سائنس بطور جدید مذہب اور اس کے عقائد

سائنس کی موجودہ حیثیت

سائنس بطور مذہب

◈ آج کے دور میں سائنس کی حیثیت ایک مضبوط مذہب جیسی ہو چکی ہے۔
◈ کسی بھی دور میں ایک مضبوط مذہب کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ اس کے ماننے والے اپنے عقائد کا برملا اظہار کریں اور دوسروں کو مرعوب کر سکیں۔
◈ موجودہ دور میں بہت سے لوگ کھل کر کہتے ہیں: ’’آئی ڈونٹ بیلیو اِن گاڈ، آئی بیلیو اِن سائنس۔‘‘
◈ یہی رویہ ظاہر کرتا ہے کہ سائنس ایک مضبوط عقیدہ یا مذہب بن چکی ہے۔

سائنسی عقائد کا عروج

◈ انیسویں صدی کے آخر سے سائنس ایک محض تحقیقی طریقہ کار سے بڑھ کر ایک عقائدی نظام میں تبدیل ہو گئی ہے۔
◈ سائنسی نظریات لوگوں کے ذہنوں پر اس حد تک اثر انداز ہو چکے ہیں کہ وقت کے ساتھ یہ عقائد کا درجہ اختیار کر گئے ہیں۔

میٹیریل ازم کا فلسفہ

◈ سائنس کے عقائد کو اگر فلسفیانہ طور پر پرکھا جائے تو یہ عقائد عام طور پر "میٹیریل ازم” یعنی مادیت پسندی کہلاتے ہیں۔
◈ جدید سائنسی ذہن کی نظر میں سائنس مقدس ہے، جبکہ وہ کتابیں جو کبھی مقدس سمجھی جاتی تھیں، اب اُن کی اہمیت کم ہو چکی ہے۔

سائنس پر تنقید: "سائنس ڈلیوژن” کے اہم نکات

◈ مشہور محقق روپرٹ شیلڈریک نے رچرڈ ڈاکنز کی کتاب "گاڈ ڈلیوژن” کے جواب میں اپنی کتاب "سائنس ڈلیوژن” لکھی۔
◈ شیلڈریک نے سائنسی عقائد کا اسی انداز میں جائزہ لیا، جیسے ڈاکنز نے مذہبی عقائد پر تنقید کی تھی۔
◈ انہوں نے ثابت کیا کہ سائنسی عقائد بھی انہی اعتراضات کی زد میں آ سکتے ہیں، جنہیں مذہبی عقائد پر لگایا جاتا ہے۔

سائنس کے 10 بنیادی عقائد

روپرٹ شیلڈریک کے مطابق سائنس کے 10 بنیادی عقائد درج ذیل ہیں:
➊ نیچر مکینیکل ہے: کائنات، جانور، پودے اور انسان سب ایک مشین کی طرح ہیں۔
➋ مادہ بے شعور ہے: کائنات کے تمام عناصر بے شعور ہیں، خواہ ستارے ہوں یا انسان۔
➌ فطرت کے قوانین مستقل ہیں: بگ بینگ کے وقت سے لے کر آج تک یہ قوانین نہیں بدلے۔
➍ مادہ اور توانائی کی مقدار ہمیشہ یکساں رہتی ہے: بگ بینگ کے بعد سے مادہ اور انرجی کی کُل مقدار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
➎ فطرت بے مقصد ہے: ارتقأ یا دیگر قدرتی عمل کسی بھی گائیڈنس کے بغیر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
➏ وراثتی عوامل صرف میکانیکی اصولوں پر مبنی ہیں: تمام جینیٹک تبدیلیاں خودکار اور بے شعوری طور پر ہوتی ہیں۔
➐ یادداشتیں دماغ کے اندر محفوظ ہیں: انسان کی تمام یادداشتیں مادی دماغ کی پیداوار ہیں۔
➑ شعور دماغ کے اندر محدود ہے: انسانی ذہن محض دماغ کی سرگرمی ہے اور اس سے باہر کچھ نہیں۔
➒ مواصلات کے لیے مادی واسطے ضروری ہیں: انسان ایک دوسرے سے مادی ذرائع کے بغیر رابطہ نہیں کر سکتے۔
➓ بیماریوں کا علاج صرف مکینیکل میڈیسن سے ممکن ہے: دیگر طریقہ ہائے علاج کو غیر سائنسی اور توہم پرستی سمجھا جاتا ہے۔

روپرٹ شیلڈریک کے اعتراضات

◈ شیلڈریک نے سائنسی عقائد پر سائنسی اصولوں کے مطابق ہی اعتراضات کیے، جنہیں منطقی طور پر درست قرار دیا جا سکتا ہے۔
◈ انہوں نے ثابت کیا کہ موجودہ دور میں سائنس ایک مضبوط مذہب کی حیثیت رکھتی ہے، نہ کہ صرف ایک تحقیقی نظام۔

مثال: کائناتی سفر

◈ شیلڈریک نے زمین کے سورج کے گرد اور سورج کے کہکشاں کے گرد گردش کے عمل کو بطور مثال پیش کیا۔
◈ انہوں نے کہا کہ یہ سفر نہایت غیر متوقع اور انجان ہے۔
◈ ہمیں معلوم نہیں کہ مستقبل میں کیا تبدیلیاں ہو سکتی ہیں، جیسے کہ ڈارک میٹر یا ڈارک انرجی کا سامنا۔
◈ یہ امکانات فطرت کے قوانین کو بھی بدل سکتے ہیں، لیکن یہ نظریہ آج کے سائنس کے بنیادی عقائد کے خلاف ہے۔

کارل پوپر اور فالسفیکیشن کا اصول

◈ مشہور فلسفی کارل پوپر نے سائنس اور غیر سائنسی نظریات کے درمیان فرق کرنے کے لیے "فالسفیکیشن” کا اصول پیش کیا۔
◈ اس اصول کے مطابق کوئی نظریہ سائنسی تب کہلائے گا جب اسے جھٹلانا ممکن ہو۔
◈ پوپر کے مطابق، مذہب کے عقائد کو جھٹلانا ممکن نہیں، اس لیے یہ سائنس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
◈ لیکن اگر فالسفیکیشن کا اصول سائنسی نظریات پر لاگو کیا جائے تو بہت سی سائنسی تھیوریز بھی اسی زمرے میں آ سکتی ہیں۔

روپرٹ کے مفروضے اور کائناتی شعور

◈ روپرٹ نے ایک اور دلچسپ نکتہ پیش کیا کہ قدرتی دنیا میں جانداروں کے درمیان ایک غیر مرئی تعلق موجود ہوتا ہے، جیسے:
◈ درندے کے گھورنے پر شکار جانور کو احساس ہو جاتا ہے۔
◈ سانپ کی موجودگی میں چڑیاں شور مچاتی ہیں۔
◈ کتے خلا میں دیکھ کر بھونکنے لگتے ہیں۔
◈ یہ مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ کائنات میں شعور کا ایک پراسرار پہلو موجود ہو سکتا ہے۔

جدید دور میں سائنس بطور مذہب

◈ موجودہ دور میں سائنس کے ماننے والے اُسی شدت کے ساتھ اپنے عقائد کا دفاع کرتے ہیں جیسے مذہبی افراد۔
◈ سائنس کی بنیاد پر نئے عقائد تخلیق ہو رہے ہیں، جیسے:
◈ کئی کائناتوں کا وجود
◈ وقت میں سفر
◈ بگ بینگ کا خودبخود ہونا
◈ کائنات کا بے شعور ہونا
◈ یہ سب نظریات مذہبی عقائد کی طرح ہی غیبی نوعیت رکھتے ہیں، اور انہیں تسلیم کرنے کے لیے بغیر دلیل کے ماننا پڑتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے