زنا بالجبر اور شرعی سزا: اعتراضات اور حقائق
تحریر: ابوزید، سہ ماہی ایقاظ

اسلامی نظریاتی کونسل اور ڈی این اے کے حوالے سے اعتراضات اور جوابات

اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے ڈی این اے کو زنا کی سزا کے لیے صرف ثانوی شہادت کے طور پر قبول کرنے کے فیصلے کے بعد سیکولر طبقہ کی جانب سے شدید اعتراضات سامنے آئے۔ اسلام کو سائنسی اصولوں کے مخالف قرار دیا گیا اور کچھ لوگوں نے شرعی احکام کو سائنسی تحقیق کے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی، جو مسائل کی غلط فہمی کا باعث بنے۔ اس تحریر میں ان اعتراضات اور ان کے جوابات پر بات کی جائے گی۔

زنا اور ریپ: اسلامی اور مغربی نظریات کا فرق

مغربی معاشرتی اصولوں کے مطابق، اگر زنا باہمی رضامندی سے ہو تو اسے کوئی جرم نہیں سمجھا جاتا، جبکہ ریپ کو انتہائی قبیح جرم مانا جاتا ہے۔ مغرب میں، حتیٰ کہ میاں بیوی کے درمیان جبر سے کیے گئے جنسی تعلقات کو بھی ریپ ہی تصور کیا جاتا ہے۔

دوسری طرف، اسلام میں زنا (خواہ باہمی رضامندی سے ہو یا بالجبر) ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ اس کی سزا اتنی سخت رکھی گئی ہے کہ چار ثقہ گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ جرم ثابت ہو اور کسی بے گناہ پر الزام نہ لگے۔

اسلامی نظریاتی کونسل اور ڈی این اے

اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے فیصلے میں کہا کہ زنا بالجبر کے مقدمات میں صرف ڈی این اے ٹیسٹ کی بنیاد پر حد (سنگساری یا کوڑوں کی سزا) نافذ نہیں کی جاسکتی، بلکہ اسے صرف ضمنی شہادت کے طور پر قبول کیا جائے گا۔ اس فیصلے کی بنیاد یہ ہے کہ ڈی این اے زنا کے فعل کی تصدیق تو کرسکتا ہے، لیکن یہ نہیں بتا سکتا کہ فعل رضا مندی سے ہوا یا جبر کے تحت۔

یہی اصول دیگر جرائم میں بھی موجود ہے، جیسے قتل کے مقدمات میں فنگر پرنٹس یا پوسٹ مارٹم رپورٹ صرف ضمنی ثبوت ہوتے ہیں، مگر جرم کی نوعیت اور نیت کا فیصلہ انسانی گواہوں کی شہادتوں پر مبنی ہوتا ہے۔

سیکولر طبقہ کی تنقید

کچھ سیکولر لکھاری جیسے یاسر پیرزادہ اور محمد حنیف نے اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ ریپ کے مجرموں کے لیے سہولت کار ثابت ہوسکتا ہے۔ تاہم، یہ اعتراضات حقیقت سے ہٹ کر ہیں، کیونکہ جہاں چار گواہوں کی شرط پوری نہ ہو سکے، وہاں تعزیری سزائیں دی جاسکتی ہیں جو حالات کے مطابق سخت سے سخت ہوسکتی ہیں۔

خلاصہ

اسلامی نقطۂ نظر سے زنا بالجبر کے مقدمات میں ڈی این اے کو ضمنی شہادت کے طور پر قبول کرنے کا فیصلہ شریعت کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ جہاں چار گواہ فراہم نہ ہوں، وہاں مجرم کو سخت تعزیری سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ اس لیے سیکولر اعتراضات بے بنیاد ہیں اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے