سیدنا آدم علیہ السلام کے نبی کریم ﷺ کے وسیلے سے دعا کرنے والی روایت کا تحقیقاتی جائزہ
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد1، كتاب العقائد، صفحہ84

سوال:

ایک روایت میں آتا ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام نے نبی کریم ﷺ کے وسیلے سے دعا کی تھی۔

📖 (المستدرک للحاکم 2/615 ح 4228، دلائل النبوۃ للبیہقی 5/489)

ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب نے اس روایت کو ذکر کر کے لکھا ہے:

امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
📖 (الاربعین فی فضائل النبی الامین ص 55، طبع چہارم 2002ء)

کیا واقعی امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے؟

جواب:

الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

◈ یہ دعویٰ سراسر غلط ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

حقیقت:

حقیقت یہ ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس روایت کو نقل کر کے خود اس کے ضعف کی وضاحت کی ہے:

📖 "تفرد به عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، من هذا الوجه، وهو ضعيف”

"اس سند کے ساتھ عبدالرحمان بن زید بن اسلم کا تفرد ہے اور وہ ضعیف ہے۔”
📖 (دلائل النبوۃ 5/489)

لہذا، طاہر القادری صاحب کا یہ دعویٰ کہ "امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے” سراسر جھوٹ اور علمی خیانت ہے۔

امام حاکم رحمہ اللہ کی تصحیح اور اس کی حقیقت:

امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح الاسناد کہا، لیکن ان کے اس قول کی حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے تلخیص المستدرک میں تردید کی اور فرمایا:

📖 "بل موضوع”
"بلکہ یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے۔”

روایت کی سند میں ضعف اور موضوع ہونے کی وجوہات:

اس روایت کی سند میں دو راوی انتہائی ضعیف اور من گھڑت حدیث بیان کرنے والے ہیں:

➊ عبدالرحمان بن زید بن اسلم – محدثین کے نزدیک ضعیف اور منکر الحدیث ہے۔
➋ عبداللہ بن مسلم الفہری – یہ بھی ایک ضعیف راوی ہے۔

📖 شیخ البانی رحمہ اللہ نے اپنی تحقیق میں اس روایت کو موضوع (من گھڑت) قرار دیا ہے:
📖 (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ 1/38، 47، ح 25)

نتیجہ:

یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے، اس کا کوئی شرعی ثبوت نہیں۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے ہرگز اسے صحیح قرار نہیں دیا بلکہ اس کے ضعف کو واضح کیا ہے۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ اور دیگر محدثین نے اس روایت کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا اس روایت کو صحیح قرار دینا سراسر جھوٹ اور علمی خیانت ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1