آیات کا ترجمہ
اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے ان مشرکین کے خلاف اعلانِ براءت ہے، جن سے بلا تعین مدت معاہدہ کیا گیا تھا:
"لہٰذا چار مہینے تک زمین میں آزادانہ گھومو، لیکن جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے، اور یقیناً اللہ کافروں کو رسوا کرے گا۔”
(التوبہ: 2)
"بڑے حج کے دن اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے اعلان ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ مشرکین سے بیزار ہیں۔ اگر تم توبہ کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اگر تم نے منہ موڑا تو جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے، اور ان کافروں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔”
(التوبہ: 3)
"جن مشرکین سے تم نے معاہدہ کیا، پھر انہوں نے کوئی خلاف ورزی نہ کی اور نہ تمہارے خلاف کسی دشمن کی مدد کی، ان کے معاہدے کی مدت پوری کرو۔ یقیناً اللہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔”
(التوبہ: 4)
"پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو جہاں پاؤ قتل کرو، انہیں پکڑو، گھیر لو اور ہر گھات میں ان کی تاک میں بیٹھو۔ لیکن اگر وہ توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ یقیناً اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔”
(التوبہ: 5)
ان آیات کے نزول کا پس منظر
اہم واقعات
➊ فتح مکہ (8 ہجری): مکہ کی فتح کے بعد مسلمانوں کا مکمل کنٹرول قائم ہو گیا، اور مشرکین کی طاقت کمزور پڑ گئی۔
➋ غزوہ حنین: فتح مکہ کے بعد ہوا، جس میں قبیلہ ہوازن اور ثقیف کو شکست دی گئی۔
➌ غزوہ تبوک (9 ہجری): رومیوں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے حضور ﷺ نے عرب کے شمال کی جانب لشکر کشی کی۔
➍ اعلان براءت (9 ہجری): حج اکبر کے موقع پر تمام مشرکین سے معاہدات ختم کرنے اور عرب کو دارالاسلام بنانے کا اعلان کیا گیا۔
حدیبیہ کا معاہدہ اور اس کی خلاف ورزی
➊ 6 ہجری میں صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوا، جس کی میعاد 10 سال تھی۔
➋ قریش مکہ کے حلیف قبیلہ بنی بکر نے مسلمانوں کے حلیف قبیلہ خزاعہ پر حملہ کیا اور قریش نے ان کی مدد کی، جس سے معاہدہ ٹوٹ گیا۔
➌ حضور ﷺ نے اس خلاف ورزی کے جواب میں مکہ پر لشکر کشی کی، جس کے نتیجے میں مکہ فتح ہوا۔
مشرکین کے مختلف گروہ
➊ عہد شکن مشرکین: وہ جنہوں نے حدیبیہ کے معاہدے کی خلاف ورزی کی (قریش مکہ)۔
➋ عہد کے پابند مشرکین: وہ جنہوں نے معاہدے کی پاسداری کی، جیسے بنی ضمرہ اور بنی مدلج۔
➌ بے معاہدہ مشرکین: جن سے کوئی معاہدہ نہ تھا۔
➍ غیر معینہ مدت والے معاہدہ کرنے والے مشرکین۔
احکام کی تفصیل
1. عہد شکن مشرکین (قریش مکہ)
چونکہ انہوں نے خود معاہدے کو توڑا، انہیں مزید مہلت دینے کی ضرورت نہ تھی۔
حکم: حرمت والے مہینوں کے اختتام پر یا تو وہ اسلام قبول کریں یا جزیرہ عرب چھوڑ دیں، ورنہ ان سے قتال کیا جائے گا۔
(التوبہ: 5)
2. عہد کے پابند مشرکین
جو معاہدے پر قائم رہے اور مسلمانوں کے خلاف کسی کی مدد نہ کی، ان کے معاہدے کو پورا کیا جائے گا۔
حکم: معاہدہ کی مدت ختم ہونے تک ان کے ساتھ صلح قائم رکھی جائے۔
(التوبہ: 4)
3. بے معاہدہ اور غیر معینہ مدت والے معاہدہ کرنے والے مشرکین
انہیں چار ماہ کی مہلت دی گئی کہ یا تو وہ اسلام قبول کریں یا عرب سے نکل جائیں۔
حکم: چار مہینے بعد ان سے قتال کیا جائے گا، اگر وہ اسلام قبول نہ کریں۔
(التوبہ: 2)
اعلان براءت اور اس کا اعلانِ عام
9 ہجری کے حج کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت علیؓ کو حج کے اجتماعات میں یہ اعلان کرنے کا حکم دیا گیا:
"اللہ اور اس کے رسول ﷺ مشرکین سے بیزار ہیں۔”
مشرکین کو چار ماہ کی مہلت دی گئی کہ وہ اپنا فیصلہ کر لیں۔
احکام کے نفاذ میں حکمت
➊ مہلت دینے کا کریمانہ سلوک: بغیر کسی انتقامی جذبے کے چار ماہ کی مہلت دی گئی تاکہ مشرکین امن و اطمینان کے ساتھ اپنا فیصلہ کر سکیں۔
➋ معاہدے کی پاسداری: جن مشرکین نے معاہدہ کی پاسداری کی، ان کے معاہدے کو ختم مدت تک نبھایا گیا۔
➌ دشمنوں سے محتاط رویہ: دشمنوں کی مسلسل عہد شکنی کے باعث ان کے ساتھ آئندہ کسی معاہدے سے گریز کیا گیا۔
آیات سے حاصل شدہ فوائد
➊ عفو و درگزر کا سبق: فتح مکہ کے موقع پر حضور ﷺ نے مشرکین کے ساتھ معجزانہ درگزر کا مظاہرہ کیا، جیسا کہ ارشاد فرمایا:
"آج تم پر کوئی ملامت نہیں۔”
(یوسف: 92)
➋ احتیاط کے تقاضے: عفو و درگزر کے باوجود دشمنوں کے شر سے حفاظت ضروری ہے، تاکہ دوبارہ نقصان نہ پہنچے۔
"عقلمند آدمی ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔”
(حدیث)
➌ اعلان عام کی ضرورت: کسی قوم سے جنگ یا علاقہ خالی کرانے سے پہلے واضح اعلان کیا جائے اور مناسب مہلت دی جائے۔
➍ معاہدے کی پاسداری: کسی معاہدے کو توڑنے سے پہلے میعاد ختم ہونے کا انتظار کیا جائے۔
➎ اصلاح کا دروازہ کھلا رکھنا: اگر مشرکین اسلام قبول کرنا چاہیں تو ان کے لیے راستے کھلے رکھے جائیں۔
➏ مسلمان ہونے کے تقاضے: اسلام قبول کرنے کے بعد نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی ضروری ہے، ورنہ محض کلمہ پڑھ لینا کافی نہیں۔
خلاصہ
فتح مکہ کے بعد اسلام کے دشمنوں کے ساتھ مختلف سلوک روا رکھا گیا۔ مشرکین کو ان کی عہد شکنی کی بنا پر چار ماہ کی مہلت دی گئی یا معاہدہ کی مدت کے خاتمے تک صلح برقرار رکھی گئی۔ اس حکمت عملی کا مقصد جزیرہ عرب کو مکمل طور پر دارالاسلام بنانا تھا، جبکہ اسلام قبول کرنے کے دروازے مشرکین کے لیے ہمیشہ کھلے رکھے گئے۔