سود کی ایک صورت
سوال: ایک آدمی کے بیٹے نے گاڑی خریدنے پر اصرار کیا تو وہ ایک کمپنی کے پاس گیا، انہوں نے اس سے نقد قیمت طلب کی جو اس کے پاس نہیں تھی، وہ واپس چلا گیا اور ایک دوسرے آدمی کو ساتھ لے کر آیا جو اس کے لیے گاڑی خریدنے کی ہامی بھرتا ہے، اس نے وہ گاڑی خریدی، اسے دکان سے نکالا، پھر اس آدمی کو کچھ اضافے کے ساتھ بیچ دی، اس کا کیا حکم ہے؟
یہ صورت اب آپ کے سامنے واضح ہے کہ ایک انسان کو گاڑی کی ضرورت پیش آئی، اس کے پاس نقدی نہیں، وہ ایک دوسرے آدمی کو لے کر آیا اور اس نے کہا: میں یہ گاڑی کمپنی سے نقد خریدتا ہوں اور تجھے اس قیمت سے زیادہ قیمت پر قسطوں پر بیچتا ہوں جس قیمت پر میں نے گاڑی خریدی ہے۔
جواب: یہ حرام ہے کیونکہ یہ سود کے لیے حیلہ ہے، کیونکہ یہ شخص جس نے یہ گاڑی خریدی ہے، پھر تجھے بیچی ہے، حقیقت میں اس نے تجھے فائدے کے ساتھ قرض دیا ہے، اس نے یہ کہنے کے بجائے کہ یہ اس کی قیمت لے، یہ کہا ہے کہ گویا یہ پچاس ہزار ہیں، جو ایک سال تک کے لیے ساٹھ ہزار کے بدلے مجھے دیتا ہوں، اس نے کہا: میں اسے خریدتا ہوں اور تجھے بیچتا ہوں، اگر تو نہ ہوتا تو وہ اسے خریدتا بھی نہیں، اور اگر وہ تجھ سے سود نہ کماتا تو پھر بھی اسے نہ خریدتا، لیکن یہ حقیقت میں سود ہے، شائد یہ حرکت اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینے پر مشتمل ہو، جب اللہ تعالیٰ نے صریح سود حرام کر دیا تو اس شخص نے حیلہ کرتے ہوئے صرف اس کی شکل تبدیل کر دی، صورت تبدیل کر دینا حرام چیز کو حلال نہیں
کر دیتا۔
یہ اصحاب سبت جن پر اللہ تعالیٰ نے ہفتے کے دن سمندر سے شکار کرنے پر پابندی لگائی، خدا تعالیٰ نے ان کو آزمانا چاہا اور ہفتے کے دن مچھلیاں اس قدر کثیر تعداد میں ہوئیں کہ وہ سطح آب پر آجاتیں، جبکہ ہفتے کے علاوہ دیگر دنوں میں نہ آتیں، یہ مدت ان کے لیے بڑی لمبی ہوگئی، انہوں نے سوچا کہ ہفتے کے دن ہمارے لیے شکار حرام ہے اور مچھلیاں ہیں کہ کسی دوسرے دن سطح پر آتی ہی نہیں، کوئی حیلہ جوئی کرو، انہوں نے جمعے کے دن جال پھینکنا شروع کر دیا، ہفتے کے روز مچھلیاں آتیں، ان جالوں میں پھنس جاتیں اور نکلنے نہ پاتیں، جب اتوار کا دن آتا وہ سارے آتے اور انہیں جالوں سے نکال کر لے جاتے۔
امر واقعی یہ ہے کہ وہ اتوار کے دن ہی شکار کرتے، ہفتے کے دن انہوں نے شکار نہیں کیا، یہ خود ہی آتیں اور جالوں میں پھنس جاتیں، نہ وہ انہیں خود لے کر آتے اور نہ انہیں شکار ہی کرتے، تو کیا ان کے اسے حیلے نے کچھ فائدہ دیا؟ ! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
و لقد علمتہ البنین اعتدوانگہ فی البی فقلنا لہم ونوا قردۃ خ ین [البقرة: 65]اور بلاشبہ یقیناً تم ان لوگون کو جان چکے ہو جو تم میں سے ہفتے (کے دن) میں حد سے گزر گئے تو ہم نے ان سے کہا: ”ذلیل بندر بن جاؤ۔“
انہیں اللہ تعالیٰ نے ہفتے کے دن زیادتی کرنے والا قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ وہ سب ذلیل اور رسوا شدہ بندر ہو جائیں کل جو بشر تھے آج وہ بندر بن گئے اور بندروں کی طرح آوازیں نکالنے لگے، کیونکہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیا کے متعلق حیلہ سازی کی۔ اسی وجہ سے ہمارے نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ یہودیوں کو برباد کرے، جب اللہ نے ان پر مردار کی چربی حرام کی تو انہوں نے چربی پگھلائی، پھر اسے بیچا اور پھر اس کی قیمت کھائی۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2236 صحيح مسلم 1581/71]
”مسند احمد میں ہے، جس کی سند کی بعض ائمہ نے تصحیح کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا ارتکا ب نہ کرو جس کا ارتکا ب یہود نے کیا، پھر تم اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیا کو چھوٹے چھوٹے حیلوں کے ساتھ حلال کرنے لگ جاؤ گے۔“ [ضعيف۔ غاية المرام، رقم الحديث 11]
یہ معاملہ جس کا آپ نے ذکر کیا ہے، بلاشبہ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں واضح طور پر سود کے لیے حیلہ جوئی ہے، لہٰذا یہ سود دینے والے اور لینے والے دونوں کے لیے حرام ہے، کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے، کھلانے، لکھنے اور اس پر دو گواہی دینے والوں پر لعنت کی ہے۔
حل:
حل یہ ہے کہ وہ دونوں ہی توبہ کریں، جس نے گاڑی خریدی پھر اس کو اضافے کے ساتھ بیچی، اس کی توبہ کی تکمیل اس طرح ہوگی کہ وہ یہ اضافہ نہ لے، اور وہ دوسرا آدمی جس نے گاڑی خریدی ہے، اگر اس کو علم نہیں تھا تو اس کے ذمے صرف اس آدمی کو اصل رقم ادا کرنا ہے، اگر ان دونوں کو علم تھا کہ یہ حرام ہے تو یہ بیچنے والا جس نے اضافہ لیا ہے، اس کے لیے یہ اضافہ اپنے پاس رکھناجائز نہیں، اسے بیت المال میں جمع کرا دے، لیکن اس خریدار سے معاف نہ کرے کیونکہ یہ خریدار حرمت پائمال کرنے والا ہے جبکہ جاہل اور حر مت پائمال کرنے والے کے درمیان فرق ہے، اگر وہ دونوں ہی جاہل تھے تو پھر اب یہ راستہ ہے کہ منافع کے ساتھ یا حقیقت میں سود کے ساتھ بیچنے والا کہے: مجھے صرف میرا اصل سرمایہ ہی کافی ہے، اس کے علاوہ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔
[ابن عثيمين: لقاء الباب المفتوح: 37/12]