وَعَنْ أَسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ بَعَثْنَا رَسُولُ اللهِ مَا فِي سَرِيَّةٍ فَصَبَّحْنَا . الْحُرِّقَاتِ مِنْ جُهَيْنَةَ، فَأَدْرَكْتُ رَجُلًا فَقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، فَطَعَنَتُهُ، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي (مِنْ ذَلِكَ) فَذَكَرْتُهُ لِلنَّبِيِّ مَن فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ مَن ): میرام) أَقَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَقَتَلْتَهُ؟ )) قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا قَالَهَا خَوْفًا مِنَ السَّلَاحِ قَالَ: ( (أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ، حَتَّى تَعْلَمَ أَقَالَهَا أَمْ لا؟ )) فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي أَسْلَمْتُ يَوْمَئِذٍ لَفْظُ مُسْلِمٍ
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگ پہ روانہ کیا ہم جہینہ قبیلے پر صبح کے وقت حملہ کر دیا میں نے ایک شخص کو دبوچ لیا اس نے لا الہ الا اللہ کہا میں نے اسے نیزا مار کر قتل کر دیا ، میرے دل میں کھٹکا محسوس ہوا میں نے اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا رسول اللہ کی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے کیا لا الہ الا اللہ کہا اور تو نے اسے قتل کر دیا؟ میں نے عرض کی يا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اس نے ہتھیار سے ڈرتے ہوئے لا الہ الا اللہ کہا تھا آپ نے فرمایا کیا تو نے کیوں نہ اس کا دل چیر کر دیکھا یہاں تک کہ تو جان جاتا کہ اس نے کہا تھا یا نہیں کہا تھا آپ یہ بات مسلسل دھراتے رہے یہاں تک کہ میں نے خواہش کی کہ میں اس دن اسلام لایا ہوتا۔ مسلم کے لفظ ہیں۔
تحقیق و تخریج :
[بخاری، مسلم 96]
فوائد:
➊ سریہ وہ جنگ ہوتی ہے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت نہ کی ہو۔ یہ مہم کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مجاہدین پر بھی مشتمل ہوتی تھی۔
➋ جو کوئی لا الہ الا اللہ بول کر سنا دے اس کے کلمہ پر اعتبار کر لینا چاہیے۔ اپنی طرف سے اس غلط فہی میں نہیں رہنا چاہیے کہ اس نے دل سے کلمہ نہیں پڑھا دل کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔
➌ معلوم ہوا کہ صحابہ کرام نے کسی کے دل کی باتوں کو نہیں جانتے تھے۔
➍ دوران لڑائی کلمہ پڑھنے کے بعد اس کلمہ والے کو اشتباہ کی وجہ سے مارنے پر قصاص ودیت نہیں ہے۔
➎ جب بھی کسی مومن آدمی سے غلطی ہو جاتی ہے تو وہ خوب پشیمان ہوتا ہے اور اپنے آپ کو بہت بڑا گناہ گار سمجھتا ہے۔ یعنی مومن بندے کو غلط کام پر حد درجہ کی ندامت ہوتی ہے۔