سیکولرزم کی لادینیت اور اس کے عملی اثرات

الوہی ہدایت: ایک غیر متغیر نظام

اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہدایت کوئی بدلنے والی فکری سوچ یا نظریاتی ارتقاء کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک ثابت شدہ اور غیر مبدل اصولوں، احکامات اور اقدار پر مشتمل ہے۔ یہی اصول اور اقدار انسان کے بدلتے خیالات اور اعمال پر پرکھنے کا معیار بنتے ہیں، اور انہی کی روشنی میں کسی بھی نظریے یا عمل کو دینی یا لادینی قرار دیا جاتا ہے۔

سیکولرزم اور لادینیت کا تعلق

سیکولرزم کو جب دینی نکتہ نظر سے دیکھا جاتا ہے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ نظام لادینیت پر مبنی ہے۔ سیکولرزم جن اعمال اور افکار کا مطالبہ کرتا ہے، ان کا لادینی ہونا کسی ابہام کا شکار نہیں۔ اس نظریے کی بنیاد مادی حقائق اور آزادی جیسی بنیادی اقدار پر ہے، جن کا نطق سیکولرزم کرتا ہے۔ چونکہ یہ اقدار مذہب کے مخالف ہیں، اس لیے سیکولرزم کو اصولی طور پر لادین قرار دینا درست ہے۔

سیکولرزم بطور نظریہ اور بطور سماجی نظام

سیکولرزم کا بطور ایک نظریاتی اور عملی نظام تجزیہ ضروری ہے۔ بطور ایک فکری تصور، اس کے پس منظر میں موجود اقدار لادینی ہیں، لیکن ان اقدار کے نتیجے میں جو سماجی اور معاشی ڈھانچے پیدا ہوئے، وہ ہماری روزمرہ زندگی میں سرایت کر چکے ہیں۔ جدید معاشرتی ادارے جیسے اسکول، ہسپتال، میڈیا، بینک اور ریاستی نظام سبھی سیکولر تصورات کی پیداوار ہیں۔

استعماری اثرات اور جدید اداروں کی تشکیل

استعماری طاقتوں کے ذریعے جدید دنیا میں جو ادارے متعارف کرائے گئے، وہ سیکولرزم کے عملی مظاہر ہیں۔ یہ ادارے آہستہ آہستہ ہمارے پرانے مذہبی اداروں کی جگہ لے چکے ہیں، اور ان کے بغیر آج زندگی کا تصور مشکل ہو چکا ہے۔

سیکولرزم پر لادینیت کے حکم کے عملی مسائل

سیکولرزم کو محض لادینی قرار دینا کافی نہیں، بلکہ اس کے فکری اور عملی پہلوؤں پر تفصیلی تنقید ضروری ہے۔ آج جب سیکولر نظام ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے، تو یہ سوال اہم ہو جاتا ہے کہ اس پر لادینیت کا حکم لگانے کے کیا عملی اثرات ہیں؟ کیا اس کے نتیجے میں ہم سیکولر معاشرتی نظام کا کوئی متبادل پیش کر سکتے ہیں؟

سیکولرزم کا دینی اور فکری رد

سیکولرزم کا رد صرف نعروں کے ذریعے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کی نظریاتی بنیادوں اور عملی ڈھانچوں کو سمجھیں اور سماجی علوم کی روشنی میں اس کا تجزیہ کریں تاکہ ان میں وہ ضروری تبدیلیاں لائی جا سکیں جو انہیں ہماری دینی اقدار سے ہم آہنگ کر سکیں۔

اسلام اور سیکولرزم کی بنیادی مخالفت

  • سیکولرزم مکمل طور پر مادی تصورِ حیات پر مبنی ہے۔
  • یہ بنیادی طور پر سیاسی اور سماجی نظام کی تنظیم کا ایک اصول ہے۔
  • اسلام اور سیکولرزم اپنے نظریات اور مطالبات میں ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔
  • عملی طور پر سیکولرزم ہمارے معاشرتی ڈھانچے کا حصہ بن چکا ہے، لیکن اس کو چیلنج کرنے کے لیے ہمیں نعرے بازی کے بجائے علمی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔

حقیقی فکری مزاحمت کی ضرورت

سیکولر فکر کے خلاف مزاحمت صرف اس وقت ممکن ہے جب ہم اس کے نظری پہلوؤں کو سمجھنے اور ان کا علمی رد کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے بغیر سیکولرزم کے خلاف کسی قسم کی مؤثر دینی مزاحمت ممکن نہیں ہوگی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1