زکر کی فضیلت
تصنیف : امام ضیاء الدین المقدسی رحمہ اللہ

ترجمہ و فوائد : حافظ ندیم ظہیر
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”اولاد آدم میں سے ہر انسان کے تین سو ساٹھ جوڑ ہیں، جس نے اللہ عزو جل کی بڑائی، اللہ عزوجل کی تعریف، اللہ عزوجل کی تہلیل لا الٰه الا الله ، اللہ عزوجل کی تسبیح سبحان الله اور استغفر الله کہا : اور لوگوں کے راستے سے پتھر یا کانٹے یا ہڈی (وغیرہ) کو ہٹایا اور نیکی کا حکم دیا یا برائی سے روکا تو تین سو ساٹھ جوڑوں کی تعداد کے برابر اس دن چلتا ہے اور (اس نے) اپنے آپ کو (جہنم کی) آگ سے بچا لیا۔“ [صحیح مسلم : 1007]
فوائد :
↰ اس حدیث میں ذکر کی فضیلت وارد ہے خصوصا، لا الٰہ الا اللہ، سبحان اللہ اور استغفر اللہ کی اور ان کی اپنے مقام پر وضاحت منقول ہے۔ دوسرے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی بھی نیکی کو حقیر نہیں جاننا چاہیئے اور نہ ادنیٰ سمجھ کر چھوڑنا ہی چاہیئے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت بھی مسلم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں ترغیباً و ترہیباً بہت زیادہ احادیث مروی ہیں۔

❀ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم ضرور نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر کوئی عذاب بھیج دے۔ پھر تم اس سے دعائیں کرو گے لیکن وہ قبول نہیں کی جائیں گی۔“ [ ترمذي : 2169، حسن]
فوائد :
↰ لہٰذا ذکر الٰہی، راستے کے حقوق اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانا چاہیے۔

❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللہ تعالیٰ اس بندے سے راضی ہو جاتا ہے جو ایک (وقت کا) کھانا کھا کر اللہ کا شکر ادا کرے یا کوئی بھی چیز پی کر اس کا شکر ادا کرے۔ [مسلم : 2734]
فوائد :
↰ کھانے پینے کے بعد اللہ رب العزت کا شکر ادا کرنا چاہیئے کیونکہ اس سے نہ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے بلکہ رزق میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے لئن شكرتم لا زيدنكم ”اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔“ [ابراہیم : 7]

❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے کو کوئی نعمت عطا کرے اور وہ کہے : الحمد الله تو اس نے جو دیا وہ اس سے افضل ہے جو اس نے لیا۔ [سنن ابن ماجہ : 3805و اسنادہ حسن]
فوائد :
↰ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بندے کا الحمدللہ کہنا اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ کلمہ الحمد للہ افضل ہے اس نعمت سے جو اللہ نے اپنے بندے کو عطا کی یعنی ذکر الٰہی افضل ہے نعمت الٰہی سے۔

❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے اور وہ ( ابوہریرہ) درخت لگا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ابوہریرہ ! تم کیا چیز لگا رہے ہو ؟ میں نے کہا : درخت لگا رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تجھے ایسے درخت کے بارے میں نہ بتاؤں جو تیرے لئے اس سے بہتر ہے ؟ ( ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا : کیوں نہیں اے اللہ کے رسول، آپ نے فرمایا : کہہ سبحان الله و الحمد لله و لا إلٰه إلا الله والله أكبر تیرے لئے ہر ایک (کلمے) کے بدلے جنت میں ایک درخت لگایا جائے گا۔ [سنن ابن ماجہ : 807 و اسنادہ ضعیف]
فوائد :
↰ اس روایت کی سند عیسیٰ بن سنان ابوسنان کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن مذکورہ کلمات کی فضیلت صحیح احادیث سے بھی ثابت ہے جیسا کہ پہلی حدیث میں گزر چکا ہے۔

❀ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے جلال میں سے جو تم ذکر کرتے ہو ( وہ) تسبیح، تہلیل اور تمہید ہے۔ (یہ کلمات) عرش کے گرد گھومتے ہیں، شہد کی مکھی کی طرح ان کی بھنبھناہٹ ہے (اور اللہ کے حضور ) اپنے کہنے والے کا ذکر کرتے ہیں۔ کیا تم میں سے کوئی چاہتا ہے کہ اس کے لئے (ایسا ہی) ہو یا (کوئی) ہمیشہ اس کا ذکر ( اللہ کے سامنے) کرتا رہے۔ [سنن ابن ماجہ : 3809 و اسنادہ حسن]
فوائد :
↰ ذکر اور ذاکر کی فضیلت واضح ہو رہی ہے۔

❀ سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! مجھ پر اسلام کے قاعدے زیادہ ہو گئے ہیں، آپ مجھے ان میں سے (کوئی ایک) چیز بتا دیں جسے میں (پابندی کے ساتھ) ادا کرتا رہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہمیشہ تیری زبان اللہ کے ذکر سے تر رہے۔ [سنن ابن ماجہ : 3793و سندہ حسن، ترمذی : 3375]
فوائد :
↰ ”مجھ پر اسلام کے قاعدے زیادہ ہو گئے ہیں“ سے مراد نفلی امور ہیں۔ اس سے نماز، روزہ، ذکوٰۃ اور حج وغیرہ مراد لینا قطعاً غلط ہے جیسا کہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ نماز، روزہ ہو یا نہ ہو لیکن ذکر کی محفلوں کو کبھی نہیں چھوڑنا چاہیئے۔ یاد رہے کہ فرائض کو ترک اور نوافل کی پابندی کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہو سکتا جب تک فرائض کو لازم اور پھر نوافل کا خیال نہ رکھا جائے۔ اس حدیث میں ذکر الٰہی کی فضیلت اور اس سے ہمیشہ زبان کو تر رکھنے کی ترغیب بھی ثابت ہو رہی ہے۔

❀ سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گواہی دیتے ہوئے کہا : کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو قوم بھی اللہ کا ذکر کرتی ہے تو فرشتے ان کا احاطہ کر لیتے ہیں (اللہ کی) رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنے مقرب فرشتوں میں فرماتا ہے۔ [صحیح مسلم : 2700]
فوائد :
↰ اس حدیث میں مطلقاً ذکر کی فضیلت ہے کہ جو شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حفظ و امان میں ہوتا ہے اور اللہ اس کا تذکرہ اپنے قریب والوں میں کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے : میں اپنے بندے کے اپنے بارے میں گمان کے مطابق ہوں، جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگر وہ میرا ذکر اپنے دل میں کرتا ہے تو میں بھی اپنے دل میں اس کو یاد کرتا ہوں اور اگر وہ میرا ذکر کسی مجلس میں کرتا ہے تومیں اس کا ذکر ایسی مجلس میں کرتا ہوں جو اس سے بہتر ہوتی ہے۔ [صحيح مسلم : 2675، صحيح بخاري : 7405]

✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے : فاذ كرو ني اذ كركم ”تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔“ [البقرة : 152]
↰ مذکورہ حدیث سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کرنے کی بھی کوشش کی ہے کہ ”حلقے بنا کر اجتماعی شکل میں ہو ہو کی ضربوں والا ذکر بھی جائز ہے۔“

↰ اس سے قبل کئی مقامات پر اس کی وضاحت ہو چکی ہے کہ ذکر سے مراد یہ لینا کہ ”ضربیں لگائی جائیں“ قطعا درست نہیں ہے۔ ذکر سے مراد نماز بھی ہے اور تلاوت قرآن مجید بھی۔ [ديكهئے طٰهٰ : 13، النحل : 44]

↰ جب یہ معلوم ہو گیا کہ ذکر کا مفہوم محدود نہیں ہے تو پھر کس طرح اس حدیث سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ”حلقے بنا کر ذکر کی ضربیں لگانا جائز ہے“ جبکہ اس کے برعکس سلف صالحین سے اس کی مخالفت بھی ثابت ہو۔

دوسرے یہ کہ صحیح مسلم ہی کی دوسری حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما اجتمع قوم فى بيت من بيوت الله يتلون كتاب الله و يتدار سونه بينهم إلا نزلت عليهم السكينة وغشيتهم الرحمة وحفتهم الملاءكة و ذكرهم الله فيمن عنده
جب کوئی قوم اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر (مسجد وغیرہ) میں جمع ہو کر قرآن مجید کی تلاوت کرتی ہے اور آپس میں (کتاب اللہ کو) پڑھتی پڑھاتی ہے تو اس پر سکینت نازل ہوتی ہے، اللہ کی رحمت اس کو ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے اس کو گھیر لیتے ہیں اور اس کا ذکر جو اللہ کے پاس ہیں ان میں ہوتا ہے۔ [صحيح مسلم : 2699]
↰ معلوم ہوا کہ مجالس ذکر سے مراد بدعتیوں کی اجتماعی ذکر والی صوفیانہ مجلسیں نہیں بلکہ تلاوت قرآن، تدریس و قرأت اور علم وفقہ کے تذکرے کی مجلسیں ہیں۔

◈ علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ”یہاں ذکر سے مراد وہ الفاظ ادا کرنا ہے جن کی ترغیب یا کثرت کے بارے میں دلائل موجود ہیں مثلا الباقیات الصالحات، یہ سبحان الله، الحمد لله، الله اكبر اور لا الٰه الا الله ہیں۔ اسی طرح ان کے موافق حسبي الله اور استغفار وغیرہ کا حکم ہے۔ دنیا اور آخرت کی خیر مانگنا بھی اس میں شامل ہے اور واجب یا مستحب عمل پر ہمیشگی کرنا بھی اللہ کا ذکر ہے مثلا تلاوت قرآن، قرأت حدیث، تدریس علم اور نفل نمازیں۔“ [تحفة الاحوذي 9؍314]
↰ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور سلف صالحین سے حلقے بنا کر ذکر کرنے کی مذمت کے لئے دیکھئے سنن دارمی، البدع و النہی عنہا لابن وضاح اور عبادات میں بدعات اور سنت سے ان کا رد۔

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے