سائنس الحاد اور خدا کی حقیقت پر مبنی بحث

الحاد اور سائنس کا تقابل

یہ تصور عام کیا جاتا ہے کہ سائنس کی موجودگی میں خدا کی ضرورت نہیں، کیونکہ سائنس تمام سوالات کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس تاثر کو فروغ دینے والے اکثر بڑے علمی اور سائنسی شخصیات ہیں۔ حالانکہ یہ علمی خیانت ہے۔ خدا کے انکار کا فیصلہ کسی فرد کا ذاتی نظریہ ہوسکتا ہے، لیکن جب کوئی ماہر اپنی علمی حیثیت میں ایسا بیان دیتا ہے تو لوگ سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید یہ سائنسی علم کی بنیاد پر کہا گیا ہے۔

سائنس کا دائرۂ کار اور خدا کا تصور

سائنس کی حدود میں صرف مادی اور طبعی عوامل آتے ہیں، جب کہ خدا کے وجود کا معاملہ مابعدالطبیعات (Metaphysics) سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن جدید اسکالرز اور سائنسدان خدا کو طبعی دائرے میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کی وجہ سے کئی لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ سائنس خدا کی منکر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سائنس خدا کے وجود کی تصدیق یا تردید کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں۔

سائنس کی حدود کی وضاحت

  • سائنس کائنات میں موجود نظامات کو دریافت کرنے اور ان کی وضاحت کرنے کا ذریعہ ہے۔
  • یہ ایک غیرجانبدار ذریعہ ہے جو انسان کو خام معلومات فراہم کرتی ہے۔
  • معلومات کو نظریات میں تبدیل کرنے کا عمل انسان انجام دیتا ہے، نہ کہ سائنس۔
  • سائنسی آلات انسانی جسم کی بیماریوں کی تشخیص تو کرسکتے ہیں، لیکن مریض کی شناخت، مثلاً اس کا نام یا ذات، نہیں بتا سکتے۔ یہ فرق سائنسی اور انسانی دائرۂ کار کو واضح کرتا ہے۔

سائنس اور "کیوں” کے سوالات

سائنس "کیا” اور "کیسے” کے سوالات کے جوابات دیتی ہے، لیکن "کیوں” جیسے بنیادی سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہے:

  • مثال کے طور پر: ہم سانس کیوں لیتے ہیں؟ سائنس بتاتی ہے کہ یہ پھیپھڑوں کے پھیلنے اور سکڑنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
  • لیکن سوال "زندگی کیوں ہے؟” کا جواب سائنس کے دائرے سے باہر ہے۔ یہاں انسان کو خود فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ سسٹم کو خودکار مانے یا کسی خالق کی تخلیق۔

جدید سائنس کی پیشرفت اور خدا کی گواہی

ایک وقت تھا جب سائنسدان یہ سمجھتے تھے کہ زندگی کے لیے صرف ستارے اور ان کے گرد موجود سیارے کافی ہیں۔ لیکن نئی تحقیقات سے یہ معلوم ہوا کہ زندگی کے لیے درکار شرائط کی تعداد 200 سے زیادہ ہے۔ ان میں معمولی تبدیلی بھی زندگی کو ناممکن بنا سکتی ہے۔

کائنات کی ترتیب میں موجود انتہائی نازک توازن، جیسے کہ توانائی کی چار بنیادی قوتیں، اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ یہ خودبخود نہیں ہوسکتا۔ اگر ان قوتوں میں معمولی فرق بھی آجائے تو کائنات کا وجود ختم ہوجائے گا۔

اسٹیون ہاکنگ اور خدا کا انکار

مشہور سائنسدان اسٹیون ہاکنگ خدا کے وجود کے قائل نہیں تھے، لیکن ان کے نظریات میں تضاد پایا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کائنات خودبخود وجود میں آئی، مگر اس کے لیے وہ کششِ ثقل (Gravity) کے قانون کی موجودگی کو لازم قرار دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ تھا:

"کیونکہ کششِ ثقل کا قانون موجود ہے، اس لیے کائنات نیست سے خود کو تخلیق کرسکتی ہے۔”

لیکن یہ منطق خود غیر علمی اور غیر منطقی ہے، کیونکہ "نیست” (nothing) میں کسی بھی قانون کی موجودگی ممکن نہیں۔ اگر کوئی قانون موجود ہو تو "نیست” کی تعریف ہی باطل ہوجاتی ہے۔

سائنسدانوں کی آراء کی حقیقت

یہ بات سمجھنی چاہیے کہ کسی سائنسدان کی رائے اس کی ذاتی سوچ ہوسکتی ہے، سائنس کا فیصلہ نہیں۔ سائنسی تھیوریز غیر منطقی مفروضات پر مبنی نہیں ہوتیں۔ اگر کوئی سائنسدان کائنات کی تخلیق میں کسی قانون کی موجودگی کو تسلیم کرتا ہے تو وہ غیر شعوری طور پر خدا کے وجود کا اقرار بھی کر رہا ہے۔

الحاد اور سائنس کا مستقبل

جدید سائنسی تحقیقات، جو کائنات کے نظام کے حیرت انگیز حقائق کو سامنے لارہی ہیں، انکارِ خدا کے نظریات کو خود بخود رد کر رہی ہیں۔ الحاد کے نظریات، جو منطق اور دلیل سے خالی ہیں، آخرکار اپنی موت آپ مر جائیں گے۔

قرآن کا دعویٰ اور سائنسی حقیقت

قرآن نے پہلے ہی واضح کیا ہے کہ انسان اور کائنات میں ایسی نشانیاں موجود ہیں جو سچائی کو ثابت کریں گی:

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ
(سورہ فصلت: 53)
(ہم عنقریب انہیں ان کے اپنے نفسوں اور آفاق میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے، یہاں تک کہ ان پر واضح ہوجائے گا کہ وہی حق ہے۔)

یہ چیلنج آج کے الحاد اور سائنس کے نظریات کے لیے ایک واضح پیغام ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے