سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بہادری کا اعتراف ہر مومن کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بے پناہ طاقت اور شجاعت عطا فرمائی تھی، اور وہ بجا طور پر "شیر خدا” کے لقب سے مشہور تھے۔ سچائی پر مبنی کردار کو کسی غیر ضروری یا مبالغہ آمیز تعریف کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن تاریخ میں ہمیشہ سے کچھ لوگ اپنی پسندیدہ شخصیات کے متعلق غلط اور من گھڑت قصے گھڑتے رہے ہیں۔ اس طرح کے واقعات ان کی حقیقی شخصیت کو اجاگر کرنے کے بجائے بعض اوقات لوگوں کے ذہنوں میں غلط تصورات پیدا کر دیتے ہیں۔
اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی ایک مشہور واقعہ ہے کہ انہوں نے خیبر کے دروازے کو اکیلے اٹھا کر پھینک دیا تھا، جبکہ اسے بہت سے لوگ مل کر بھی نہیں اٹھا سکتے تھے۔ یہ واقعہ نہ صرف غیر ثابت شدہ اور غیر معتبر ہے، بلکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ایک ما فوق الفطرت مخلوق کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے، جو حقیقت سے کوسوں دور ہے۔
روایات کا تحقیقی جائزہ
اس بارے میں چار روایات ملتی ہیں، تین اہل سنت کی کتب میں اور ایک روافض کی کتب میں۔ آئیے ان روایات کا اصولِ محدثین کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں۔
روایت نمبر 1: سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ سے منسوب
یہ روایت بیان کرتی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خیبر کی جنگ میں تھے جب ایک یہودی کے وار سے ان کی ڈھال گر گئی۔ انہوں نے قلعہ کا دروازہ اکھیڑ کر اس سے ڈھال کا کام لیا اور فتح حاصل ہونے تک اس دروازے کو اپنے ہاتھ میں پکڑے رکھا۔ بعد ازاں جنگ کے بعد سات آدمی مل کر بھی اس دروازے کو ہلانے میں ناکام رہے۔
سند کی حیثیت
یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ اس کی سند میں بعض افراد "مبہم” اور "مجہول” ہیں۔ شریعت کے اصول کے مطابق نامعلوم افراد سے دین کو اخذ نہیں کیا جا سکتا۔
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اسے امام احمد نے روایت کیا ہے، اور اس میں ایک ایسا راوی ہے جس کا نام ذکر نہیں کیا گیا” (مجمع الزوائد: 6/152)۔
اسی طرح، دلائل النبوۃ کی سند میں عبداللہ بن حسن کا واسطہ گرنے کے باعث حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس روایت میں جہالت اور واضح انقطاع موجود ہے” (البدایۃ والنہایۃ: 4/191)۔
روایت نمبر 2: سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے منسوب روایت
یہ روایت بیان کرتی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خیبر کے دن قلعے کا دروازہ اٹھایا، جس سے مسلمانوں نے چڑھائی کی اور قلعہ فتح کر لیا۔ بعد میں یہ تجربہ کیا گیا کہ اس دروازے کو چالیس افراد ہی اٹھا سکتے تھے۔
(مصنّف ابن ابی شیبہ: 12/84، تاریخ بغداد للخطیب: 1/324، تاریخ دمشق لابن عساکر: 42/111)
تبصرہ:
اس روایت کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں لیث بن ابی سلیم نامی راوی موجود ہے، جسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے اور اس کا حافظہ کمزور بتایا گیا ہے۔
حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جمہور محدثین نے اسے ضعیف کہا ہے” (المغني عن حمل الأسفار: 2/187، تخریج أحادیث الإحیاء للحداد: 1648)۔
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اکثر محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے” (مجمع الزوائد: 2/178)۔
حافظ نووی رحمہ اللہ نے لکھا: "جمہور محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے” (شرح مقدمۃ صحیح مسلم: 4)۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے مطابق: "میرے علم میں کسی نے اس کے ثقہ ہونے کی صراحت نہیں کی” (زوائد مسند البزّار: 2/403)۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس روایت کو "منکر” قرار دیا ہے (میزان الاعتدال: 3/113)۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس میں بھی کمزوری ہے” (البدایۃ والنہایۃ: 4/191)۔
روایت نمبر 3: سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے منسوب روایت
اس روایت میں بیان ہے کہ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ خیبر کے قلعہ کے قریب پہنچے تو انہوں نے ایک دروازہ اکھیڑ کر زمین پر پھینک دیا۔ بعد ازاں ہم میں سے ستر آدمیوں نے بڑی کوشش سے اس دروازے کو واپس اپنی جگہ پر رکھا۔
(دلائل النبوۃ للبیہقی: 4/212، المقاصد الحسنۃ للسخاوی: 313)
تبصرہ:
یہ روایت سخت ترین ضعیف ہے، کیونکہ اس کی سند میں حرام بن عثمان نامی راوی موجود ہے، جو جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف اور ناقابل اعتماد ہے۔
امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام یعقوب بن سفیان فسوی، امام دارقطنی، امام ابن حبان، امام ابن سعد، امام یحییٰ بن معین اور علامہ جوزجانی رحمہم اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ بالاتفاق متروک اور بدعتی راوی ہے” (دیوان الضعفاء: 859)۔
خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف کہا ہے،
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے (البدایۃ والنہایۃ: 4/191)۔
نوٹ:
دلائل النبوۃ بیہقی میں اس روایت میں ستر کی بجائے چالیس مردوں کا ذکر ہے، لیکن دونوں صورتوں میں سند کی کمزوری اور راوی کی غیر ثقاہت کی بنا پر اس روایت کو قابل اعتماد نہیں سمجھا جا سکتا۔
روایت نمبر 4: امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے منسوب روایت
اس روایت میں امام جعفر صادق رحمہ اللہ اپنے آبا سے نقل کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سہل بن حنیف کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے خیبر کے دروازے کو اکھیڑنے کے واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: "اللہ کی قسم! میں نے خیبر کے دروازے کو نہ تو جسمانی قوت کی بنا پر اکھاڑا، نہ خوراک کی طاقت سے، بلکہ یہ ایک ملکوتی اور نورانی قوت تھی جو میرے رب نے مجھے عطا کی تھی۔ میری نسبت احمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ویسی ہے جیسے روشنی کی روشنی سے ہوتی ہے۔”
(بحار الأنوار للمجلسی الرافضی: 21/26)
تبصرہ:
یہ روایت جھوٹ کا پلندہ ہے اور سند کے اعتبار سے ناقابل قبول ہے۔ اس کے مختلف راوی اور سند میں موجود خامیوں کی بناء پر اسے غیر معتبر سمجھا جاتا ہے:
-
◄ امام جعفر کے آبا مجہول اور نامعلوم ہیں۔
◄ محمد بن محصن اسدی عکاشی کو محدثین نے غیر ثقہ، منکر الحدیث، متروک، کذاب، اور وضاع قرار دیا ہے۔
◄ یونس بن ظبیان کے حالات زندگی اہل سنت کی کتب سے نہیں مل سکے، اور شیعہ کتب رجال میں بھی اس پر جرح موجود ہے۔
◄ علی بن احمد بن موسیٰ بن عمران دقاق کی توثیق نہ اہل سنت اور نہ ہی شیعہ کتب رجال میں مل سکی۔
◄ محمد بن ہارون مدنی بھی مجہول ہے۔
◄ ابو بکر عبیداللہ بن موسیٰ خباز حبال طبری کی بھی توثیق نہیں ملتی، لہٰذا یہ بھی مجہول ہے۔
محدثین کے اقوال:
علامہ مقریزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "بعض محدثین کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خیبر کا دروازہ اٹھانے کے واقعے کی کوئی حقیقت نہیں” (إمتاع الأسماع: 1/310)۔
علامہ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس بارے میں تمام روایات ضعیف ہیں، اور بعض علماء نے اس واقعے کو منکر قرار دیا ہے” (المقاصد الحسنۃ: 313)۔
خلاصہ:
یہ روایت سند کے لحاظ سے ناقابل قبول اور ضعیف ہے۔ معتبر اور صحیح سندوں سے خیبر کے دروازے کا واقعہ ثابت نہیں ہوتا۔