا ویسا ہی ضروری ہے جیسے وبا کو ختم کرنا۔

ماضی کی مثالیں:

➊ یورپی اقوام نے ہیومن رائٹس کے نام پر کروڑوں ریڈ انڈینز اور دیگر اقوام کا قتل عام کیا۔

➋ آج بھی مجاہدین کے خلاف کارروائیوں کو جائز سمجھا جاتا ہے۔

سیکولر ریاست: تمام تصورات خیر کے مساوی مواقع؟

اجتماعی زندگی اور ذاتی زندگی کا تعلق:

➊ وہی اقدار اور اعمال پھلتے پھولتے ہیں جنہیں اجتماعی زندگی میں قابلِ قدر سمجھا جاتا ہے اور جن پر کامیابی و ناکامی کا انحصار ہو۔

➋ جن اقدار کو اجتماعی زندگی میں مہمل سمجھا جاتا ہے، وہ آہستہ آہستہ ذاتی زندگی میں بھی غیر متعلقہ ہو جاتی ہیں۔

دینی علوم کی مثال:

➊ جدید سیکولر نظام فرد کو دینی علوم حاصل کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔

➋ نتیجتاً، دینی علوم نجی زندگی میں غیر متعلقہ ہو چکے ہیں، جبکہ سائنسی علوم کو اہمیت حاصل ہو رہی ہے، کیونکہ اجتماعی زندگی انہی کے گرد گھوم رہی ہے۔

آخرت کی اقداری حیثیت:

سیکولر ڈسکورس آخرت کے تصور کو لایعنی اور مہمل قرار دیتا ہے۔

مثال کے طور پر: سیکولر ریاست کہتی ہے کہ یہ سوال کہ "لوگ جنت میں جائیں گے یا جہنم میں؟” ریاستی اور معاشرتی صف بندی میں غیر ضروری ہے۔

اسلامی نقطہ نظر سے: یہی سوال سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

اسلامی اور سیکولر نظریہ میں تضاد

اسلام: کہتا ہے کہ اجتماعی زندگی کا مقصد ایسے مواقع فراہم کرنا ہے جو آخرت میں کامیابی کا سبب بنیں۔

سیکولر ریاست: اس تصور کو رد کرتی ہے اور اسے اجتماعی نظم سے نکال باہر کرتی ہے۔

فکری زوال:

➊ سیکولر معاشروں میں جہاں آزادی، مساوات اور ترقی کے تصورات کو فروغ دیا گیا، وہاں افراد کی زندگیوں میں آخرت کی فکر ختم ہو گئی۔

➋ نتیجتاً، افراد نے لذت پرستی کو ترجیح دی، اور مذہبی اقدار زوال کا شکار ہو گئیں۔

نظام کی جانبداری

افراد ہمیشہ وہی اقدار اپناتے ہیں جنہیں نظام قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

➊ سیکولر ریاست لبرل سرمایہ دارانہ نظام کو مسلط کرتی ہے، جس کے نتیجے میں دیگر تمام تصورات خیر اور نظام زندگی محدود ہو جاتے ہیں یا ختم ہو جاتے ہیں۔

خلاصہ

سیکولر ریاست تمام تصورات خیر کے فروغ کے مساوی مواقع فراہم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ہیومن رائٹس کے تصور کو ترجیح دیتی ہے اور دیگر تصورات کو دباتی ہے۔ یہ نظام خاص طور پر مذہبی اقدار اور تصورات کو غیر اہم بنا کر ان کے خاتمے کا سبب بنتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے