روم اور اسلام کی چودہ صدیوں پر محیط جنگ
تحریر: حامد کمال الدین

روم کی پہچان اور اسلام کے ساتھ تاریخی دشمنی

اگر کوئی سوال کرے کہ وہ کون سی قوم ہے جس کے ساتھ اسلام کی چودہ صدیوں سے مسلسل جنگ جاری ہے، تو اس کا واحد جواب ’روم‘ ہے۔ احادیث میں بھی روم کے مختلف پہلوؤں کا ذکر ہے کہ جب ایک سینگ ٹوٹتا ہے تو دوسرا سینگ ابھر آتا ہے۔ موجودہ دور میں اس سوال کا جواب دینے کی ضرورت ہے کہ روم کا وہ کون سا سینگ ہے جو آج مسلمانوں کے خلاف خونی جنگ میں مگن ہے؟

یورپ کی توسیع پسندی اور خلافتِ عثمانیہ کا کردار

یورپ ایک چھوٹا براعظم تھا، جسے جلد ہی وہاں بسنے والی اقوام کے لیے تنگی کا سامنا ہوا۔ یہ اقوام نئے خطوں کی تلاش میں نکلیں لیکن قریب ترین زرخیز زمینیں مسلمان عربوں کی تھیں۔ شام، مصر، لیبیا، الجزائر اور دیگر علاقے یورپ کے توسیع پسندوں کی نظر میں تھے، لیکن خلافتِ عثمانیہ نے ان کو روکے رکھا۔
خلافت کی طاقت کی وجہ سے بحرِ ابیض ان کے کنٹرول میں تھا، اور بغیر اجازت کوئی پر نہیں مار سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کی توسیع شام، مصر، یا شمالی افریقہ کی جانب آسان نہ تھی، اور یورپی اقوام کو بحیرہ اوقیانوس کے پار ’نئی دنیا‘ کا رخ کرنا پڑا۔

نئی دنیا میں یورپی اقوام اور اسلام کے خلاف صلیبی ورثہ

یورپی اقوام نے امریکہ، آسٹریلیا اور دیگر خطے آباد کیے اور یہاں اپنی تہذیب اور بائبل و صلیب کا تسلط قائم کیا۔ آج وہی اقوام، جو اسلامی روایات میں ’روم‘ یا ’بنی الاصفر‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں، امریکہ، یورپ، اور آسٹریلیا میں طاقت کے ساتھ موجود ہیں۔ خلافتِ عثمانیہ کی وجہ سے مسلمانوں کا وہ حال نہ ہوا جو ریڈ انڈین اقوام کا ہوا۔

صلیبی جنگوں کی جدید شکل: امریکہ اور نیٹو کا کردار

امریکہ، نیٹو اور عالم اسلام کے خلاف منصوبہ بندی

یورپ سے امریکہ کو قیادت منتقل ہونے کے بعد، مغرب کی وہی دشمنی اور کینہ مسلمانوں کے خلاف جاری ہے۔ نیٹو، ورلڈ بینک، اقوام متحدہ، اور دیگر فورمز پر مسلمانوں کے خلاف ہر سازش میں امریکہ پیش پیش ہے۔ مسلمانوں کے مفادات پر ہر جگہ حملے کیے جا رہے ہیں، اور ہر دشمن جیسے اسرائیل، بھارت، اور دیگر کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔

افغانستان، عراق اور دیگر جنگی مہمات

افغانستان پر حملے سے لے کر عراق، فلسطین اور کشمیر تک، ہر جگہ امریکہ اور اس کے اتحادی مسلم دنیا کو زیر کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ احادیث کے مطابق ملتِ روم کا حالیہ سینگ بھی مسلمانوں کے خلاف جنگ کو مقدس سمجھتا ہے، چاہے وہ سیکولر دور میں بھی ہو۔

اسلامی قوت اور خلافت کا خطرہ

مغربی اقوام خاص طور پر اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اسلامی خلافت دوبارہ قائم نہ ہو جائے۔ خلافت کا قیام مسلمانوں کی فکری، علمی اور تہذیبی تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ مغرب نے اسلامی تعلیمی نصاب اور میڈیا پر حملے کیے ہیں تاکہ مسلمانوں کو خلافت کے قیام سے دور رکھا جائے۔

میڈیا کی جنگ

مسلمانوں کے تعلیمی نظام اور میڈیا پر اثر ڈال کر، مغرب انہیں اسلامی شناخت سے محروم کرنے کی کوشش میں ہے۔ مغربی میڈیا، چاہے وہ ٹی وی چینلز ہوں یا سوشل میڈیا، اسلام کی حقیقی تعلیمات کو مسخ کرنے اور جہاد کو بدنام کرنے میں مصروف ہے۔

امریکی زوال کی پیشگوئیاں

کمیونزم کا خاتمہ اور امریکہ کی باری

فرانسس فوکویاما نے سوویت یونین کے زوال پر خوشی مناتے ہوئے لکھا کہ تاریخ ختم ہو چکی ہے اور مغرب کی جیت ہو چکی ہے، لیکن یہ دعویٰ بے بنیاد ثابت ہوا۔ جیسے کمیونزم کو زوال آیا، ویسے ہی امریکہ اور مغرب بھی اپنی ناکامی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

اسلام کا متبادل نظام

اسلامی عدل، معیشت، خاندانی نظام، اور روحانی سکون کا نظام ہی دنیا کے مسائل کا حل پیش کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کے پاس ایک متبادل نظام موجود ہے جو سرمایہ دارانہ نظام اور مغربی تہذیب کی خرابیوں کا علاج کر سکتا ہے۔

نتیجہ: اسلامی قوتوں کی بیداری کا وقت

مغرب کا زوال قریب ہے، اور مسلمانوں کو اپنی صفیں درست کرنی ہوں گی تاکہ خلافت کا قیام ممکن ہو۔ امت مسلمہ اگر اپنے دین کی طرف لوٹ آئے اور اتحاد و جہاد کو اپنائے، تو ان کے لیے کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی۔ اس وقت کے لیے تیاری ضروری ہے تاکہ مسلمان دنیا کی قیادت سنبھال سکیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1