سودی مال سے زکاۃ دینا کیسا ہے
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

سودی مال سے زکاۃ ادا کرنے کا حکم

بنکوں وغیرہ کے ساتھ سودی معاملات کرنا حرام ہے اور سود کے نتیجے میں حاصل ہونے والے تمام فوائد حرام ہیں، وہ آدمی کا مال نہیں لہٰذا انہیں ایسے کاموں میں صرف کر دینا چاہیے جن سے عموماً فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، جیسے: عام طہارت خانوں کی اصلاح وغیرہ، یہ اس صورت میں ہے جب اس نے وہ فوائد لے لیے ہوں اور اس کو ان کے متعلق شری حکم کا علم بھی ہو، لیکن اگر اس نے یہ فوائد لیے ہی نہیں تو اس کا صرف اصل سرمایہ ہوگاکیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ» [البقرة: 278]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو باقی ہے چھوڑ دو، اگر تم مومن ہو۔“
لیکن اگر اس نے یہ فوائد شرعی علم سے واقفیت سے پہلے لیے ہوں تو یہ اس کے ہوں گے اور انہیں نکالنا اس کے لیے ضروری نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ»
[البقرة: 275]
”حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا، پھر جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت آئے، پس وہ باز آجائے تو جو پہلے ہو چکا وہ اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو دوبارہ ایسا کرے تو وہی آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“
اپنے اس تمام مال کی طرح، جس پر زکاۃ واجب ہے، اس مال سے بھی زکاۃ ادا کرنا واجب ہے جو سودی منافعوں سے نہ ہو اور وہ تمام مال بھی اس میں داخل ہے جو سود کی حر مت کا علم ہونے سے پہلے اس کی ملکیت میں آچکا تھا کیونکہ یہ اس مذکورہ آیت کی بنا پر اس کا اپنا ہی مال ہے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 135/19]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل