تعارف
ہمارے دیسی سیکولر حضرات مذہب کو اجتماعی زندگی سے الگ رکھنے کے لیے چند عمومی دلائل پیش کرتے ہیں، جو سطحی نظر میں تو "علمی” معلوم ہوتے ہیں، مگر حقیقت میں یا تو سیکولرازم کی غلط تفہیم یا کذب بیانی پر مبنی ہیں۔ اس مضمون میں ان دلائل کا تجزیہ کیا گیا ہے اور دکھایا گیا ہے کہ یہ اعتراضات، جنہیں مذہب کے خلاف پیش کیا جاتا ہے، خود سیکولر نظریات میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔
1. کون سا اسلام؟
اعتراض:
یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسلامی احکامات کی تشریح میں مولویوں کے اختلافات کے باعث اسلام کو اجتماعی زندگی سے الگ رکھنا چاہیے، کیونکہ ان اختلافات کے ہوتے ہوئے کوئی اجتماعی نظام قائم نہیں کیا جا سکتا۔
جواب:
اسلامی احکامات کی تشریح میں اختلاف کوئی نئی بات نہیں ہے۔ قرون اولیٰ سے لے کر آج تک یہ اختلافات موجود رہے ہیں، لیکن مسلمانوں نے تیرہ سو سال تک کامیابی سے حکومتیں چلائیں۔
اگر اختلافات اجتماعی نظام کے لیے رکاوٹ ہوں، تو یہی اصول زندگی کے دیگر شعبہ جات پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے، جیسے:
➊ ماہرین معاشیات کا اختلاف کہ زری اور مالیاتی پالیسی کیسے بنائی جائے۔
➋ ماہرین طب کا بیماریوں کی تشخیص اور علاج پر اختلاف۔
➌ ماہرین قانون کا آئینی شقوں کی تشریح پر اختلاف۔
اگر ان شعبوں میں اختلافات کے باوجود ان کا ادارہ جاتی نظام قائم ہے، تو مذہبی اختلافات کو نظام میں رکاوٹ کہنا محض بہانہ ہے۔
نتیجہ:
یہ اعتراض دراصل دین سے فرار کا بہانہ ہے۔ اگر نیت ٹھیک ہو تو اختلافات کے باوجود نظام چلایا جا سکتا ہے، جیسا کہ تاریخ نے بارہا ثابت کیا ہے۔
2. مولوی لڑتے ہیں، ہم نہیں
اعتراض:
یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مذہبی لوگ اختلافات کے نتیجے میں ایک دوسرے کو کافر کہتے اور لڑتے ہیں، جبکہ سیکولر اور عقلی نظام میں ایسا نہیں ہوتا۔
جواب:
سیکولر اور لبرل نظریات کے حاملین خود بھی اختلافات کے نتیجے میں شدید جنگ و جدل اور تنازعات کا شکار رہے ہیں، جیسے:
➊ مارکسزم کے بانی مارکس کو لبرلز نے مسترد کیا اور اس کی تحقیر کی۔
➋ نطشے کو پاگل اور یہودی کہہ کر مسترد کیا گیا۔
➌ لینن اور ماؤ نے قوم پرستوں اور لبرلز کے خلاف شدید کارروائیاں کیں۔
➍ جرمنی کے نسل پرستوں نے ان نظریات کے حاملین کے ساتھ بدترین سلوک کیا۔
➎ استعمار اور نوآبادیاتی نظام نے لاکھوں انسانوں کی جان لی۔
لبرلز کے مختلف "فرقے” جیسے لبرلزم، کمیونزم، قوم پرستی، فیمینزم، اور پوسٹ ماڈرنزم، آزادی کی تشریح میں ایک دوسرے سے سخت اختلاف رکھتے ہیں اور ان اختلافات نے جنگ و جدل کی تاریخ کو جنم دیا ہے۔
نتیجہ:
یہ کہنا کہ "مولوی لڑتے ہیں اور ہم نہیں”، محض ایک فریب ہے۔ اختلافات ہر نظریے اور نظام میں موجود ہیں اور سیکولر نظریات کی تاریخ بھی خونی جنگوں سے بھری پڑی ہے۔
3. سیکولر ریاست خیر کے معاملے میں غیرجانبدار ہے
اعتراض:
سیکولر ریاست کو غیرجانبدار کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا کوئی اخلاقی ایجنڈا نہیں ہوتا اور یہ تمام مذاہب کا فروغ ممکن بناتی ہے۔
جواب:
سیکولر ریاست کے "غیرجانبدار” ہونے کا دعویٰ حقیقت سے دور ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ:
➊ سیکولر ممالک نے اپنے "اخلاقی ایجنڈا” کے تحت دیگر ممالک پر حملے کیے اور انہیں اپنے نظام کے تابع کرنے کی کوشش کی، جیسے نوآبادیاتی نظام اور گلوبلائزیشن کے نام پر۔
➋ سیکولر نظریات کے حاملین خود "آزادی” کی تشریح پر متفق نہیں۔ ان میں انارکزم، کمیونزم، نیشنل ازم، اور لبرلزم جیسے متعدد متصادم نظریات پائے جاتے ہیں۔
اگر مذہبی اختلافات کے باعث مذہب کو اجتماعی نظام سے الگ کرنا ضروری ہے، تو سیکولر نظریات کے اختلافات کو بھی اسی اصول پر پرکھا جانا چاہیے۔
نتیجہ:
سیکولر ریاست کا "غیرجانبدار” ہونے کا دعویٰ محض ایک نظریاتی فریب ہے۔ سیکولر نظام خود ایک "اخلاقی ایجنڈا” رکھتا ہے، جسے یہ دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
4. عقل پر مبنی نظام ڈاگمیٹک نہیں ہوتا
اعتراض:
یہ کہا جاتا ہے کہ عقلی نظام مذہب کی طرح ڈاگمیٹک نہیں، بلکہ یہ لچکدار اور تبدیلی کے قابل ہے۔
جواب:
سیکولر نظریات بھی "ڈاگمیٹک” ہیں، کیونکہ ان کے ماننے والے اپنی تشریحات کو حتمی اور درست سمجھتے ہیں اور ان سے اختلاف کرنے والوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
یہ نظریات بھی مختلف عقلی تشریحات میں الجھے ہوئے ہیں، جیسے:
➊ "آزادی” کی مختلف تشریحات: انارکزم، لبرلزم، کمیونزم وغیرہ۔
➋ "انسانی حقوق” کا یکساں اصول آج تک سیکولر نظریات کے اندر طے نہیں ہو سکا۔
نتیجہ:
عقلی نظام کے "غیرڈاگمیٹک” ہونے کا دعویٰ خود ایک مغالطہ ہے۔ اختلافات اور تنازعات ہر نظام کا حصہ ہیں۔
نتیجہ اور اختتام
سیکولرازم کے حق میں پیش کیے جانے والے اکثر دلائل حقیقت سے کوسوں دور ہیں۔ مذہبی اختلافات کو بنیاد بنا کر اسلام کو اجتماعی زندگی سے الگ کرنے کی کوشش دراصل اسلام سے بغض کا اظہار ہے، کیونکہ یہی دلائل جب سیکولر نظریات پر لاگو کیے جاتے ہیں تو وہ بھی انہی مسائل کا شکار نظر آتے ہیں۔