سورۃ القارعہ کی تفسیر اور قیامت کے ہولناک مناظر
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

سورۃ القارعہ

مکی سورت ہے، جس میں 11 آیات ہیں۔ اس کا بنیادی موضوع قیامت کے ہولناک مناظر اور انسان کے انجام کی وضاحت ہے۔

آیات کی تفسیر

1. الْقَارِعَةُ ۝

"القارعہ” (دھماکہ خیز حادثہ) کیا ہے؟

تفسیر:

"القارعہ” قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔
"قرع” کا مطلب ہے کسی چیز کو زور سے بجانا یا شدت سے مارنا۔
قیامت کے دن آسمان پھٹ جائے گا، زمین لرزنے لگے گی، اور لوگ دہشت میں مبتلا ہوں گے۔

2. مَا الْقَارِعَةُ ۝ 3. وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْقَارِعَةُ ۝

"وہ (القارعہ) کیا ہے؟ اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ (قیامت) کیا چیز ہے؟”

تفسیر:

اللہ تعالیٰ قیامت کی شدت کو واضح کرنے کے لیے سوالیہ انداز میں فرما رہے ہیں تاکہ سننے والا متوجہ ہو جائے۔
"وَمَا أَدْرَاكَ” کا مطلب ہے کہ یہ ایک ایسا عظیم اور خوفناک واقعہ ہے، جس کی حقیقت کو تم نہیں جان سکتے، مگر اللہ ہی اسے بیان کرے گا۔

4. يَوْمَ يَكُونُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوثِ ۝

"جس دن لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے۔”

تفسیر:

پروانے روشنی کی طرف دیوانہ وار لپکتے ہیں اور بے ترتیبی سے اڑتے ہیں۔
قیامت کے دن بھی انسان حیران و پریشان ہو کر ادھر ادھر بھاگیں گے، کسی کو کوئی سمجھ نہیں ہوگی کہ کیا کرنا ہے۔
یہ منظر انسان کی بے بسی اور قیامت کے دن کی خوفناکی کو بیان کرتا ہے۔

5. وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنفُوشِ ۝

"اور پہاڑ دھنکی ہوئی رنگین اون کی طرح ہو جائیں گے۔”

تفسیر:

آج جو پہاڑ مضبوط اور سخت نظر آتے ہیں، قیامت کے دن وہ ہلکے، بکھرے ہوئے، اور ہوا میں اڑتی ہوئی دھول کی طرح ہو جائیں گے۔
"عِهْن” کا مطلب ہے رنگین اون، اور "المنفوش” کا مطلب ہے دھنی ہوئی یا بکھری ہوئی چیز۔

6. فَأَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَٰزِينُهُۥ ۝

"پھر جس کے (نیک اعمال کے) پلڑے بھاری ہوں گے۔”

تفسیر:

"مَوَازِينُ” سے مراد قیامت کے دن اعمال کو تولنے کے ترازو ہیں۔
نیک اعمال زیادہ ہونے کی وجہ سے جس کا ترازو بھاری ہوگا، وہ کامیاب ہوگا۔

7. فَهُوَ فِى عِيشَةٍۢ رَّاضِيَةٍ۝

"تو وہ خوشحال زندگی میں ہوگا۔”

تفسیر:

یہاں جنت کی پرمسرت، آرام دہ، اور دائمی زندگی کی بشارت دی گئی ہے۔
"رَاضِيَة” یعنی ایسی زندگی جس میں کوئی خوف، مایوسی، یا تکلیف نہیں ہوگی۔

8. وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَٰزِينُهُۥ ۝

"اور جس کے (نیک اعمال کے) پلڑے ہلکے ہوں گے۔”

تفسیر:

جن لوگوں کے نیک اعمال کم اور برے اعمال زیادہ ہوں گے، وہ نقصان میں ہوں گے۔
ان کا انجام انتہائی خوفناک ہوگا۔

9. فَأُمُّهُۥ هَاوِيَةٌ ۝

"تو اس کا ٹھکانا (گہری) ہاویہ (جہنم کی کھائی) ہوگی۔”

تفسیر:

"أُمُّهُ” کا مطلب ہے ماں، یعنی جس طرح ماں انسان کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے، اسی طرح جہنم ان بدبخت لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
"هَاوِيَةٌ” جہنم کے ایک ناموں میں سے ہے، جو انتہائی گہرائی اور شدید گرمی کو ظاہر کرتا ہے۔

10. وَمَا أَدْرَىٰكَ مَا هِيَهْ ۝

"اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ کیا چیز ہے؟”

تفسیر:

دوبارہ سوالیہ انداز میں جہنم کی ہولناکی اور شدت کو مزید نمایاں کیا جا رہا ہے۔

11. نَارٌ حَامِيَةٌ ۝

"وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہوگی۔”

تفسیر:

"حَامِيَةٌ” کا مطلب ہے انتہائی گرم اور دہکتی ہوئی آگ۔
یہ عام آگ نہیں، بلکہ وہ آگ ہے جو ناقابلِ برداشت عذاب کا سبب ہوگی۔

سورۃ القارعہ کا خلاصہ

قیامت ایک زبردست دھماکے اور خوفناک حادثے کی طرح ہوگی۔
اس دن انسان انتہائی بے بس ہوگا، پروانوں کی طرح بکھرا ہوگا۔
پہاڑ جو آج مضبوط ہیں، وہ روئی کی طرح اڑنے لگیں گے۔
اعمال کا وزن کیا جائے گا، جس کے نیک اعمال زیادہ ہوں گے، وہ جنت میں جائے گا۔
جس کے نیک اعمال کم ہوں گے، وہ جہنم کی گہری کھائی میں گرایا جائے گا۔

سبق اور نصیحت

قیامت کے دن نجات صرف نیک اعمال سے ہوگی، نہ کہ مال و دولت یا خاندان سے۔
دنیا میں اپنے اعمال کا محاسبہ کریں تاکہ میزانِ عمل بھاری ہو۔
جہنم کی ہولناکی سے بچنے کے لیے اللہ اور رسول ﷺ کے احکامات پر عمل کریں۔
یہ سورت ہمیں قیامت کی حقیقت اور اس دن کی تیاری کی یاد دلاتی ہے۔

دعا:

اللہ ہمیں اعمالِ صالحہ کی توفیق دے اور قیامت کے دن جنت میں داخل فرمائے۔ آمین!

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1