سلام کے بعد امام مقتدیوں کی طرف رخ پھیرے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

سلام کے بعد امام مقتدیوں کی طرف رخ پھیرے

➊ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كان النبى صلى الله عليه وسلم إذا صلى صلاة أقبل علينا بوجهه
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تھے تو (سلام کے بعد ) اپنا چہرہ ہماری طرف کر لیتے تھے ۔“
[بخاري: 845]
➋ حضرت یزید بن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم حجتہ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز فجر پڑھائی۔
ثم انحرف جالسا واستقبل الناس بوجهه
”پھر بیٹھے ہوئے ہی پھرے اور اپنا چہرہ لوگوں کی طرف متوجہ کر لیا۔“
[أحمد: 161/4]
امام کو دائیں جانب پھرنا چاہیے یا بائیں جانب اس کے متعلق دو بظاہر مختلف احادیث ہیں:
➊ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
لقد رأيت النبى كثيرا ينصرف عن يساره
”بے شک میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ اپنے بائیں جانب پھرتے ہوئے دیکھا ہے ۔“
[بخاري: 852 ، كتاب الأذان: باب الانفتال والا نصراف من اليمين والشمال ، مسلم: 707 ، أبو داود: 1042 ، نسائي: 81/3 ، ابن ماجة: 930 ، دارمي: 311/1 ، حميدي: 127 ، عبد الرزاق: 3208 ، أبو عوانة: 250/2]
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
اكثر ما رأيت رسول الله ينصرف عن يمينه
”اکثر جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں جانب پھرتے تھے ۔“
[مسلم: 708 ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها: باب جواز الانصراف من الصلاة عن اليمين والشمال ، نسائي: 81/3 ، دارمي: 312/1 ، ابن أبى شيبة: 305/1 ، بيهقى: 295/2]
(نوویؒ) ان دونوں روایات کو اس طرح جمع کیا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بھی کرتے تھے اور اُس طرح بھی۔ اور ان دونوں (صحابہ) میں سے جس نے جو اکثر عمل سمجھا اس کو بیان کر دیا اور یقیناً حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے دائیں جانب پھرنے کے وجوب کے اعتقاد کو ناپسند کیا ہے۔ (یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ صرف دائیں طرف ہی پھرنا چاہیے درست نہیں )۔
[شرح مسلم: 238/3]
(ابن حجرؒ) ایک اور طریقے سے بھی ان احادیث کو جمع کیا جا سکتا ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کو مسجد میں نماز پڑھنے پر محمول کیا جائے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کو اس کے علاوہ سفر وغیرہ پر۔ اور جب حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کے اعتقاد میں تعارض ہوا ہے تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو ترجیح دی جائے گی کیونکہ وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے زیادہ عالم ، زیادہ عمر رسیدہ ، بزرگ اور اکثر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے والے تھے۔
[فتح الباري: 609/2]
(راجح) دونوں طرح جائز ہے البتہ دائیں جانب پھرنا عمومی دلائل کی بنا پرعلماء کے نزدیک افضل ہے۔
[نيل الأوطار: 155/2]
➌ حضرت قبیصہ بن ھلب عن ابیہ روایت ہے کہ :
كان رسول الله يؤمنا فينصرف عن جانبي جميعا ، على يمينه وعلى شماله
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری امامت کراتے تو دونوں جانب پھرتے تھے ، یعنی اپنی دائیں جانب اور اپنی بائیں جانب۔“
[حسن: صحيح ترمذي: 246 ، كتاب الصلاة: باب ما جاء فى الإنصراف عن يمينه و عن شماله ، صحيح أبو داود: 919 ، ترمذي: 301 ، أبو داود: 1041 ، ابن ماجة: 929 ، ابن حبان: 1998 ، بيهقي: 295/2]
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام ترمذیؒ بیان کرتے ہیں کہ اہل علم کا اسی پر عمل ہے اور مزید کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی جاتی ہے کہ انہوں نے کہا:
ان كانت حاجته عن يمينه أخذ عن يمينه وإن كانت حاجته عن يساره أخذ عن يساره
اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دائیں جانب کوئی ضرورت یا کام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں جانب پھر جاتے اور اگر بائیں جانب کوئی حاجت ہوتی تو بائیں جانب پھر جاتے۔ “

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے