نبی کریم ﷺ نے سیدنا حسن بن علیؓ اور سیدنا حسین بن علیؓ کے بارے میں فرمایا: "ھما ریحانتاي من الدنیا” وہ دونوں دنیا میں سے میرے دو پھول ہیں ۔ (صحیح البخاری : ۳۷۵۳)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((حسین مني و أنا من حسین، أحبّ اللہ من أحبّ حسیناً، حسین بن سبط من الأسباط)) حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ۔ اللہ اس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرتا ہے، حسین میری نسلوں میں سے ایک نسل ہے ۔ (سنن الترمذی : ۳۷۷۵، وقال : ھذا حدیث حسن، مسند احمد ۱۷۲/۴ ، ماہنامہ الحدیث: ۲۴ص ۴۸ ، یہ روایت حسن لذاتہ ہے )
سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ جب یہ (مباہلے والی) آیت ﴿نَدعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَکُمْ﴾اور (مباہلے کے لئے) اپنے بیٹے بلاؤ۔ (آلِ عمران: ۱۶)نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) کو بلایا اور فرمایا : ((اَللّٰھُمَّ ھؤلاء أھلي))اے اللہ ! یہ میرے اہل (بیت) ہیں۔(صحیح مسلم : ۲۴۰۲/۳۲ و ترقیم دارالسلام : ۶۲۲۰)
سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک دن صبح کو نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ کے جسم مبارک پر اونٹ کے کجاوں جیسی دھاریوں والی ایک اونی چادر تھی تو حسن بن علی (رضی اللہ عنہما) تشریف لائے، آپ نے انھیں چادر میں داخل کرلیا۔ پھر حسین (رضی اللہ عنہ) تشریف لائے، وہ چادر کے اندر داخل ہوگئے ۔ پھر فاطمہ (رضی اللہ عنہا) تشریف لائیں تو انھیں آپ نے چادر کے اندر داخل کرلیا، پھر (علی رضی اللہ عنہ) تشریف لائے تو انھیں (بھی) آپ نے چادر کے اندر داخل کرلیا۔
پھر آپﷺ نے فرمایا :﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا﴾
اے اہلِ بیت اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے پلیدی دور کردے اور تمہیں خوب پاک صاف کردے۔ [الاحزاب:۳۳]
(صحیح مسلم: ۲۴۲۲/۶۱ و دارالسلام: ۶۲۶۱)
سیدنا زید بن ارقمؓ نے فرمایا:”نساؤہ من أھل بیتہ و لکن أھل بیتہ من حرم الصدقۃ بعدہ"آپ(ﷺ) کی بیویاں آپ کے اہلِ بیت میں سے ہیں لیکن (اس حدیث میں) اہلِ بیت سے مراد وہ ہیں جن پر آپ کے بعد صدقہ (لینا) حرام ہے یعنی آلِ علی، آلِ عقیل ، آلِ جعفر اور آلِ عباس (صحیح مسلم: ۲۴۰۸ و ترقیم دارالسلام: ۶۲۲۵)
سیدنا واثلہ بن الاسقعؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی دائیں طرف فاطمہ کو اور بائیں طرف علی کو بٹھایا اور اپنے سامنے حسنؓ و حسینؓ کو بٹھایا (پھر) فرمایا: ﴿اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا ﴾ اے اہلِ بیت اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے پلیدی دور کردےاور تمہیں خوب پاک و صاف کردے۔ (الاحزاب: ۳۳)اے اللہ ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔
(صحیح ابن حبان، الاحسان : ۶۹۷۶/۶۹۳۷، الموارد : ۲۲۴۵، و مسند احمد ۱۰۷/۴ و صححہ البیہقی ۱۵۲/۲ و الحاکم ۱۴۷/۳ ح ۴۷۰۶ علیٰ شرط الشیخین و وافقہ الذہبی علیٰ شرط مسلم و الحدیث سندہ صحیح)
سیدہ ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے علیؓ، فاطمہؓ، حسنؓ اور حسینؓ کے بارے میں فرمایا: "اللھم ھؤلاء أھل بیتي” اے میرے اللہ ! یہ میرے اہلبیت ہیں۔ (المستدرک ۴۱۶/۲ ح ۳۵۵۸ و سندہ حسن و صححہ الحاکم علیٰ شرط البخاری) مسند احمد (۲۹۲/۶ ح ۲۶۵۰۸ ب ) میں صحیح سند سے اس حدیث کا شاہد (تائیدی روایت) موجود ہے ۔ سیدنا علیؓ، سیدہ فاطمہؓ، سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کے اہلِ بیت میں ہونے کے بیان والی حدیث عمر بن ابی سلمہؓ (ترمذی: ۳۷۸۷ و سندہ حسن) سے مروی ہے ۔
سیدہ ام سلمہؓ کی ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ام سلمہ کو فرمایا :”أنت من أھلي” تو میرے اہل (بیت) سے ہے ۔ (مشکل الآثار للطحاوی / تحفۃ الاخیار ۴۷۱/۸ ح ۶۱۴۷ و سندہ حسن)
مختصر یہ کہ سیدنا علیؓ، سیدنا حسینؓ اور سیدنا حسنؓ کا اہلِ بیت میں سے ہونا صحیح قطعی دلائل میں سے ہے ، اس کے باوجود بعض بدنصیب حضرات ناصبیت کا جھنڈا اُٹھائے ہوئے یہ کہہ دیتے ہیں کہیہ اہلبیت میں سے نہیں ہیں۔
!!نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ((الحسن و الحسین سیدا شباب أھل الجنۃ)) حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ (مسند احمد ۳/۳ ح ۱۰۹۹۹ عن ابی سعید الخدریؓ و سندہ صحیح، النسائی فی الکبریٰ : ۸۵۲۵و فی خصائص علی: ۱۴۰)
سیدنا حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس فرشتے (جبریل )نے مجھے خوشخبری دی کہ "وأن الحسن و الحسین سیّدا شباب أھل الجنۃ” اور بے شک حسن و حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہما)اہلِ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں ۔ (ترمذی: ۳۷۸۱ و اسنادہ حسن، وقال الترمذی: "حسن غریب” و صححہ ابن حبان، الموارد: ۲۲۲۹ و ابن خزیمہ : ۱۱۹۴ و الذہبی فی تلخیص المستدرک ۳۸۱/۳)
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((الحسن و الحسین سیدا شباب أھل الجنۃ و أبوھما خیر منھما)) حسن اور حسین اہلِ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں اور ان کے ابا (سیدنا علیؓ) ان دونوں سے بہتر ہیں۔ (المستدرک للحاکم ۱۶۷/۳ ح ۴۷۷۹ و سندہ حسن، و صححہ الحاکم و وافقہ الذہبی) "سیدا شباب أھل الجنۃ” والی حدیث متواتر ہے۔ (نظم المتناثر من الحدیث المتواتر ص ۲۰۷ ح : ۲۳۵، قطف الازہار المتناثرہ فی الاخبار المتواترہ للسیوطی ص ۲۸۶ ح : ۱۰۵، لقط اللآلی المتناثرہ فی الاحادیث المتواترہ للزبیدی ص ۱۴۹ ح: ۴۵)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ((ھذان ابناي و ابنا ابنتي، اللھم إنّي أحبھما فأحبھما وأحبّ من یحبّھما)) یہ دونوں (حسن و حسین) میرے بیٹے اور نواسے ہیں، اے میرے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت کر اور جو ان سے محبت کرے تو اس سے محبت کر۔
(الترمذی : ۳۷۶۹ و سندہ حسن وقال:”ھذا حدیث حسن غریب” فیہ موسیٰ بن یعقوب الزمعی حسن الحدیث و ثقہ الجمہور)
عطاء بن یسار (تابعی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں ایک آدمی (صحابی) نے بتایا: انہوں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو سینے سے لگا کر فرما رہے تھے : ((اللھم إني أحبھما فأحبھما)) اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو (بھی) ان دونوں سے محبت کر۔ (مسنداحمد ۳۶۹/۵ ح ۲۳۱۳۳ و سندہ صحیح)
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((أحبوا اللہ لما یغذوکم من نعمہ، وأحبوني بحب اللہ، وأحبوا أھل بیتي لحبي)) اللہ تمہیں جو نعمتیں کھلاتا ہے ان کی وجہ سے اللہ سے محبت کرو اور اللہ کی محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کی وجہ سے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔
(الترمذی : ۳۷۸۹ وسندہ حسن، وقال الترمذی:”حسن غریب” و صححہ الحاکم ۱۵۰/۳ ح ۴۷۱۶ و وافقہ الذہبی وقال المزی : "ھذا حدیث حسن غریب” / تہذیب الکمال ۱۹۹/۱۰ ، عبداللہ بن سلیمان النوفلی و ثقہ الترمذی و الحاکم و الذہبی فھو حسن الحدیث )
سیدنا الامام ابوبکر الصدیقؓ نے فرمایا: "ارقبوا محمدًا ﷺ في أھل بیتہ"محمد ﷺ کے اہلِ بیت (سے محبت) میں آپ کی محبت تلاش کرو۔ (صحیح البخاری: ۳۷۵۱)
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ((من أحبھما فقد أحبني ومن أبغضھما فقد أبغضني)) جس شخص نے ان (حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما) سے محبت کی تو یقیناً اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض کیا تو یقیناً اس نے مجھ سے بغض کیا۔ (مسند احمد ۴۴۰/۲ ح ۹۶۷۳ و فضائل الصحابۃ لاحمد: ۱۳۷۶ و سندہ حسن ،و صححہ الحاکم ۱۶۶/۳ ح ۴۷۷۷ ووافقہ الذہبی/ عبدالرحمٰن بن مسعود الیشکری و ثقہ ابن حبان ۱۰۶/۵ والحاکم والذہبی وقال الہیثمی فی مجمع الزوائد ۲۴۰/۵ :”وھو ثقۃ” فحدیثہ لا ینزل عن درجۃ الحسن)
اس روایت کو دوسری جگہ حافظ ذہبی نے قوی قرار دیا ہے ۔ (دیکھئے تاریخ الاسلام ۹۵/۵ وقال : "وفی المسند یاسناد قوي”)
ایک دفعہ نبی کریم ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ حسن اور حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہما)تشریف لے آئے تو آپ منبر سے اتر گئے اور انہیں پکڑ کر اپنے سامنے لے آئے ، پھر آپ نے خطبہ شروع کردیا۔ (الترمذی: ۳۷۷۴ و سندہ حسن، ابو داود :۱۱۰۹، النسائی ۱۰۸/۳ ح ۱۴۱۴، وقال الترمذی:”ھذا حدیث حسن غریب” وصححہ الطبری فی تفسیرہ ۸۱/۲۸ و ابن خزیمہ: ۱۴۵۶، ۱۸۰۱ و ابن حبان، موارد الظمآن: ۲۲۳۰ و الحاکم ۲۸۷/۱ ، ۱۸۹/۴ و وادفقہ الذہبی، وقال الذہبی فی تاریخ الاسلام ۹۷/۵:”إسنادہ صحیح”)
سیدنا عمرو بن العاصؓ کعبے کے سائے تلے بیٹھے ہوئے تھے کہ حسین بن علی ؓ کو آتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے فرمایا :”ھذا احب أھل الأرض إلیٰ أھل السماء الیوم” یہ شخص آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب ہے ۔ (تاریخ دمشق ۱۸۱/۱۴ و سندہ حسن، یونس بن ابی اسحاق بریٔ من التدلیس کما فی الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین ۲/۶۶ ص ۴۸)