سیدنا عمر و بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: آپ سب سے زیادہ کس سے محبت کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ کے ابا(ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) سے۔ میں نے پوچھا : ان کے بعد کس سے زیادہ محبت کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر رضی اللہ عنہ سے۔ (صحیح بخاری: ۳۶۶۲و صحیح مسلم: ۲۳۸۴)
محمد بن علی بن ابی طالب عرف محمد بن الحنفیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ :
میں نے اپنے ابا(سیدنا علی رضی اللہ عنہ) سے پوچھا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کون سا آدمی سب سے بہتر (افضل) ہے؟ انہوں نے فرمایا: ابو بکر (رضی اللہ عنہ) میں نے کہا: پھر ان کے بعد کون ہے؟ انہوں نے فرمایا: عمر (رضی اللہ عنہ) (صحیح بخاری: ۳۶۷۱)
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا
‘‘اگر تم اللہ کے رسول کی مدد نہ کرو گے تو (کچھ پرواہ نہیں اللہ اس کا مددگار ہے) اس نے اپنے رسول کی مدد اس وقت کی تھی جب کافروں نے اسے (اس حال میں گھر سے ) نکالا تھا۔ جب کہ دو (آدمیوں) میں دوسرا وہ تھا(اور) دونوں غار(ثور) میں تھے(اور) وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا: غمگین نہ ہو، یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے۔’’
(سورۃ توبہ: ۴۰، الکتاب ص۱۱۷)
سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صحبت اور مال کے لحاظ سے ، ابو بکر کا مجھ پر سب سے زیادہ احسان ہے۔ اور اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابو بکر کو اپنا خلیل بناتا لیکن اسلام کا بھائی چارہ اور محبت کافی ہے۔ دیکھو! مسجد (نبوی) کی طرف تمام دروازے کھڑکیاں بن کر دو سوائے ابو بکر کے دروازے کے ۔(صحیح بخاری: ۳۶۵۴و صحیح مسلم: ۲۳۸۲)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ سے) پوچھا: آج کس نے روزہ رکھا ہے؟ ابو بکر نے فرمایا: میں نے آپ نے پوچھا : آج کون جنازے کے ساتھ گیا تھا؟ ابو بکر نے فرمایا : میں گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ آج کس نے کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟ ابو بکر نے فرمایا: میں نے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: آج کس نے کسی مریض کی بیمار پرسی کی ہے؟ ابو بکر نے فرمایا: میں نے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ما اجتمعن فی امری إلا دخل الجنۃ یہ چیزیں جس انسان میں جمع ہو جائیں وہ جنت میں داخل ہو گا۔(صحیح مسلم: ۱۰۲۸و بعد ح ۲۳۸۷)
سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں موجود تھے۔ ایک آدمی آیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: افتح لہ وبشرہ بالجنۃ اس کے لئے دروازہ کھول دو اور اسے جنت کی خوشخبری دے دو، یہ ابو بکر(الصدیق رضی اللہ عنہ) تھے جو باغ میں داخل ہو ئے تھے۔ (صحیح بخاری: ۳۶۹۳و صحیح مسلم: ۲۴۰۳)
ایک مشہور حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أبو بکر فی الجنۃ ابو بکر جنتی ہے۔
(سنن الترمذی: ۳۷۴۷و إسنادہ صحیح ، و صححہ ابن حبان الاحسان ۶۹۶۳)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، ابو بکر، عمر اور عثمان (رضی اللہ عنہم) احد پہاڑ پر چڑھے تو (زلزلے کی وجہ سے) پہاڑ ہلنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا پاؤں مار کر فرمایا: اثبت أحد، فإنما علیک نبی و صدیق و شھیدان، اے اُحد!رک جانا تیرے اوپر (اس وقت) صرف نبی، صدیق اور دو شہید موجود ہیں۔(صحیح بخاری: ۳۶۸۶)
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
لو وزن إیمان أبی بکر بإیمان أھل الأرض لرجح بہاگر ابو بکر(صدیق) کا ایمان اور زمین والوں کے ایمان کو باہم تولا جائے تو ابو بکر(رضی اللہ عنہ) کا ایمان بھاری ہو گا۔ (کتاب السنۃ لعبد اللہ بن احمد: ۸۲۱ و سندہ حسن، شعب الایمان للبیہقی: ۳۶ عقیدۃ السلف أصحاب الحدیث للصابونی ص ۷۰، ۷۱ ح ۱۱۰؍و فضائل ابی بکر لخیثمہ الاطرابلسی ص۱۳۳)
سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل بہت زیادہ ہیں جن کی تفصیل کا یہ مختصر مضمون متحمل نہیں ، امام اہل سنت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو ابو بکر و عمر و عائشہ (رضی اللہ عنہم اجمعین ) کو گالیاں دیتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: میں اسے اسلام پر یعنی مسلمان نہیں سمجھتا۔(السنۃ للخلال ص ۴۹۳ح ۷۷۹ و سند صحیح)
امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد (امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ) سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جو کسی صحابی کو گالی دیتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: میں ایسے شخص کو اسلام پر نہیں سمجھتا ہوں۔(السنۃ للخلال ح ۷۸۲ و سند ہ صحیح)
ثقہ فقیہ عابد تابعی امام مسروق بن الاجدع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:حب أ بی بکر و عمر و معرفۃ فضلھا من السنۃابو بکر و عمر(رضی اللہ عنہما) سے محبت اور ان کی فضیلت ماننا سنت ہے۔ (کتاب العلل و معرفۃ الرجال۱؍۱۷۷ح ۹۴۵ و سندہ حسن) شرح أصول اعتقادأ ھل السنۃ و الجماعۃ لللالکائی(۲۳۲۲)
امام ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین الباقر رحمہ اللہ نے فرمایا:
من جھل فضل أبی بکر و عمر رضی اللہ عنھما فقد جھل السنۃ
جس شخص کو ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے فضائل معلوم نہیں ہیں وہ شخص سنت سے جاہل ہے۔
(کتاب الشریعۃ للآجری ص ۸۵۱ ح ۸۰۳ او سندہ حسن)
امام جعفر بن محمد الصادق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
برئ اللہ ممن تبرأ من أبی بکر و عمر
اللہ اس شخص سے بَری ہے جو شخص ابو بکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) سے بَری ہے۔
(فضائل الصحابۃ للإمام أحمد ۱؍۱۶۰ ح ۱۴۳ او إسنادہ صحیح)
امام جعفر صادق فرماتے تھے کہ:اللھم إنی أحب أبا بکر و عمر و أتو لاھما، اللھم إن کان لی خلاف ھذا فلا نالتنی شفاعۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یوم القیامۃاے اللہ میں ابو بکر و عمر سے محبت کرتا ہوں، میں انہیں اپنا ولی مانتا ہوں۔ اے اللہ ۱ گر مجھ میں (یعنی میرے دل میں) اس کے خلاف کوئی بات ہوت و قیامت کے دن مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب نہ ہو۔(السنۃ للالکائی: ۲۴۶۶و سندہ حسن)
امام ابو اسحاق (السبیعی) رحمہ اللہ نےفرمایا:
بغض أبی بکر و عمر من الکبائر
ابو بکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) سے بغض کرنا کبیرہ گناہ (یعنی کفر ) ہے۔(فضائل الصحابۃ لعبد اللہ بن احمد ۱؍۲۹۴ح۳۸۵و سندہ حسن)
اے اللہ ! ہمارے دلوں کو سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی محبت سے بھر دے اور اس محبت کو اور زیادہ کر دے۔ آمین