سرمایہ داری کے اثرات اور اسلامی نظام کی بحالی

آج کا دور جس تبدیلی سے گزر رہا ہے اسے "نظامی تبدیلی” (Systemic Transition) کہا جا سکتا ہے

تاریخ میں بھی ایسے ادوار گزرے ہیں جیسے سلطنتِ روم، سلطنتِ عثمانیہ، اور مسیحی یورپ کے زوال کے ادوار۔ ان ادوار میں پرانے نظام معطل ہو جاتے ہیں اور نئے نظام ان کی جگہ لینے لگتے ہیں۔ موجودہ دور کی اس تبدیلی کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں نظامِ زندگی کے بنیادی تصور کو سمجھنا ضروری ہے۔

1. نظامِ زندگی کیا ہے؟

نظامِ زندگی انسانی سوچ، عمل اور تعلقات کے ایک مربوط عمل کا نام ہے۔

  • انسان اپنی انفرادی حیثیت میں خیر و شر اور زندگی کے مقاصد کا تعین کرتا ہے۔
  • ہر شخص اپنے اعمال کا جواب خود دیتا ہے اور اپنی قبر میں تنہا حساب دینے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

مسلمان یا آزاد؟

آج انسان دو بنیادی نظریات کے تحت زندگی گزار رہا ہے:

  • یا تو وہ کہتا ہے "میں مسلمان ہوں”
  • یا وہ کہتا ہے "میں آزاد ہوں”

یہ دونوں نظریات ایمان کی بنیاد پر کھڑے ہیں۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ ایمان لانے کو ایک معجزہ قرار دیتے تھے کیونکہ ایمان کسی دلیل یا وجدان کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص عطا ہے۔ مشہور شخصیات جیسے ارسطو، گاندھی، کانٹ یا آئن اسٹائن ایمان نہیں لا سکے کیونکہ ایمان محض عقل سے حاصل نہیں ہوتا۔

2. احساس اور فکر کا نظام

انسان کے احساسات اور خیالات کا مرکز ایمان ہوتا ہے اور ان کا اظہار دو سطحوں پر ہوتا ہے:

  • معاشرتی سطح پر: جہاں افراد بغیر جبر کے اپنی انفرادیت کو ظاہر کرتے ہیں۔
  • ریاستی سطح پر: جہاں معاشرتی اقدار کو قانونی و جبری قوت سے نافذ کیا جاتا ہے۔

3. اقدار کے بدلنے سے ادارے بھی بدلتے ہیں

جیسے جیسے معاشرتی اقدار بدلتی ہیں، ویسے ہی ادارے بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔

مثال: مسلم معاشرت میں خانقاہی نظام تقریباً ختم ہو گیا ہے اور اس کی جگہ تجارتی تنظیموں (Chambers of Commerce) نے لے لی ہے۔

معاشرتی تغیر جبر سے نہیں بلکہ اقدار کی تبدیلی سے آتا ہے۔ جیسے نیویارک کا نوجوان زنا کو نکاح پر ترجیح دیتا ہے تو کوئی اسے زبردستی ایسا کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔

4. ریاست کا کردار

ریاست جبر کے ذریعے معاشرتی اقدار کو نافذ کرتی ہے۔ یہ جبر صرف اسی صورت میں کامیاب ہوتا ہے جب عوام یا تو ان اقدار کو پسند کرتے ہوں یا کم از کم انہیں برداشت کرنے پر راضی ہوں۔

برصغیر میں انگریزی اقتدار کی مثال دی جا سکتی ہے جہاں عوام نے مغربی اقدار کو برداشت کیا لیکن ان کے خلاف تحریکات کامیاب نہ ہو سکیں۔

5. انسانی زندگی کی تین سطحیں

انسانی زندگی تین سطحوں پر قائم ہے:

  • انفرادی سطح: جہاں فرد اپنی ایمانیات کا تعین کرتا ہے۔
  • معاشرتی سطح: جہاں افراد غیر جبری تعلقات قائم کرتے ہیں۔
  • ریاستی سطح: جہاں جبری نظام کے تحت اقدار نافذ ہوتی ہیں۔

ان تینوں سطحوں کے باہمی ربط کو "نظامِ زندگی” کہا جاتا ہے، جیسا کہ شاہ ولی اللہؒ اور مولانا مودودیؒ نے اپنی تحریروں میں وضاحت کی ہے۔

6. مغربی نظامِ زندگی – سرمایہ داری

اسلامی نظامِ زندگی کے غلبے کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ غالب نظام یعنی سرمایہ داری کا خاتمہ ہو۔ سید قطبؒ اسے "جاہلیت خالصہ” کہتے ہیں کیونکہ اس نظام میں اسلامی اقدار پنپ نہیں سکتیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کی تین سطحیں:

  • انفرادیت: جہاں انسان خود مختار ہوتا ہے اور خود ہی خیر و شر کا تعین کرتا ہے۔
  • معاشرت: جہاں تعلقات کا مقصد صرف ذاتی فائدہ ہوتا ہے۔
  • ریاست: جو سرمایہ دارانہ اقدار کو قانونی طور پر نافذ کرتی ہے۔

7. سرمایہ دارانہ تصورِ انفرادیت

انسان کی اپنی کوئی عبدیت یا تخلیقیت نہیں مانی جاتی، بلکہ وہ خود اپنا رب ہوتا ہے۔

  • Kant کے فلسفے کے مطابق انسان خود مختار ہے اور خیر و شر کا تعین اس کے ذاتی فیصلے پر منحصر ہے۔
  • نظریہ افادیت (Utilitarianism): ہر چیز کا پیمانہ "لذت” یا "فائدہ” ہے۔

8. معاشرتی تبدیلی اور زوال

سرمایہ دارانہ معاشرت میں زنا، شہوت پرستی، اور حرص جیسی برائیاں عام ہو جاتی ہیں۔

  • مغربی ممالک میں خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہے اور زنا کاری کے نتیجے میں ان کی آبادی گھٹ رہی ہے۔
  • جو معاشرے سرمایہ داری کو اپنا رہے ہیں، وہ بھی اسی زوال کی طرف جا رہے ہیں۔

9. سرمایہ دارانہ ریاست

ریاست کا مقصد سرمایہ کی بڑھوتری کو یقینی بنانا ہے، چاہے اس کے لیے جبر کیوں نہ کرنا پڑے۔

  • امریکہ جیسے ممالک عالمی سرمایہ داری کے تحفظ کے لیے دنیا بھر میں جنگیں اور معاشی قبضے کر رہے ہیں۔
  • چین اور ہندوستان جیسے ممالک بھی اس نظام کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔

10. نتیجہ

سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی انسان کو "شیطان” (Devil) بنانے کی کوشش کرتا ہے، جہاں وہ اپنی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے۔ اس نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اسلامی انفرادیت، معاشرت، اور ریاست کو مربوط جدوجہد کے ذریعے مضبوط کرنا ہوگا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1