سیکولرازم کی حقیقت: خورشید ندیم کے مؤقف پر تنقیدی جائزہ
خورشید ندیم کا مؤقف: نیا سیکولرازم ترتیب دینے کی تجویز
خورشید ندیم صاحب نے اپنے کالم "سیکولرازم کیا ہے؟” میں یہ مؤقف اپنانے کی کوشش کی ہے کہ سیکولرازم ایک یکساں نظریہ نہیں بلکہ مختلف اقسام میں موجود ہے۔ انہوں نے پاکستانی مفکرین سے مطالبہ کیا کہ وہ مقامی حالات کے مطابق ایک "نیا سیکولرازم” ترتیب دیں۔ تاہم، ڈاکٹر زاہد مغل کے مطابق، خورشید ندیم کا کالم فکری الجھنوں اور غلط مثالوں پر مشتمل ہے، جنہیں واضح کرنے کے لیے تفصیلی وضاحت کی ضرورت ہے۔
سیکولرازم کی بنیادی حقیقت
خورشید ندیم صاحب نے اپنے کالم میں سیکولرازم کی اصل بنیاد یعنی اس کے جوہر کو واضح نہیں کیا۔ انہوں نے اصطلاحات کی وضاحت کے لیے ایک نیا اصول بیان کیا کہ ڈکشنری یا اہل علم کی رائے سے زیادہ، اصطلاح کے معانی کا تعین عوامی تعامل پر منحصر ہوتا ہے۔
خورشید ندیم کا مؤقف:
ان کے مطابق، اسلام، سوشل ازم یا سیکولرازم جیسے تصورات کو سمجھنے کے لیے عوامی تعامل زیادہ اہم ہے، نہ کہ ماہرین کے علمی مباحث۔
تنقید:
یہ موقف غیر علمی ہے، کیونکہ علمی دنیا میں اصطلاحات کے معنی ماہرین اور اہل علم کے تعامل سے طے کیے جاتے ہیں، نہ کہ عوام کی رائے سے۔ خورشید صاحب نے یہ مؤقف دراصل اپنی ذاتی تعبیرات کو پیش کرنے کے لیے اپنایا تاکہ وہ سیکولرازم کی نئی تشریح پیش کر سکیں۔ حالانکہ مغربی مفکرین سیکولرازم کے جوہر پر واضح اور متفق ہیں۔
سیکولرازم کا اصل جوہر
سیکولرازم کا بنیادی اصول یہ ہے کہ زندگی کے اہم معاملات، خواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی، ان کا فیصلہ کسی مذہبی روایت یا کتاب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک مخصوص عقلی و قانونی فریم ورک پر کیا جائے گا۔ یہ فریم ورک لبرل ازم کے زیرِ اثر تشکیل پانے والے ہیومن رائٹس پر مبنی ہوتا ہے۔
فرد کے حقوق اور ریاست کا کردار:
- سیکولرازم میں فرد کے حقوق و فرائض کا تعین ہیومن رائٹس کے اصولوں پر ہوتا ہے۔
- ریاست کا بنیادی کردار ان حقوق کی حفاظت اور نفاذ ہے۔
- یہ اصول مغرب اور مشرق دونوں جگہ یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے، جس میں کوئی فرق نہیں ہے۔
یورپ اور امریکہ کا سیکولرازم: کیا دونوں مختلف ہیں
خورشید ندیم کی رائے:
خورشید ندیم کے مطابق:
- یورپ نے مذہب اور ریاست کو الگ کر دیا۔
- امریکہ میں فرد اور ریاست کے حقوق کی کشمکش جاری رہی۔
تنقید:
ان کا تجزیہ اس بنیادی نکتے سے خالی ہے کہ دونوں خطوں میں سیکولرازم کے فیصلے کی بنیاد ایک ہی ہے، یعنی ریاست اور فرد کے تعلقات کا تعین ہیومن رائٹس کے اصولوں پر ہوتا ہے۔
حقیقت:
مذہب کو ریاست سے الگ کرنا اور فرد و ریاست کے درمیان حقوق کی کشمکش سیکولرازم کی بنیادی صفات ہیں، جو ہر سیکولر معاشرے میں موجود ہوتی ہیں۔ خورشید صاحب نے ان داخلی مباحث کو دو مختلف اقسام کے سیکولرازم کے طور پر پیش کیا، جو درحقیقت ایک فکری مغالطہ ہے۔
مسلم دنیا میں سیکولرازم کی حقیقت
مسلم ممالک میں سیکولرازم کی ایک منفرد شکل کو بعض لوگ "مذہبی سیکولرازم” کہتے ہیں۔
اصل حقیقت:
یہ صرف اس بات کی کوشش ہے کہ ہیومن رائٹس اور اسلامی شریعت کے درمیان جہاں اختلاف ہو، وہاں دونوں کو ہم آہنگ کیسے بنایا جائے؟
مسلم دنیا میں متجددین اور مفکرین، خصوصاً اصحاب المورد، اسی مقصد کے تحت "متبادل بیانیہ” پیش کر رہے ہیں۔
چیلنج:
مسلم معاشروں میں زندگی کے ہر معاملے میں شرعی قانون کو بنیاد تسلیم کرنے کی پرانی روایت موجود ہے، جسے سیکولرازم قبولیت دلانے کے لیے یہ باور کروایا جاتا ہے کہ شریعت اور ہیومن رائٹس میں کوئی تضاد نہیں بلکہ شریعت کی تشریح ہیومن رائٹس کے مطابق کی جا سکتی ہے۔
خورشید ندیم کی فکر کے بنیادی مسائل
ریاست کا غیر اقداری تصور:
خورشید ندیم ریاست کو ایک ٹیکنیکل اور غیر اقداری وجود کے طور پر دیکھتے ہیں، حالانکہ یہ تصور فکری طور پر ناقص ہے۔
غامدی صاحب کا تصور دین:
ان کی فکر پر جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور دین کا گہرا اثر ہے، جو زندگی کے بیشتر معاملات میں سیکولرائزیشن کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
نتیجہ:
خورشید ندیم کا تجزیہ علمی بنیادوں پر کمزور ہے، اور انہوں نے سیکولرازم کے جوہر کو نظر انداز کرتے ہوئے داخلی مباحث کو اقسام کا فرق قرار دے دیا۔ سیکولرازم کا بنیادی اصول ہر جگہ ایک ہی ہے، اور اس کا کوئی نیا مقامی ورژن ترتیب دینا درحقیقت اسلامی اصولوں سے دوری کا راستہ ہموار کرتا ہے۔