سرمایہ داری اور جدید انسانیت کا زوال
تحریر: سید خالد جامعی

سرمایہ داری کے نظام اور جدید بنیادی حقوق کے فلسفے

سرمایہ داری کے نظام اور جدید بنیادی حقوق کے فلسفے نے ایک ایسا انسان پیدا کیا ہے جو خدا اور نبی کو بھول کر صرف پیسے کو اپنا مقصد بنا بیٹھا ہے۔ یہ انسان اپنی خواہشات اور لذتوں کی خاطر ہر وقت سرمایہ بڑھانے میں مصروف رہتا ہے۔ مغربی فلسفے اور سائنسی ترقی نے لالچ اور ہوس کو ایک اجتماعی قدر کے طور پر قبول کیا ہے، جس کے نتیجے میں ایک "شیطانی وجود” سامنے آیا ہے۔

جدید انسان کا رویہ اور بھوک کا مسئلہ

جدید انسان کو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ دنیا میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ شمالی کوریا میں لاکھوں لوگ بھوک سے مر گئے، افریقہ کے ممالک میں قحط کی وجہ سے لاکھوں ہلاک ہوئے، لیکن جدید سائنسی ترقی کے باوجود یہ لوگ اناج ان تک نہ پہنچا سکے۔ وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس پیسے نہیں تھے، اور جدید سرمایہ دارانہ ذہنیت مفت میں مدد فراہم کرنے کو تیار نہیں۔

  • جدید معیشت نے "طلب و رسد” کے قانون کے ذریعے غلے کی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔
  • آزاد منڈی کی معیشت، اجارہ داریاں، اور سرمایہ داری کا مزاج انسان کو صرف زیادہ منافع کمانے پر مجبور کرتا ہے۔
  • جدید سائنس نے پیداوار تو بڑھائی، لیکن انسان کی لالچ اور خواہشات کو اس سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔

قحط، خودکشیاں اور سرمایہ داری

ورلڈ بینک، ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن اور دیگر اداروں کے مطابق دنیا میں تاریخ کی سب سے زیادہ غذائی اجناس پیدا ہو رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود بھوک اور قحط کا مسئلہ بڑھ رہا ہے۔ سوال یہ ہے:

  • جب پیداوار انسانی ضرورت سے زیادہ ہے، تو بھوک کیوں ہے؟
  • لوگ خودکشیاں کیوں کر رہے ہیں؟

دنیا کی تاریخ میں پہلی بار، جدید انسان نے پیداوار کو انسانی خدمت کے بجائے اپنی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ سرمایہ داری کا نظام لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے پر زور دیتا ہے، چاہے اس سے دنیا کے غریب لوگ مزید مشکلات میں کیوں نہ پڑیں۔

قوم پرستی اور سرحدوں کی رکاوٹ

عہدِ جدید کی قوم پرستی نے انسانوں کو سرحدوں میں قید کر دیا ہے۔ قحط زدہ افراد ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت کرنا چاہتے ہیں، لیکن قومی سرحدیں ان کے راستے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔

  • افریقہ میں قحط کے دوران سرحدوں پر لوگوں کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔
  • فلسطینی مہاجرین کو مصر میں داخل ہونے سے روکا گیا۔
  • شام اور برما کے مہاجرین کو سمندر میں ڈوب مرنے دیا گیا، اور کسی نے ان کی مدد نہ کی۔

یہ رویہ مغربی قوم پرستی کی پیداوار ہے، جو وسائل کے ذاتی تحفظ پر زور دیتی ہے اور انسانیت کے اصولوں کو نظرانداز کرتی ہے۔

تاریخی تناظر میں مہمان نوازی

تاریخ کی 21 تہذیبوں میں کسی شخص کے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جانے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ لوگ مہمان نوازی کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔ علم کے طلبگار ایک براعظم سے دوسرے براعظم جا سکتے تھے، اور مقامی لوگ ان کی خوراک اور رہائش کا خیال رکھتے تھے۔

اسلامی خلافت کے دور میں کسی کی نقل مکانی پر پابندی نہ تھی۔ لوگ قحط یا دیگر وجوہات کی بنا پر ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جا سکتے تھے، اور وہاں کے لوگ ان کی مدد کرتے تھے۔

جدید معیشت اور اخلاقی زوال

جدید سرمایہ داری نظام نے اخلاقیات اور انسانیت کو تباہ کر دیا ہے۔

  • 2007 میں پاکستان میں گندم کی بہترین فصل کے باوجود گندم کا بحران پیدا ہوا۔
  • دلیل دی گئی کہ "طلب و رسد” کا مسئلہ ہے، لیکن درحقیقت یہ ذخیرہ اندوزی اور دیانت کی کمی کا مسئلہ تھا۔
  • سرمایہ دارانہ معاشرے میں انسانی تعلقات محبت کے بجائے مفاد پر مبنی ہوتے ہیں۔

روشن خیالی اور جدید انسان کی حقیقت

عصرِ حاضر کے دانشور کہتے ہیں کہ یہ تاریخ کا سب سے بہترین دور ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دور انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ ظالمانہ اور سفاک دور ہے۔

  • سرمایہ دارانہ نظام نے انسان کو درندہ بنا دیا ہے، جس کی اخلاقیات نفس پرستی اور لذت اندوزی تک محدود ہیں۔
  • یہ نظام انسانی قدروں کو پامال کرتے ہوئے پوری دنیا پر مسلط ہو چکا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1